لینن کا دوسرا رخ

اپ ڈیٹ 19 فروری 2016
روس کے سوشلسٹ رہنما ولادیمیر لینن ماسکو میں سرخ سپاہیوں سے خطاب کر رہے ہیں — 5 مئی 1920 — فوٹو بشکریہ Lenin: A Biography
روس کے سوشلسٹ رہنما ولادیمیر لینن ماسکو میں سرخ سپاہیوں سے خطاب کر رہے ہیں — 5 مئی 1920 — فوٹو بشکریہ Lenin: A Biography

تیسری دنیا کی ورکنگ کلاس کو مارکس ازم کے سگریٹ پینے کی لت پڑ چکی ہے، اور یہ وہی مارکس ازم ہے جو مذہب کو عام آدمی کے لیے افیون قرار دیتا ہے۔

میں نے سابقہ کمیونسٹ ریاستوں کی خاک چھانی ہے۔ کمیونزم ایک ایسا نظام حکومت ہے، جس کا سب سے اہم نقطہ عام آدمی کی انتڑیوں کی جلن دور کرنا ہے، اور جب ایک بھوکے انسان کو کھانا مل جائے، تو وہ کچھ بھی کر لے، اپنے زمینی رازق سے بے وفائی نہیں کیا کرتا۔

میرے کمیونسٹ دوست اگر کمیونزم دور کی ترقی گنواتے ہیں تو اس کا جواب میں ہمیشہ ان کو سرمایہ دارانہ نظام کے تحت وہاں کے ممالک کی ترقی گنوا کر دیتا ہوں۔ حکمران وہی اچھا جو اپنے اپنے ملک میں عمارتیں، اسکول، کالج، اور سڑکیں تعمیر کروائے اور روزگار کے مواقع پیدا کرے۔

اگر کمیونسٹ پسند دوستوں کے نزدیک یہی ترقی ہے تو ان سے درخواست ہے کہ ایک نظر عرب ممالک پر ڈال لیجیے، جو نہ صرف اپنوں بلکہ دوسروں کے لیے بھی روزگار پیدا کرنے کا سبب بنے ہیں۔ کمیونسٹ دوستو! پھر ان کی بھی تعریف فرما دیجیے۔

ہم سب نے چچا لینن کے بارے میں جو سنا ہے، آئیے اسی کہانی کا دوسرا رخ بھی پڑھیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ہم سب کے ہر دل عزیز چچا لینن ایک بیوروکریٹ خاندان کے چشم و چراغ تھے۔ روسی تسار یا بادشاہ کے بارے نفرت کی وجہ عوام کی غربت نہیں تھی، بلکہ اپنے بڑے بھائی الکساندر کی سزاۓ موت تھی۔

روسی تسار کے خلاف ایک تقریباً ناکام تحریک سے دلبرداشتہ ولادیمیر الیانوو ایلچ نے مغربی یورپ کا رخ کیا۔ جنیوا ہی وہ شہر ہے جہاں ولادیمیر نے خود کو لینن جیسے فرضی نام سے متعارف کروایا۔ یہ سوئٹزر لینڈ کا جمہوری نظام ہی تھا جس نے لینن کو اس کے بنیادی حقوق دیے۔ لینن اپنے مضامین چھپوا کر لوگوں میں بانٹا کرتا تھا۔

وہ اپنے انتہائی قریبی انقلابی سوچ کے حامل دوست مارتوو کے بر عکس سوچتا تھا۔ مارتوو چاہتا تھا کہ تسار کی حکومت کو کسی قانونی طریقے سے ہٹایا جائے۔ مارتوو اس بات پر بھی یقین رکھتا تھا کہ ہر انسان اپنے فیصلے خود کرنے کا حق رکھتا ہے، جبکہ لینن اپنی نئی بنائی گئی پارٹی کی مرکزی کمیٹی کے فیصلوں کو حتمی اور ہر کسی کے لیے اہم قرار دیتا تھا اور فیصلے کو ایک حکم کی صورت میں لوگوں پر صادر کرنے کا حامی تھا۔

لینن کے دوست احباب 1905 کے خونی جلسوں میں شامل تھے۔ جب روسی تسار نے مسلح باغی جلسوں کو اپنی طاقت سے رگڑا، تو لینن بہت پریشان اور انقلاب کے نام سے دل برداشتہ ہو چکا تھا۔ یہی وہ وقت تھا جب لینن نے انقلاب لانے کی ایک نئی ترکیب پیش کی۔ لینن نے اپنے انقلابی دوستوں کو اس بات کا قائل کیا کہ انقلاب عام آدمی کے بس کی بات نہیں۔ لہذا لینن نے پیرس سے کچھ دور ایک کچے گھر کا کمرہ کرائے پر لیا۔

یہی کمرہ انقلابی اسکول کہلایا جہاں سیاست اور ریاست کے امور کو چائے پیتے لینن کے دوست اور لینن خود دن رات پڑھتے اور نت نئے طریقوں پر غور کرتے تھے۔ اسی انقلابی اسکول میں پروپیگنڈا کے مضمون پر کام ہوا اور لینن اپنے دوستوں کو روس واپس بھیج کر خود پولینڈ کے ایک قصبے میں انقلاب کی تاک لگائے بیٹھا رہا۔ وہ انقلاب ایک خواب جو دوبارہ چکنا چور ہوا 1914 میں پہلی جنگ عظیم کی شروعات ہوئی، اور لینن کو روسی جاسوس سمجھ کر گرفتار کیا گیا، مگر کچھ ہی عرصے کے بعد ثبوت کی عدم دستیابی پر رہا کر دیا گیا۔

یہ وہ وقت تھا جب روسی تسار کی فوجیں بار بار پہلی جنگ عظیم میں شکست کھا چکی تھیں۔ روسی تسار بلاشبہ جھنجھلاہٹ کا شکار تھا۔ لینن اپنے انقلابی جذبے کو ہارتے ہوئے ایک تقریر میں کہتا ہے کہ مجھے معلوم ہوتا ہے کہ انقلاب جنگ کے پاؤں تلے روندا جا چکا ہے۔

لیکن اسے معلوم نہیں تھا کہ روس میں انہونا واقعہ رونما ہو چکا تھا۔ روس میں اس کے دوست اور خونی انقلابی کارکن انقلاب کی ابتدا کر چکے تھے۔ لینن کو اپنے ہی خواب یعنی انقلاب کی خبر اخباروں سے ملی، روسی تسار اقتدار کی جنگ عوام کے ہاتھوں ہار چکا تھا اور روس میں عبوری حکومت کا قیام بھی لینن کی غیر موجودگی میں ہو چکا تھا۔

کہانی یہیں ختم نہیں ہوتی۔ آگے کے حالات و واقعات ہم سب کو معلوم ہیں لیکن یہ حقیقت جو اوپر بیان کی گئی ہے، انقلابی کتابوں میں الٹ کر بیان کی گئی ہے۔ ہمارا ایشیائی کمیونسٹ یہی جانتا اور سوچتا ہے کہ لینن انتہائی تگ و دو کرنے والا ایک فولادی انسان تھا۔

وہ یہی جانتا ہے کہ لینن نے انقلاب کی ہر ایک سیڑھی عوام کے ساتھ چڑھی۔ اوپر بیان کیا گیا چچا لینن ہمارے سرخ بچوں کے ہر خواب کی تعبیر ہے۔ بالکل ایسے جیسے دہشتگرد اپنے عزائم کو اسلام کا نام دے کر ان کی تکمیل کے لیے کوشاں رہتے ہیں، جبکہ تاریخی حقائق کا گہرائی سے مطالعہ آسانی سے سب پردے چاک کر سکتا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (12) بند ہیں

asad khan Feb 11, 2016 04:48pm
لگتا ہے کہ نعمان عالم نے ، محض کچھ "اپنے جیسے کمیونسٹوں" سے سُن سُن کر یہ ساری کتھا لکھنے کا تکلف کیا ہے، مشاہدے مطالعے اور علمی و تاریخی راست گوئی کسی بھی موقف کیلیے درکار اساس ہوتی ہے۔ جو یہاں نعمان کے مضمون نما موقف میں کہیں سے بھی نہیں چھلکتی۔ سوائے بیان میں مبینہ شوخی اور سطحی بذلہ سنجی کے۔ جو کوئی بھی معقول قسم کا پڑھا لکھا انسان کر سکتاہے۔
afzaal Feb 11, 2016 04:55pm
No doubt, superb work.
Farrukh Feb 11, 2016 06:34pm
Good article
Azeem Hassan Feb 11, 2016 07:52pm
It is a funny essay, i am strange, are you a student of International law, very strange, you even dont know to the discipline of even negative criticism,You have dishonestly tried a fail effort to bracket a personality with an ism, please note both are different entities but i think this will be in vain to to teach you about communism at this level but my humble request is to study the communism then write.
Salman Yunus Feb 11, 2016 08:09pm
حقائق سے مکمل طور پر ماورا اور زبان و بیان کی غلطیوں سے بھرپور تحریر۔۔۔۔۔ افسوس کہ مصنف نے مارکسزم کے خلاف اپنے دل کا غبار نکالنے کے لیے لینن کی ذات کو حدف بنایا، غالباْ اس لیے کہ نظریہ پر تنقید کے لیے جس سنجیدہ مطالعہ کی ضرورت ھوتی ھے وہ صاحب قلم کے ھاں مفقود ھوگا۔۔۔ (مگر اس میں پڑتی ھے محنت زیادہ)
نجیب احمد سنگھیڑہ Feb 11, 2016 08:30pm
ہا ہا ہا ۔۔۔۔ جس طرح آج مذہبی اور نیم مذہبی جماعتیں جناح کو “داڑھی“ لگا کر پیش کرتی ہیں، اسی طرح محترم نعمان عالم صاحب نے فخر کمیونسٹ لینن کو “اتفاق فاونڈری“ کا “لوہا“ بیان کرنے کی اپنے تئیں کوشش کی ہے۔ تاریخ اگر لینن کو سامراجی گماشتہ کہتی ہے تو تاریخ برصغیر ہند و پاک کی ہستیوں کو پتہ نہیں کیا کیا کہتی ہے اگر بیان کیا جائے تو سنرشپ لگ جاتی ہے کیونکہ معاشرہ عدم برداشت کا شکار ہے۔ نعمان عالم صاحب نے بڑے بھولپن سے کہا کہ حکمران وہی اچھا جو اپنے اپنے ملک میں عمارتیں، اسکول، کالج، اور سڑکیں تعمیر کروائے اور روزگار کے مواقع پیدا کرے۔ لیکن یہ سوچنے کی کوشش ہی نہیں کی کہ یہ کام کالے دھن، کالے کرتوتوں، کالی ذہنیت، کالے عزائم پر پردہ ڈالنے کے لیے بھی دنیا میں عام مشہور ہیں۔ مدرسہ کلچر کو تو پھر عالمی ایوارڈ ملنا چاہیے جو بچوں کو مفت تعلیم، وظیفہ، رہائش دیتے ہیں؟؟؟ میں تو سمجھتا تھا کہ سادگی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے لیکن نعمان عالم جی کا بلاگ پڑھ کر تو نظر آتا ہے کہ سادگی کی کوئی حد نہیں ہوتی۔ “اس سادگی پہ کون مر نہ جائے اے خدا“ !
Ak Feb 11, 2016 08:43pm
More must come . . .
Noman Alam Feb 11, 2016 09:53pm
@asad khan جہاں جہاں آپک محسوس ہوتا ہے کہ محض میں نے اپنی جانب سے لکھا ہے ، وہاں آپ کلک کر کے مزید دوسری ویب سائٹس پر جا کر پڑھ سکتے ہیں ، نیلے رنگ کے فقرے آپکو مزید تفصیلات پر لے جائیں گے ، صرف ان پر کلک کیجئے
Noman Alam Feb 11, 2016 09:55pm
@Azeem Hassan Pardon if something hurts you. I did not mischaracterized Lenin , you can click on the hyperlinks and go on with further readings.
Noman Alam Feb 11, 2016 09:56pm
@Salman Yunus نیلے رنگ کے فقروں پر کلک کیجئے ، میں نے اپنی طرف سے کچھ نہیں لکھا ، مجھے معلوم ہے کہ لینن مارکسزم پر یقین رکھنے والوں کے لئے پیغمبر کی حیثیت رکھتے ہیں ، دل آزاری کی معذرت چاہوں گا
Noman Alam Feb 11, 2016 09:56pm
@نجیب احمد سنگھیڑہ نیلے رنگ کے فقروں پر کلک کیجئے ، میں نے اپنی طرف سے کچھ نہیں لکھا ، مجھے معلوم ہے کہ لینن مارکسزم پر یقین رکھنے والوں کے لئے پیغمبر کی حیثیت رکھتے ہیں ، دل آزاری کی معذرت چاہوں گا
MAZHAR ABBASI Feb 12, 2016 02:10am
First time I read about communist person. Thanks for information Noman