کرکٹ انتظامیہ کا عروج اور کھیل کا زوال

07 فروری 2016
ٹیم انتظامیہ، کپتان اور کھلاڑی اپنے راستے میں خوش ہیں اوراسی میں آگے بڑھ گئے ہیں—فوٹو:اے ایف پی
ٹیم انتظامیہ، کپتان اور کھلاڑی اپنے راستے میں خوش ہیں اوراسی میں آگے بڑھ گئے ہیں—فوٹو:اے ایف پی

جب انگلیند ورلڈکپ 2015 کے کوارٹر فائنل سے قبل ہی شکست کھا کر ایونٹ سے باہر ہوا تو انگلینڈ اینڈ ویلز کرکٹ بورڈ (ای سی بی) سمجھ گیا تھا کہ اب تبدیلیوں کا وقت آ گیا ہے۔

یہ عمل گزشتہ آٹھ سال سے بورڈ کے سربراہ کے عہدے پر فائض جائلز کلارک کے استعفے سے شروع ہوا اور منیجنگ ڈائریکٹر پال ڈاؤٹن اور ہیڈ کوچ پیٹرمورس دونوں انتظامی اہلکاروں کو ایونٹ میں انگلینڈ کی عبرتناک شکست کا مرکزی ذمہ داران قرار دیتے ہوئے عہدے سے ہٹا دیا گیا۔

ای سی بی کے منصوبہ ساز نئے چیئرمین کولن گریویز کی زیر سرپرستی انگلینڈ کرکٹ کو اعلیٰ سطح کے پیشہ ورانہ معیار دلانے کے مشکل کام میں مصروف ہوگئے۔ بہت سارے سنجیدہ منصوبے، حکمت عملی اور منصوبہ سازی کو عمل میں لایا گیا۔ انگلش کرکٹ کی شہ رگ کو پکڑتے ہوئے ان منصوبہ سازوں نے محسوس کیا کہ کپتان، کھلاڑیوں اور کوچنگ کے عملے کو ایسی اتھارٹی کے سامنے جوابدہ بنایا جائے جو وسیع تجربے کی حامل، قابل احترام شخصیت ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی انتظامی تحریکی صلاحتیں بھی کر چکا ہو۔

اس کے فوراً بعد ڈائریکٹر کرکٹ کا عہدہ تخلیق کر کے سابق کپتان اینڈریو اسٹراس کو اس پر فائض کیا گیا، ای سی بی کے چیف ایگزیکٹو ٹام ہیریسن کی جانب سے اسٹراس کو ٹیم کی تیاری کیلئے کھیل کے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ اور وسیع تجربے کا حامل شخص قرار دیا گیا اور رگبی سے کئی سالوں قبل کرکٹ میں لیے گئے ہائی پرفارمنس منیجر کا عہدہ ان کے حوالے کیا گیا۔

دس مہینے کے عرصے میں انگلینڈ ٹیم کی فتوحات واضح کررہی ہیں کہ اسٹراس کی کارکردگی کس قدر شاندار ہے۔ انگلینڈ نے زمین سے اٹھتے ہوئے ورلڈکپ کی شکست کو پس پشت ڈال کر تمام مخالف ٹیموں کیلئے ایک خطرناک حریف کی شکل اختیار کر لی۔

مئی 2015 سے لے کر اب تک انگلینڈ نے ٹیسٹ کرکٹ میں نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کو ہوم گراؤنڈ میں ہرایا اور جنوبی افریقہ کو ان کے گھر میں شکست دی۔ اس کے علاوہ وہ ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی میں بڑی ٹیموں نیوزی لینڈ، آسٹریلیا اور بالخصوص پاکستان کے خلاف متحدہ عرب امارات میں ان کے لیے ناسازگار ماحول کے باوجود شکست دی۔ اس طرح کی کامیابیوں نے انگلینڈ کی ورلڈ کپ میں شکست کی ناخوشگوار یادیں بھلا دی ہیں اور وہ ایک بار پھر صف اول ٹیم بن رہے ہیں۔

نیوزی لینڈ بھی جنوبی افریقہ کے خلاف 2013 کے خوفناک دورے کے بعد اسی طرح کامیابی کی جانب گامزن ہے اور آج ان کا جارحانہ انداز کھیل انھیں ناقابل یقین کامیابیوں سے ہمکنار کرا رہا ہے۔

تاہم یہ ایک انتہائی تلخ بات ہے کہ پاکستان کرکٹ کے ناخداؤں کے پاس کھیل بہتر کرنے یا اس میں موجود خامیوں کو دور کرنے کے لیے وقت نہیں ہے۔ وہ بورڈ کے پیٹرن ان چیف کی جانب سے دی گئی اپنی آرام دہ سیٹوں پر بے فکر بیٹھے ہوئے ہیں، وہ اپنے ایجنڈے پر کام کرنے میں مصروف ہیں جو بینادی طور پر ملکی کرکٹ کے خرچے پر اپنے کام اور پیسہ بنانے سے منسلک ہے۔

جہاں ایک طرف چیئرمین شہریارخان بیانات اور جوابی بیانات کی خیالی دنیا میں مسلسل جی رہے ہیں تو ایگزیکٹیو کمیٹی کے چیئرمین نجم سیٹھی بھی اپنے ارد گرد کے لوگوں کو اپنے حربوں سے بے وقوف بنا رہے ہیں اور ان کی پی سی بی میں طویل عرصے سے موجودگی سے پاکستان کرکٹ حقیقی معنوں میں کچھ حاصل نہیں کر پایا۔

چیف سلیکٹر ہاروں رشید کے حوالے سے جتنا کم بولا جائے اتنا بہتر ہے۔ سابق بلے باز نے ٹیم انتظامیہ کی تابعداری میں اپنے دفتر کو مذاق بنا کر رکھا ہوا ہے اور حال ہی میں مالی فوائد سے بھرپور پاکستان سپر لیگ کے کوچنگ دستے میں شمولیت کے لیے آدھمکے۔

ہیڈ کوچ وقاریونس کوچنگ کے دوسرے دور میں کھلاڑیوں کو متحرک کرنے میں مایوس کن طور پر ناکام رہے۔ کھیل کے عظیم کھلاڑیوں میں سے ایک جن کے بارے میں ہرکوئی چاہے گا کہ وہ کھلاڑیوں کے ساتھ باپ کی طرح پیش آتے ہوئے ان میں خود اعتمادی اور بھروسہ پیدا کرتے ہوئےڈریسنگ روم میں مقابلے کا ماحول پیدا کرے۔

اس کے باوجود وقار کیلئے اپنی انا کو پس پشت ڈال کر اس سے آگے دیکھنا بہت مشکل ہے جبکہ کھلاڑیوں کے ساتھ شخصی تناؤ، بے جا تجربات اور بیٹنگ نمبر میں تبدیلی سے ٹیم کا مورال بھی گر رہا ہے۔

انگلینڈ کے آسٹریلوی نژاد کوچ ٹریور بیلس اور نیوزی لینڈ کے مائیک ہیسن سے موازنہ کریں تو دونوں نے بین الاقوامی سطح پر اپنے ملکوں کی نمائندگی نہیں کی، انھوں نے اپنی ٹیموں کو شکست خوردگی سے نکال کردنیا کے فاتحین میں تبدیل کردیا۔ ان کی کامیابی بہترین انتظامی اور اندرونی صلاحیت کی عکاس ہے۔ اس کے ساتھ ہر وقت پختہ ذہنیت کے ساتھ اپنے جذبات کو ٹیم کے فیصلوں پر سوار ہونے سے بچاتے اور کپتان پر مکمل بھروسہ کرتے ہیں۔

ہیسن نے موجودہ کیوی ٹیم کے کلچر کو 2013 کے مقابلے میں یکسر بدل دیا جب دوسال قبل جنوبی افریقہ نے نیوزی لینڈ کی انگ کو ایک ٹیسٹ میچ میں 45 رنز پر سمیٹ دیا تھا۔ اپنے ایک تازہ انٹرویو میں انھوں نے کہا تھا کہ سابقہ طریقہ کار کے تحت ٹاپ آڈر کی ناکامی کی صورت میں اننگ کی تباہی کے کلچر کو یکسر تبدیل کردیا گیا ہے جہاں اب نیوزی لینڈ کا ماننا ہے کہ وہ دنیا کی کسی بھی ٹیم کو ہراسکتے ہیں اور ٹیم میں انفرادی کارکردگی کے بجائے ٹیم میں مشترکہ کوششوں کے کلچر میں بدل دیا گیا ہے۔

ہیسن نے جو کچھ کہا وہ کوئی غیر مرئی چیز نہیں ہے تاہم وقار، مشتاق اور دیگر ذہنی صلاحیت میں اضافہ کئے بغیر ٹیم کی شکستوں کے ساتھ ابھر رہے ہیں اس سے ظاہر ہوتاہے کہ اکثر اوقات ان میں عام سوجھ بوجھ بھی مفقود ہوچکی ہے۔

مسئلے کی حقیقت یہ ہے کہ پی سی بی اور ٹیم انتظامیہ پاکستان کرکٹ کو غلط زاویے سے دیکھتے رہے ہیں، یہ ایک وجہ ہے جب ورلڈ ٹی ٹوئنٹی صرف پانچ ہفتوں کی دوری پر ہے، ہم اب بھی محض پانچ سال پیچھے ہیں اور ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی کی عالمی کرکٹ کی سب سے غیر مستقل ٹیم کے طور پھنسے ہوئے ہیں۔

اس سب کا مایوس کن پہلو یہ کہ پاکستان کرکٹ میں چاہے کسی کا کتنا ہی بڑا گناہ کیوں نہ ہو، کوئی کسی کے سامنے جوابدہ نہیں ہے۔ ہرکوئی پی سی بی کے اہلکاروں سے لے کر ٹیم انتظامیہ، کپتان اور کھلاڑی اپنے راستے میں خوش ہیں اور اسی میں آگے بڑھ گئے ہیں۔ یہ صرف میڈیا ہے جس سے وہ خوف کھاتے اور کچھ احتساب ہوتاہے اور اسی لیے مناسب یہی ہے کہ میڈیا اس سختی کو برقرار رکھے۔

قلم کار ڈان اسپورٹس کے ایڈیٹر ہیں.


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

تبصرے (0) بند ہیں