پی آئی اے کا مسئلہ تحمل سے حل کریں

04 فروری 2016
طویل دورانیے تک لوگوں کو مشکلات میں ڈالے رکھنے سے مظاہرین کو ہمدردی حاصل نہیں ہوگی. — اے ایف پی/فائل
طویل دورانیے تک لوگوں کو مشکلات میں ڈالے رکھنے سے مظاہرین کو ہمدردی حاصل نہیں ہوگی. — اے ایف پی/فائل

ایک جمہوری ملک کے سربراہ کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ اس بے حس انداز میں گفتگو کرے۔ منگل کے روز احتجاج کرنے والے پی آئی اے کے ملازمین کے ساتھیوں کی ہلاکت کے باوجود وزیرِ اعظم نواز شریف نے یونین ورکرز کے خلاف سخت رویہ اپنائے رکھا۔

ان کے ساتھ ہی ان کے کچھ وزراء کھڑے تھے جو ان کی ہاں میں ہاں ملاتے رہے اور عملی طور پر پی آئی اے یونین کے مظاہرین کو 'ریاست کا دشمن' قرار دے کر ملازمت سے نکال دینے کی دھمکی دیتے رہے۔ یہ تب ہوا جب ملازمین اپنی نوکریوں کے مستقبل کو لے کر غیریقینی کیفیت کا شکار تھے، اور اس دن ہوا جب وہ اپنے خلاف قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کا ایکشن اور اپنے دو ساتھیوں کی موت دیکھ چکے تھے۔

چاہے کوئی شخص یونین، مظاہرین اور ایئرلائن کے بارے میں کوئی بھی رائے رکھتا ہو، پرامن مظاہرین کا مارا جانا یا زخمی ہونا ایک بہت بڑا سانحہ ہے، اور اسے ملکی قیادت کی جانب سے سانحہ ہی سمجھا جانا چاہیے۔

مظاہرین کو بھی یہ سمجھنا چاہیے کہ لوگ اب ان کی حکمتِ عملی سے عاجز آچکے ہیں۔ انہوں نے ایئرلائن گراؤنڈ کر کے اپنی طاقت دکھا دی ہے اور انہیں اب اپنے مظاہروں کو ختم کرنا چاہیے۔

طویل دورانیے تک لوگوں کو مشکلات میں ڈالے رکھنے سے انہیں وہ ہمدردی حاصل نہیں ہوگی جسے وہ اپنے مقصد کے لیے ضروری سمجھتے ہیں۔ انہیں یہ سمجھنا ہوگا کہ پی آئی اے میں موجود اسٹیٹس کو کا اب دفاع نہیں کیا جا سکتا اور قومی ایئرلائن کو مکمل تباہی سے بچانے کے لیے وسیع پیمانے پر کوشش کی ضرورت ہے، ورنہ یہ ٹیکس ادا کرنے والے عوام پر پہلے سے بھی زیادہ بڑا بوجھ بنی رہے گی۔

یونین کی جوائنٹ ایکشن کمیٹی کی جانب سے جو مطالبات پیش کیے گئے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ "پی آئی اے کے ملازمین کو ایئرلائن میں اصلاحات کا موقع دیا جائے۔" ہم اس مطالبے کو کیسے سنجیدگی سے لیں؟ کیا ان کے پاس طاقت کے اظہار اور نعرے بازی سے بڑھ کر کوئی منصوبہ ہے جس سے وہ اتنا بڑا کام کر دکھا سکیں؟ 300 ارب روپے سے زیادہ کے خسارے کو نفع میں تبدیل کرنے کے لیے ان ملازمین کے پاس کیا وژن ہے؟

اس مسئلے کو مزید پیچیدہ ہونے سے بچانے کے لیے ٹھنڈے دماغوں کی ضرورت ہے۔

اپوزیشن جماعتوں کو بھی اس صورتحال کو سیاسی مفاد کے لیے استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ پاکستان تحریکِ انصاف نے سوچا تھا کہ وہ ودہولڈنگ ٹیکس کے خلاف تاجروں کے غصے کو استعمال کر سکے گی مگر بعد میں جب تاجروں اور حکومت کے درمیان معاہدہ طے پا گیا اور انہوں نے اپنا احتجاج ختم کر دیا، تو پی ٹی آئی اکیلی رہ گئی۔ اس لیے یہ غلطی اب دوبارہ نہیں دہرائی جانی چاہیے۔

وقت کی ضرورت ہے کہ تمام سیاسی قوتیں تحمل اور بردباری سے کام لیں، انتہائی سخت مؤقف اختیار کرنے سے گریز کریں، اور غصے کی آگ کو ہوا دینے کے بجائے پی آئی اے کو واپس اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے لیے کام کریں۔ پہلے قدم کے طور پر حکومت کو پی آئی پر لازمی سروسز ایکٹ کے نفاذ سے پرہیز کرنا چاہیے۔

توجہ اس بات پر ہونی چاہیے کہ پی آئی اے کو واپس بحالی کے راستے پر کیسے لایا جائے۔ مگر یہ تب تک نہیں ہوگا جب تک کہ تحمل کے بجائے بلند آوازوں اور طاقت کے اظہار سے کام لیا جاتا رہے گا۔

انگلش میں پڑھیں.

یہ اداریہ ڈان اخبار میں 04 فروری 2016 کو شائع ہوا.

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

zulfiqar Feb 05, 2016 02:02pm
jin logoon ka PIA say door ka bhi wasta nhi hay .... hkoomat un kay tax say PIA ko payment na karay .... Awam ko wapda, Pakistan steel, or PIA kay khilaf stand lyna chaeay ,,, we are not ready to pay them from our taxes ........ yay govt ka issue nhi balkay humara mutalba hona chaheay