10سالہ افغان 'ہیرو' عسکریت پسندوں کے ہاتھوں قتل

اپ ڈیٹ 04 فروری 2016
واصل احمد نے اپنے انکل کے ساتھ متعدد مواقع پر طالبان سے لڑائی میں حصہ لیا تھا—۔فوٹو/ بشکریہ ٹوئٹر
واصل احمد نے اپنے انکل کے ساتھ متعدد مواقع پر طالبان سے لڑائی میں حصہ لیا تھا—۔فوٹو/ بشکریہ ٹوئٹر

کابل: طالبان سے جنگ کے باعث 'ہیرو' کا درجہ پانے والے 10 سالہ افغان لڑکے کو اسکول جاتے ہوئے عسکریت پسندوں نے قتل کردیا.

خبر رساں ادارے اے پی نے ڈپٹی پولیس چیف رحیم اللہ خان کے حوالے سے بتایا کہ واصل احمد کو جنوبی صوبے ارزگان کے دارالحکومت ترین کوٹ میں ہلاک کیا گیا.

واصل نے اپنے ایک انکل کے ساتھ متعدد مواقع پر طالبان سے لڑائی میں حصہ لیا تھا.

10 سالہ واصل مقامی سلیبرٹی کی حیثیت سے جانا جاتا تھا اور سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی اُس کی بے شمار تصاویر میں اسے یونیفارم اور ہیلمٹ پہنے ایک آٹومیٹک ہتھیار پکڑے دیکھا جاسکتا ہے.

ڈپٹی پولیس چیف رحیم اللہ کے مطابق واصل کے انکل ایک سابق طالبان کمانڈر تھے، جنھوں نے بعد میں حکومت سے وفاداری اختیار کرلی اور انھیں ضلع خاص ارزگان میں مقامی پولیس کمانڈر کی حیثیت سے تعینات کیا گیا.

واضح رہے کہ بچوں کو بطور سپاہی استعمال کرنا افغانستان میں غیر قانونی ہے تاہم فلاحی تنظیم چائلڈ سولجرز انٹرنیشنل کے مطاق حکومتی فورسز اور عسکریت پسند کافی عرصوں سے بچوں کو اس مقصد کے لیے بھرتی کر رہے ہیں.

مذکورہ تنظیم کی آرگنائزیشن اینڈ ایڈووکیسی ڈائریکٹر چارو لتا ہوگ کے مطابق افغان حکومت سیکیورٹی فورسز میں بچوں کو بھرتی کرنے کو روکنے کے عزم کے باوجود اس حوالے سے 'سست پیش رفت' کر رہی ہے.

جون 2015 میں اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل میں پیش کی گئی ایک رپورٹ میں لندن سے تعلق رکھنے والی ایک فلاحی تنظیم کا کہنا تھا کہ بچوں کو افغان نیشنل پولیس اور مقامی افغان پولیس نے بھرتی کیا، جس کی بنیادی وجہ غربت تھی، جبکہ ڈیوٹی،حب الوطنی اور عزت و غیرت بھی اس کے عوامل میں شامل تھے.

افغانستان کے انڈیپنڈنٹ ہیومن رائٹس کمیشن نے واصل کی ہلاکت کا ذمہ دار اس کے خاندان، حکومت اور طالبان کو قرار دیا.

ترجمان رفیع اللہ بیدار کا کہنا تھا کہ مقامی پولیس نے واصل کو ایک 'ہیرو' قرار دیا تھا، جس نے اپنے والد کی ہلاکت کے بعد طالبان سے مقابلہ کیا تھا.

رفیع اللہ کے مطابق 'امکان یہی ہے کہ اس نے اپنے والد کی ہلاکت کے بعد انتقاماً ہتھیار اٹھایا، لیکن پولیس کی جانب سے اسے ہیرو قرار دینا اور اس کی شناخت کو ظاہر کرنا غیر قانونی تھا.'

ان کا مزید کہنا تھا کہ ایک فریق نے اسے مشہور کیا اور دوسرے فریق نے اسے قتل کردیا، لیکن دونوں نے قانون کو نظر انداز کرکے ایک غیر قانونی کام کیا.

یہ خبر 4 فروری 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں