کراچی ادبی 'تماشا'

اپ ڈیٹ 06 ستمبر 2017
آصف فرخی کراچی لٹریچر فیسٹیول کے ابتدائی سیشن سے خطاب کر رہے ہیں — ڈان امیجز
آصف فرخی کراچی لٹریچر فیسٹیول کے ابتدائی سیشن سے خطاب کر رہے ہیں — ڈان امیجز

ولیم شیکسپیئر سے سعادت حسن منٹو تک، مقبولیت کا حوالہ صرف وہ ادب ہے جو انہوں نے تخلیق کیا۔ جین آسٹن سے بانو قدسیہ تک، سب کی ادبی ریاضت نے انہیں شہرت دی۔ میرتقی میر سے ناصر کاظمی تک، سب کا شعری اثاثہ ان کی تخلیقی معراج بنا۔ ہر دور میں تخلیق ہی واحد پیمانہ رہے گا۔ کسی بھی دور میں تخلیق کار کی کوششوں کو پرکھنے اور سمجھنے کا کوئی دوسرا ذریعہ کام آسکتا ہے نہ ہی آئے گا۔ اتفاق ہے کہ جتنے ادیبوں کا یہاں حوالہ دیا گیا ہے، ان میں سے کوئی بھی کسی لٹریچر فیسٹیول کی بدولت ادیب نہیں بنا۔

عُشاقِ ادب کی کسوٹی اتنی کچی نہیں ہوتی، جن کو ادبی اشتہار بازی چکمہ دے سکے۔ ہرعہد میں اشتہار بازی کے غلغلے بلند ہوئے، خوشامدیوں کا دربار سجا، شعر و ادب کے قدآور اور پست قد ہونے کے فیصلے ہوئے، مگر آخری فیصلہ وقت نے ہی کیا۔ ان فیصلوں میں مؤرخ اور قاری کا کردار کلیدی ہوتا ہے۔ ایسا نہ ہوتا تو اُستاد ابراہیم ذوق (جو بڑے ہی استاد تھے) آج ہر کسی کی نگاہ کا محور ہوتے اور مرزا غالب کا کوئی تذکرہ کرنے والا نہ ہوتا۔

عالمی کانفرنسوں یا لٹریچر فیسٹیولز کا انعقاد کوئی نئی بات نہیں۔ قیام پاکستان کے بعد ادبی منظرنامے پر کثرت سے ایسی مجلسی روایات کا دور دورہ رہا۔ ترقی پسندوں کی محفلیں، حلقہء اربابِ ذوق کے جلسے، پاک ٹی ہاؤس کی نشستیں اور دیگر ادبی حلقوں کے تحت منعقد ہونے والے ادبی مذاکرے اور اجلاس روشن اذہان کے لیے بصیرت افروز خیالات کے سرچشمے تھے۔ کراچی میں سلیم احمد اور مظہر جمیل کے ہاں ہونے والی مکالماتی گفتگو، لاہور میں احمد ندیم قاسمی اور ڈاکٹر وزیر آغا کے ہاں جمنے والی نشستیں، یہ سب ایک جہانِ دیگر تھا، مگر ادب کے نام پر جیسا طوفانِ بدتمیزی اب دیکھنے کو مل رہا ہے وہ بیان سے باہر ہے۔

بات صرف یہیں تک محدود رہتی تو خیر تھی، مگر کمبخت یہ ہوسِ شہرت بھی کیا بری بلا ہے۔ خوب سے خوب تر کی تلاش میں جانے کے بجائے ابتری کی طرف دھکیل دیتی ہے۔ یہی کچھ موجودہ ادبی منظرنامے کے نام نہادوں کے ساتھ ہو رہا ہے۔ وہ جس قدر قوت سے ادب کا نعرہ لگاتے ہیں، اسی شدت سے معاشرتی فضا میں بے ادبی کا احساس بڑھ جاتا ہے۔ کیسی عجب کیفیت ہے، جیسے کسی کی بددعا لگ گئی ہو۔ شعر و ادب کی یہ بے سر و سامانی اب دیکھی نہیں جاتی۔ پرانے زمانوں میں ادب کیا جاتا تھا، اچھے زمانوں میں ادب لکھا جاتا تھا، عہدِ حاضر میں ادب صرف برتا جا رہا ہے، مگر کیسے؟ آگے پڑھیے۔

پاکستان میں جب ٹیکنالوجی کا انقلاب آیا، ریڈیو، ٹیلی وژن، موبائل اور انٹرنیٹ نے معاشرتی طرزِ زندگی کو بدل کے رکھ دیا، تو ادبی حلقوں میں یہ بات تواتر سے کہی جانے لگی کہ کتب بینی کا رجحان دم توڑ رہا ہے، لوگوں میں اخبارات پڑھنے کی عادت ختم ہو رہی ہے، وغیرہ وغیرہ، جبکہ حقیقت اس کے برعکس تھی۔

مگر اس صورتحال سے معاشرے میں پیسے کمانے کے نت نئے ذرائع ہاتھ آگئے۔ ہر ایک نے اپنے اپنے انداز سے یہ کھیل کھیلنا شروع کردیا۔ ایسے میں بھلا ادب کے مداری کسی سے کیوں پیچھے رہتے۔

شعر و ادب سے وابستہ اور کتابوں کے کام سے تجارتی طور پر جڑے ہوئے لوگوں سے بات کی جائے، تو اکثریت ہمیشہ مالی خسارے، معاشی بدحالی یا حالات اچھے نہ ہونے کا رونا روتی نظر آئے گی، بالخصوص ناشرین، جن میں سے اب کئی نام نہاد ادیب بھی بن گئے ہیں۔

پڑھیے: اردو کانفرنس: ادب کی تجارت کا دوسرا نام؟

پاکستان میں سوائے ایک دو اشاعتی اداروں کے کوئی بھی قلم کاروں کو رائلٹی نہیں دیتا، بلکہ اب تو ہم شعر و ادب کے جس دور میں داخل ہوگئے ہیں، وہ ”عہدِ رَدّی“ ہے، کتابیں بہت چھپتی ہیں، مگر قارئین کی تعداد قلیل ہے۔

یہ ایسا زرق برق عہد ہے، جس میں لوگ پیسے خرچ کر کے کتابیں چھپواتے اور مفت تقسیم کرتے ہیں۔ ناشرین ترقی کر کے دوکان دار اور صاحب کتاب ہونے کے شوقین گاہکوں میں تبدیل ہوگئے ہیں۔ پاکستان میں اس ادبی و تجارتی امتزاج نے ایک نیا ادبی طبقہ متعارف کروایا ہے، جس کی تفصیلات انتہائی ہوشربا ہیں۔

چند دن پہلے کراچی کے نجی ہوٹل میں تین روزہ ”ساتواں کراچی لٹریچر فیسٹیول“ منعقد ہوا (لفظ لٹریچریادرکھیے گا). یہ فیسٹیول ابتدائی دو برسوں تک تو معیاری رہا مگر اب اسے ہر سال برپا ہونے والا تماشا کہا جائے تو غلط نہیں ہو گا۔ مگر جب لوگوں کو اس فیسٹیول کے معیار کا یقین آگیا، تو انتظامیہ نے وہی کیا، جو اکثر ہوتا ہے۔ کوئی نئی پروڈکٹ آتی ہے، تو معیاری ہوتی ہے، جب چل جائے، تو پھر وہ خود اس کی نقل بنانے لگتے ہیں، یا کوئی اور یہ فریضہ انجام دیتا ہے۔ اب گزشتہ کئی برسوں سے ادب کے نام پر کیا کچھ ہورہاہے، اس کے لیے میری گزشتہ برس کی تحریر ملاحظہ کیجیے اورسر دُھنیے، لیکن "پکچر ابھی باقی ہے۔"

مزید پڑھیے: کراچی لٹریچر فیسٹیول: اونچی دکان، پھیکا پکوان

پہلے روز پہلا سیشن ایک غیر ملکی خواجہ سرا کے اعزاز میں تھا۔ ان کی تشریف آوری ہندوستان سے ہوئی۔ حیرت ہے کہ انتظامیہ کو الماس بوبی کا خیال نہیں آیا جنہوں نے اپنے ملک کے خواجہ سراؤں کے حقوق کے لیے ہر فورم پر آواز اٹھائی ہے۔

اس سے زیادہ حیران کن بات یہ ہوئی کہ ہندوستان میں پاکستانی ہائی کمیشن نے اس خواجہ سرا کو تو ویزہ دے دیا، مگر ہندوستانی اداکار انوپم کھیر جن کی اداکاری پر اب میں کامل یقین لے آیا ہوں، انہیں نہیں دیا۔ اس بات میں کتنی صداقت ہے، یہ تو رہنے ہی دیں، مگر انہوں نے اس کے بعد پاکستان کے خلاف کیا کچھ کہا، وہ تو آپ کے علم میں ہی ہوگا۔ اب اندازہ کیجیے، اس فکر کے لوگ کراچی لٹریچر فیسٹیول کی انتظامیہ کا انتخاب ہیں۔

اس کے علاوہ جن موضوعات پر سیشن ہوئے، ان میں اسکولوں میں تدریس اور والدین کی شمولیت، پاکستانی ٹیلی وژن، سینما، کالم، بلاگز، ڈائجسٹ، اسٹینڈاپ کامیڈی، آرٹ، گلوبلائزیشن، گورننس، ٹیکنالوجی کا استعمال، تھرپارکر، غربت، این جی اوز ایجنڈے، انوویشنز کی اقسام، فوٹوگرافی، آسکر لیڈی کی مداح سرائی، لبرل آرٹس، منٹو فلم، کشمیرکا تنازع، خواتین کے حقوق، پاکستان میں مختلف نظریات کا پرچار، اقلیتوں کے مسائل، امداد، تجارت، دوسرے ممالک سے ریاستی تعلقات اور دیگر موضوعات پر سیر حاصل گفتگو ہوئی۔

امید ہے کہ ان موضوعات سے انگریزی اور اردو شعر و ادب کا دامن مالا مال ہوگیا ہوگا۔ ہندوستان سے آئی ہوئی خاتون صحافی برکھا دت نے بے خوف ہوکر کہا ”کشمیر میں کوئی حالات خراب نہیں، وہ بھارت کا اٹوٹ انگ ہے۔“

جن موضوعات کا یہاں تذکرہ ہے، ان پر ضرور بات ہونی چاہیے، یہ سب اہم ہیں، مگر لٹریچرکے نام پر ان کو موضوع گفتگو بنانے کی کیا سوجھی کہ فیسٹیول میں ادب آٹے میں نمک کے برابر رہ گیا۔ اب نمک پر کیا روشنی ڈالی جائے، جب ہر طرف آٹا ہی آٹا دکھائی دے۔

ہندوستانی اداکار انوپم کھیر تو پہلے ہی منظرنامے سے بھاگ لیے تھے۔ ان کے احترام میں ہندوستانی اداکارہ نندتا داس بھی بیماری کا کہہ کر کے رخصت ہولیں۔ آخرکار میلے کا سارا بوجھ اکیلے سرمد کھوسٹ نے اٹھایا، یہ فلم منٹو کے ہدایت کار مرکزی کردار نبھانے والے وہی صاحب ہیں، جو اپنی فکشن فلم 'منٹو' کو سعادت حسن منٹو کی سوانح کہتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ جب یہ اپنی اسی فلم کی تشہیری مہم کے سلسلے میں امریکا کے دورے پر گئے تھے، تو معروف تاریخ دان اور منٹو کی عزیزہ ڈاکٹرعائشہ جلال نے ان کی خوب خبر لی۔

ویڈیو: سرمد سلطان کھوسٹ سے عائشہ جلال کا انٹرویو

نئی آوازوں کے سیشن میں فیسٹیول کے ڈائریکٹر کو ہرسال چند ناموں کے سوا (چالیس برس سے زیادہ کے نوجوان قلم کار) پورے ملک میں نوجوان نسل کے لکھنے والے دکھائی ہی نہیں دیتے۔ یہی صورت حال سینئر لکھنے والوں کے لیے بھی ہے۔ چند ایک مخصوص ادبی شخصیات، جن کو کافی پذیرائی مل چکی، ان کے علاوہ ان میلوں میں کسی اور کا نام دکھائی ہی نہیں دیتا۔

ایسی کئی شخصیات شعر و ادب کے شعبے میں موجود ہیں، جن کی پذیرائی ہونی چاہیے، مثال کے طور پر ترجمے کے شعبے میں شاہد حمید، محمد مظاہر، باقر نقوی، اجمل کمال، ادبی تنقید میں ڈاکٹر رؤف پاریکھ، سرور جاوید، ڈاکٹر تبسم کاشمیری، ڈاکٹر تحسین فراقی، انور سدید، ڈاکٹر ممتاز احمد خان، تحقیق میں ڈاکٹر یونس حسنی، شاعری میں ظفر اقبال، نصیر ترابی، تصوف اور مولانا رومی پر پی ایچ ڈی کرنے والے اور جامعہ کراچی کے شعبہ انگریزی کے استاد ڈاکٹر افتخار شفیع اور دیگر ایسے ہی کئی اور اہم نام لیے جاسکتے ہیں۔

سینئر اور نئی نسل کے متعدد لکھنے والے بھرپور فعال ہیں، ان کی کتابیں بھی شائع ہورہی ہیں، یہ سب کچھ کیوں دکھائی نہیں دیتا۔ سیشنز کی بات کی جائے تو میں سینما کا سیشن معروف سائنس دان پرویز ہود بھائی کے نام کھلا۔ ڈائجسٹ کے سیشن میں ڈرامانگاروں کو شامل کیا گیا، ان میں سے ایک دو شخصیات نے کہا بھی کہ ہمارا اس موضوع سے کیا تعلق؟ ایک تنقید کی کتاب کے مصنف کے ساتھ ایک تحقیق کے آدمی کو بٹھا دیا۔ مادری زبان کے سیشن سمیت اردو زبان سے متعلق دیگر سیشن بھی ماہرین لسانیات کے بغیر ہی منعقد ہوئے۔

کشمیر پر ہونے والے سیشن میں یہی غیر پیشہ ورانہ رویہ برقراررہا۔ انسانی حقوق کے شعبے میں فریال گوہر کو ایک سال خواتین کے حقوق میں جگہ ملتی ہے، دوسرے برس ناول نگاری میں اور اداکاری کا شعبہ باقی ہے۔ ایک ہی شخصیت کو موضوعات کے گرد گھماتے رہتے ہیں۔ انگریزی زبان کی چند ایک خاتون ناول نگار ہیں، جنہوں نے عرصہ ہوا، نیا ناول نہیں لکھا، مگر ہر سال باقاعدگی سے مرکزی اسپیکرز میں ہوتی ہیں۔

تصوف کے موضوع پر ڈاکٹر نعمان الحق کے علاوہ کوئی آدمی پاکستان میں کام ہی نہیں کر رہا، ہر سال انہی کو زحمت دی جاتی ہے۔ سندھی زبان میں امر جلیل، جن کا میں بے حد مداح بھی ہوں، مگر ان کے علاوہ بھی بہت ہی زرخیز اور تخلیقی قلم کار سندھی ادب موجود ہیں، جن کو مدعو کیا جا سکتا ہے۔ بلوچستان تو بالکل فراموش کیا ہواہے، بس اس خطے پر ایک کتاب کو اعزاز دے کر فرض پورا کرلیا گیا۔

کتابوں کے حوالے سے اجرا کی جو تقریبات ہوئیں، ان میں آکسفورڈ کی شائع شدہ کتابوں کے علاوہ جن کتابوں کے لیے یہ اہتمام کیا گیا، وہ اس مرحلے سے کب کی گزر چکیں، مگردوبارہ ان کے لیے اجرا کرنے کا تکلف کیا گیا۔ ان کتابوں کے مصنفین میں خشونت سنگھ، برکھا دت، سٹورٹ سچار، اسٹیفین کوپی تزکے، خورشید محمد قصوری، نور ظہیر، ٹپو جویری اور دیگر شامل ہیں۔

ادبی اعزازات میں بھی خوب رہی، نثری نظم کی کتاب کو بہترین شاعری کا ایوارڈ ملا، اردو نان فکشن میں ڈاکٹر اسلم فرخی کو اعزاز دیا گیا، جبکہ ان کو اس ایوارڈ کی قطعاً ضرورت نہیں، ان کی نثر لاجواب ہے، خاکہ نگاری میں کوئی ان کا ثانی نہیں، پاکستان کے تمام بڑے ادبی اعزازات حاصل کرچکے ہیں، اگر فکشن میں مستنصر حسین تارڑ بھی اپنا ناول جمع کرادیتے، تو کیا پھر عاصم بٹ کو یہ اعزاز ملتا؟

کچھ شخصیات اس دوڑ میں شامل نہیں ہونی چاہیئں۔ ان کا مقام اعزازات سے آگے کا ہے، نہ جانے ان کو کیوں اس دوڑ میں شامل کیا گیا۔ ان کے لیے لائف ٹائم اچیومنٹ جیسے کسی ایوارڈ کی اختراع کرنی چاہیے۔ انگریزی ایوارڈز کا حال بھی اس سے مختلف نہ تھا۔

لٹریچر فیسٹیول میں معدے کی آگ بجھانے کا بھی خوب انتظام تھا۔ کئی غیر ملکی سفارت خانوں اور ثقافتی اداروں کی طرف سے مالی معاونت دستیاب تھی، پھر بھی کتب فروشوں سے پیسے لے کر انہیں کتابوں کے اسٹال لگانے کی سعادت حاصل ہوئی۔ البتہ چائے مفت تھی، وہ بھی چائے والی کمپنی کی مہربانی سے۔

مختلف مہمان جو مختلف شہروں اور ممالک سے آئے ہوئے تھے، ان کے قیام و طعام کا انتظام بھی اسپانسرز کی مہربانی سے کیا گیا تھا۔ ان تین دنوں میں سے ایک شام نجی ٹیلی وژن کے مالک کی طرف سے کھانے کی دعوت پر میلے کی انتظامیہ چند چہیتے مہمانوں کو لے کر وہاں سے چل دی، ہوٹل نے پیچھے رہ جانے والے مہمانوں کو کھانا دینے سے انکار کردیا۔ وہ رات انہوں نے کیسے اپنے کھانے کا انتظام کیا، کسی کو دلچسپی ہو تو اس کی بھی مزید تفصیل دی جاسکتی ہے۔

یقینآ پاکستان میں معیاری ادب تخلیق ہوتا رہے گا، اچھی کتابیں لکھی جاتی رہیں گی، نوجوان نسل اس طرح کے فیسٹیول کے بغیر بھی اپنی ریاضت کو جاری رکھیں گے، صرف جنون شرط ہے اور وہ اس دولت سے مالا مال ہیں۔ لیکن ادب کے نام پر اس طرح کے فضول 'فیسٹیول' کی انتظامیہ کو اپنی کارکردگی کا ضرور جائزہ لینا چاہیے کیونکہ اس طرح کے غبارے سے ادبی ہوا کبھی بھی نکل سکتی ہے۔ اگر ان سے کچھ نہیں ہو سکتا تو کم از کم اس فیسٹیول سے 'لٹریچر' یا 'ادب' کا نام خارج کر دینا چاہیے.

تبصرے (11) بند ہیں

Omair Feb 10, 2016 06:49pm
very good analysis of this farce called 'literature' festival.
حسن امتیاز Feb 10, 2016 07:14pm
بہت زبردست آپ نے تو کراچی لٹریچر فیسٹیول کا پوسٹ مارٹم ہی کردیا
نجیب احمد سنگھیڑہ Feb 10, 2016 08:54pm
کراچی ایک معاشی شہر ہے اور معیشتی شہر میں دولت، مال پانی، منافع، پیسہ موضوع عام ہوتا ہے اور جہاں معیشتی ازم ہو گا وہاں پر لٹریچر نہیں ہو گا کیونکہ لٹریچر معیشتی ذہنیت کی نفی کرتا ہے اور انسان کو اللہ لوک بنانے کی ترغیب دیتا ہے۔ دولت اور اللہ لوک ازم ایک ساتھ اکٹھے نہیں رہ سکتے اور یہ ایک دوسرے کی ضد ہوتے ہیں۔ کراچی میں جو بھی ادبی سیمینارز اور فئیرز ہوتے ہیں وہ صرف دکھاوا ہوتے ہیں۔ لٹریچر یا تو لائلپور میں اپنا اثر دکھاتا ہے اور یا پھر لاہور میں۔
Anwar Amjad Feb 10, 2016 10:51pm
Good observations. The literary festival would be more meaningful with the active involvement of academic and literary people instead of a foreign printing press which is more interested in stirring up political issues.
یمین الاسلام زبیری Feb 10, 2016 11:10pm
لگتا ہے کہ خرم صاحب کا لکھا سب ہی سچ ہے ، ورنہ کوئی تو اس کی تردید کرتا۔ اگر ایسا ہے تو ہمارے ادبی محاذ کا حال کچھ اچھا نہیں، افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے۔ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں اور اب پھر آواز اٹھا تا ہوں کہ بچوں کے ادب پر بہت زیادہ زور دینا چاہیے، اور اسکولوں میں بچوں پر پابندی ہو کہ وہ کچھ کتابیں ہر ہفتہ ختم کیا کریں۔
فرحان فانی Feb 11, 2016 02:02pm
خرم صاحب! آپ تو بہت ناراض ہیں ۔
Parishey Feb 11, 2016 03:15pm
چند لوگوں نے ادب کو کاروبار بنایا ہے۔۔۔۔ ان کا مفاد اپنی جگہ! لیکن کیا ادب میں نئی کتب کا اضافہ نہیں ہو رہا اسی بہانے۔۔۔۔۔۔ چلو مان لیا کے ادب محض اب "تماشہ" یا ادب کے ہی منھ پہ تمانچہ بن گیا! ۔۔لیکن نئ نسل اپنے طور پراور نچلی سطح پہ ایسی ادبی محافل کا انتظام کر رہی ہے ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
Muhammad Yaseen Feb 11, 2016 06:44pm
جناب خرم سہیل صاحب ۔۔۔۔ گزشتہ سال بھی آپ نے اپنا دل اسی طرح کےکالم سے ہلکا کیا تھا جس پر شایدآپ کو ایک اخبار سے نکال بھی دیا تھا ۔ اس کے باوجود سچ کا ساتھ نہ چھوڑنا آپکے بےباک صحافی ہونے کی |ضمانت ہے ۔۔ اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو دیکھنا کہ ہے کہ اس بار انتظار حسین صاحب نہیں ہیں لاہور فیسٹیول والے کیا کرتےہیں؟
khurshid Feb 11, 2016 11:02pm
یہ سب کسی ایجنڈا کا حصہ ہے کچھ پیسے کمانےکاوسیلہ بھی ہے ادب کا توبس نام ہے
avarah Feb 11, 2016 11:26pm
@نجیب احمد سنگھیڑہ wah wah kiiiya baat hey merey sangherha saab ki wah
سیف اللہ سیفی Feb 13, 2016 03:01am
بہت عمدہ اور حقیقت پر مبنی تحریر۔بے ادب لوگوں کے ہاتھوں ہی تو ادبی تماشے ہوتے ہیں۔