اسلام آباد: افغانستان میں طویل خانہ جنگی کے بعد قیام امن کے لیے کی جانے والی کوششوں کے سلسلے میں افغان حکومت اور طالبان کے درمیان امن مذاکراتی عمل کو سہولت دینے کے لیے چار فریقی گروپ (کیو سی جی) کی جانب سے آج ممکنہ طور پر روڈ میپ کو حتمی شکل دیئے جانے کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے۔

تاہم ایسا معلوم ہوتا ہے کہ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکراتی عمل کے آغاز میں کئی ماہ درکار ہیں۔

خیال رہے کہ مذکورہ گروپ کا تیسرا اجلاس آج اسلام آباد میں ہونے جارہا ہے، گروپ میں پاکستان، افغانستان، امریکا اور چین کے حکام شامل ہیں۔

چار فریقی گروپ کے تمام رکن ممالک نے گزشتہ سال دسمبر میں ہونے والی ہارٹ آف ایشیا کانفرنس کے موقع پر افغان امن مذاکراتی عمل کے دوبارہ آغاز کے لیے مل کر کام کرنے پر اتفاق کیا تھا۔

اس سے قبل ہونے والے چار فریقی گروپ کے 2 اجلاس اسلام آباد اور کابل میں ہوئے تھے۔

مزید پڑھیں: افغانستان میں امن کیلئے چار فریقی اجلاس پراتفاق

یاد رہے کہ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکراتی عمل کے لیے روڈ میپ بنانے کی تجویز چین نے دی تھی.

ذرائع کا کہنا تھا کہ چین نے منصوبے اور مکمل طریقہ کار کی ڈاکیومنٹنگ پر زور دیا تھا۔

ذرائع نے مزید کہا کہ 'روڈ میپ کا عمل ایک ایسی چیز ہے جو اس سے پہلے مری میں ہونے والے مذاکراتی عمل سے اسے ممتاز کرتا ہے، یہ مذاکراتی عمل ملا عمر کی موت کی خبر شائع ہونے سے تعطل کا شکار ہوگیا تھا'۔

اسلام آباد میں ہونے والے گروپ کے پہلے اجلاس میں افغانستان نے روڈ میپ کے ڈرافٹ کی تجویز پیش کی تھی۔

افغانستان کی جانب سے چار فریقی گروپ کی قیادت کرنے والے افغان نائب وزیر خارجہ حکمت خلیل کرزئی نے پہلے مرحلے کے بعد کہا تھا کہ ڈرافٹ تین چیزوں پر مشتمل ہونا چاہیے — مذاکرات سے پہلے کی مدت، طالبان سے براہ راست مذاکرات اور عمل درآمد کا مرحلہ۔

چاروں ممالک نے اہم نکات پر 'سیکشن ٹو سیکشن' بات چیت کی اور اب یہ اس مرحلے پر ہے جہاں اسے اختیار کیا جاسکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ’افغانستان میں امن کیلئے تعمیری مذاکرات ضروری‘

ذرائع کا کہنا تھا کہ 'روڈ میپ کو اختیار کرنے اور اس پر عمل درآمد کے لیے معاہدہ تقریبآ مکمل ہے۔ اس میں یہ طے پایا ہے کہ کہ اس پر افغانستان کے زیر انتظام پہل کی جائے گی، جو اُن کی جانب سے مطلوبہ امن کے قیام کی راہ ہموار کرے گا'۔

ذرائع کے مطابق روڈ میپ 3 مرحلوں پر مشتمل ہے لیکن یہ حکمت خلیل کرزئی کے بیان کردہ مراحل سے مختلف ہے۔

ذرائع نے دعویٰ کیا کہ پہلے مرحلے میں چاروں فریق ممالک، طالبان کو پیغام دینے کے لیے ایک حکمت عملی مرتب کریں گے اور فریقین کی ضرورت ذمہ داریاں بھی بتائی جائیں گی اور ساتھ ہی ایسے اقدامات بھی، جو اُن کی جانب سے مطلوب ہیں۔

دوسرے مرحلے میں یہ فیصلہ کیا جائے گا کہ طالبان سے کیسے اور کن شرائط پر مذاکرات کیے جائیں گے، جس میں افغان حکومت کی جانب سے فراہم کردہ اعتماد سازی کے اقدامات بھی شامل ہوں گے۔ ان دونوں مرحلوں کی تکمیل رواں سال مارچ میں متوقع ہے۔

مزید پڑھیں: پاک-افغان خفیہ اداروں کے سربراہوں میں مذاکرات

جس کے بعد روڈ میپ کے تیسرے مرحلے کا آغاز کیا جائے گا، اور اس میں افغان حکومت متحارب دھڑے کو عوامی طور پر مذاکرات کی دعوت دے گی۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ 'یہ شاید اپریل کے قریب متوقع ہے'۔

ذرائع کا مزید کہنا تھا کہ آخری مرحلے کا انحصار طالبان کی جانب سے مذاکرات کی دعوت قبول کرنے یا نہ کرنے پر ہے، جو مطلوبہ یا نظر ثانی شدہ ہوسکتی ہے۔

افغانستان کے چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ نے گذشتہ دنوں نئی دہلی میں ایک انٹرویو کے دوران کہا تھا کہ امن مذاکراتی عمل کا آغاز آئندہ 6 ماہ میں ہو سکتا ہے۔

دوسری جانب افغان حکومت اور طالبان کے درمیان براہ راست مذاکرات کے آغاز سے قبل غیر رسمی ملاقاتیں بھی ممکن ہیں۔

یہ خبر 6 فروری 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں