اسلام آباد: انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) آفتاب سلطان نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خارجہ امور کو بتایا ہے کہ ملک میں داعش کا خطرہ اُبھر رہا ہے کیونکہ بہت سی دہشت گرد تنظیمیں اس کے لیے ہمدری کا جذبہ رکھتی ہیں۔

انھوں نے کالعدم لشکر جھنگوی اور کالعدم سپاہ صحابہ پاکستان (ایس ایس پی) کو داعش کا قابل ذکر ہمدرد قرار دیا.

آفتاب سلطان کا کہنا تھا کہ داعش اور افغان طالبان کے درمیان جاری تنازع کے باعث کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) ان کے ساتھ تعاون کررہی ہے۔

خیال رہے کہ وفاقی وزیر داخلہ پاکستان میں داعش کی موجودگی کے دعوؤں کو مسترد کرتے آئے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک عرب تنظیم ہے لیکن آئی بی کے ڈائریکٹر جنرل آفتاب سلطان نے بتایا کہ کراچی میں گزشتہ سال مئی میں ہونے والے سانحہ صفورہ گوٹھ کے بعد پنجاب بھر میں داعش کا نیٹ ورک پکڑا گیا ہے اور تنظیم کے سیکڑوں اراکین گرفتار کیے گئے ہیں۔

انھوں نے ملک میں ہونے والے بیشتر حملوں کا ذمہ دار کالعدم تحریک طالبان پاکستان کو قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ گروپ کالعدم لشکر جھنگوی اور کالعدم سپاہ صحابہ کے ذریعے سے منظم ہورہا ہے۔

آفتاب سلطان نے اس موقع پر خاص طور پر کراچی میں ایس پی چوہدری اسلم اور پشاور میں عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے رہنما بشیر بلور کی ہلاکتوں کا ذکر کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ دہشت گرد دوبارہ منظم ہورہے ہیں، ساتھ ہی انھوں نے سرحدی کنٹرول خاص طور پر افغانستان کے ساتھ منسلک سرحد کے طریقہ کار، خطے میں تعاون کو بڑھانے، نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد اور خصوصی توجہ کے ساتھ بنیاد پرستی کے خاتمے کی پالیسی اختیار کرنے پر زور دیا۔

آئی بی کے سربراہ نے 'جہادی عناصر کی بحالی' اور سوشل میڈیا اور سائبر اسپیس کی نگرانی کے لیے پالیسی کے مؤثر عمل کے لیے ایک جامع پالیسی کا بھی مطالبہ کیا۔

انہوں نے بلوچستان میں مفاہمتی عمل پر ترجیحی بنیادوں پر عمل کرنے اور فاٹا اصلاحات اختیار کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔

آفتاب اقبال نے برصغیر میں القاعدہ کی موجودگی کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ اس تنظیم کے پولیس افسران کے قتل میں ملوث ہونے کے شواہد ملے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ٹی ٹی پی کا ایک مقامی عہدیدار عابد مچھڑ اور خازان گل، جو 100 دہشت گردی کے مقدمات میں مطلوب تھا، کو آئی بی کے تحت ہونے والے ایک آپریشن میں ہلاک کیا جاچکا ہے.

آفتاب سلطان نے بتایا کہ ٹی ٹی پی کا فضل اللہ گروپ تاحال ایک مضبوط دہشت گرد گروپ ہے اور وہ دیگر کالعدم تنظیموں کے تعاون سے کارروائیاں کررہا ہے۔

انھوں نے دعویٰ کیا کہ آپریشن ضرب عضب پر عمل درآمد کے بعد سے ملک میں امن و امان کی صورت حال میں بہتری آئی ہے، جس سے دہشت گرد راہِ فرار اختیار کررہے ہیں۔

انھوں نے خبردار کیا کہ ملک میں مزید دہشت گردی کے حملے ہوسکتے ہیں کیونکہ ایسا ممکن نہیں ہے کہ اگلی دہائی میں دہشت گردی کا مکمل خاتمہ کیا جاسکے۔

انھوں نے بتایا کہ نئے اختیار کیے گئے طریقہ کار کے مطابق آئی بی، صوبائی پولیس اور محکمہ انسداد دہشت گردی کے ساتھ مل کر کام کررہی ہے۔

کراچی میں ہونے والی ٹارگٹ کلنگ کے حوالے سے آئی بی چیف کا کہنا تھا کہ سال 2013 سے ایسے واقعات میں واضح کمی آئی ہے، انھوں نے کہا کہ 2013 میں 1،922، 2014 میں 1،305، اور 2015 میں 546 افراد ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنے۔

انھوں نے کہا کہ سندھ میں آئی بی کے تحت ہونے والے آپریشن کے دوران 1121 دہشت گرد، ٹارگٹ کلرز، اغوا کار اور دیگر جرائم پیشہ عناصر گرفتار کیا گیا ہے جبکہ 95 ہلاک ہوئے۔ خیبر پختون خوا میں 581 دہشت گرد گرفتار اور 84 کو آپریشن میں ہلاک کیا گیا۔

ایک سوال کے جواب میں انھوں نے بتایا کہ ان کے محکمے نے افغانستان سے ہتھیار لا کر دارالحکومت کے گرد و نواح میں چھپانے والے ایک ڈکیت گروہ کو بھی بے نقاب کیا ہے جس نے 10 ڈکیتیوں میں ملوث ہونے کا اعتراف کیا ہے۔

انھوں ںے پنجاب کو فرقہ وارانہ تنظیموں اور کالعدم تنظیموں کے خلاف کارروائیاں کرنے اور ان کی مالی امداد روکنے کے حوالے سے اٹھائے جانے والے اقدامات کو بھی سراہا.

یہ خبر 11 فروری 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

تبصرے (0) بند ہیں