ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے

11 فروری 2016
احمد شہزاد کو باہر کرکے خرم  منظور کو ورلڈ ٹی ٹوئنٹی ٹیم میں شامل کیا گیا—فوٹو: اے ایف پی
احمد شہزاد کو باہر کرکے خرم منظور کو ورلڈ ٹی ٹوئنٹی ٹیم میں شامل کیا گیا—فوٹو: اے ایف پی

پاکستان کرکٹ اپنے آپ میں عجائبات، تضادات اور بے یقینی صورتحال کا مجموعہ ہے، اور پاکستان کرکٹ ٹیم میں اس کی جھلک صاف نظر آتی ہے۔ شروع سے لے کر اب تک ہم ایک خود ساختہ بھیڑ چال کا شکار ہیں اور ہر گزرتے دن کے ساتھ اس کی پیروی کا عزم مزید پختہ ہوتا جا رہا ہے۔

کرکٹ سے نابلد شخص کو چیئرمین کے منصب سے نوازنا یا ٹیم میں انتخاب کے لیے کوشاں اور جگہ نہ بنانے والے کو یکدم قیادت کا تاج پہنا دینا کوئی ماضی بعید کا قصہ نہیں۔

اور اب ورلڈ ٹی 20 کے اسکواڈ کے اعلان کے ساتھ ہی پاکستان کرکٹ حکام نے اپنی اس 'درخشاں اور تابندہ' روایات کے سلسلے کو مزید دراز کر لیا ہے۔

ورلڈ ٹی 20 کے لیے اعلان کردہ اسکواڈ میں سب سے حیران کن شمولیت خرم منظور کی ہے جو کم و بیش 6 سال بعد محدود اوورز کی کرکٹ میں پاکستان کی نمائندگی کر رہے ہیں۔

یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ خرم نے ابھی تک ٹی 20 میچز میں عالمی سطح پر پاکستان کی نمائندگی نہیں کی ہے، جبکہ حال ہی میں کوئی ٹی 20 میچ بھی نہیں کھیلا۔

سب سے اہم امر یہ ہے کہ ممکنہ طور پر انگلینڈ لائنز کے خلاف دو سنچریاں اور ڈومیسٹک ایک روزہ ٹورنامنٹ میں واجبی کارکردگی کی بنیاد پر اسکواڈ کا حصہ بننے والے خرم منظور پاکستان سپر لیگ کی کسی بھی فرنچائز کے نظرِ کرم کے حق دار نہ ٹھہرے۔

یہاں ایک بار پھر کرکٹ بورڈ حکام اور سلیکٹرز سمیت ٹیم انتظامیہ کی حکمتِ عملی اور غیر مستقل مزاجی صاف عیاں ہے، جس نے اسکواڈ کا حصہ بنانے سے قبل نوجوان اوپنر کی پی ایس ایل میں کارکردگی جانچنے کا سنہری موقع گنوا دیا۔

کئی سالوں سے نوجوان ٹیم بنانے کا راگ الاپنے والے سلیکٹرز نے دو انتہائی اہم ایونٹس سے قبل اپنی 'صلاحیتوں' کا عملی نمونہ پیش کرتے ہوئے ایک نوجوان بلے باز کا مستقبل داؤ پر لگانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، حالانکہ انگلینڈ اور نیوزی لینڈ کے خلاف سیریز سے قبل کوچ وقار یونس اور کپتان شاہد آفریدی نے بارہا کہا کہ ہم اس سیریز میں آزمائے جانے والے کمبی نیشن کے ساتھ ہی ورلڈ ٹی 20 میں بھی میدان میں اتریں گے۔ لیکن وہ اس حقیقت کو چھپانے میں بری طرح ناکام رہے کہ کئی سالوں سے مسلسل تگ و دو کے باوجود ہم دو اچھے اوپنرز تلاش کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

یہاں احمد شہزاد یا کسی اور کی حمایت ہرگز مقصد نہیں، بلکہ سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے پاس عالمی معیار کا کوئی اچھا اوپنر موجود نہیں؟ اور اگر عصبیت اور ذاتی پسند و ناپسند کی عینک اتار کر غیر جانبدارانہ جائزہ لیا جائے تو جواب نفی میں ہی آئے گا۔

اسکواڈ میں بابر اعظم، رومان رئیس اور خصوصاً محمد نواز کی شمولیت خوش آئند ہے اور اگر ان کو بھی محمد رضوان کی طرح تجربات کی بھینٹ نہ چڑھایا گیا تو یقیناً یہ مستقبل میں پاکستان کا کرکٹ کا اثاثہ ثابت ہوں گے۔

اوپننگ کے علاوہ بات کی جائے تو محمد حفیظ، شعیب ملک، عمر اکمل، بابر اعظم، نواز، عماد وسیم اور شاہد آفریدی کی موجودگی میں کا بیٹنگ شعبہ مضبوط نظر آتا ہے جبکہ حفیظ پر پابندی کے باوجود شاہد آفریدی، شعیب ملک، عماد وسیم اور محمد نواز کی موجودگی میں پاکستان کی اسپن باؤلنگ کا شعبہ خاصہ محفوظ ہے، لیکن بظاہر مضبوط نظر آنے والے فاسٹ باؤلنگ اٹیک میں چند خامیاں ضرور ہیں۔

فاسٹ باؤلنگ میں پاکستان کا انحصار محمد عرفان، وہاب ریاض، محمد عامر، انور علی اور رومان رئیس پر ہو گا جس میں سے عرفان، عامر اور وہاب کم و بیش ایک ہی طرح کے باؤلر ہیں تاہم اگر کارکردگی کی بنیاد پر بات کی جائے تو محمد عرفان اور انور علی کی اسکواڈ میں شمولیت کسی معمے سے کم نہیں۔

یاد رہے کہ محمد عرفان وہی ہیں جنہیں حال ہی میں دورہ نیوزی لینڈ کیلئے ٹی ٹوئنٹی اسکواڈ کا حصہ نہیں بنایا گیا تھا جبکہ پاکستان نے سال 2015 کے آغاز سے اب تک 13 ٹی ٹوئنٹی میچز کھیلے لیکن فارم اور فٹنس مسائل کے سبب عرفان صرف چار میچ کھیل سکے اور یہ بات ایک کھلی حقیقت ہے کہ طویل القامت عرفان ٹی20 کرکٹ میں فیلڈنگ کے حوالے سے پاکستان کا سب سے کمزور پہلو ہیں۔

پاکستان سپر لیگ میں محمد عرفان اسلام آباد یونائیٹڈ کی ٹیم میں شامل ہیں لیکن ڈین جونز اور وسیم اکرم جیسے عظیم کھلاڑیوں پر مشتمل اسلام آباد کی ٹیم انتظامیہ نے انہیں ایک میچ کھلانے کے بعد ہی ڈگ آؤٹ میں بٹھا دیا اور محمد سمیع کو ان پر ترجیح دی جو اب تک اپنے انتخاب کو درست ثابت کرتے نظر آرہے ہیں۔

ایسے میں انتخاب سے قبل اگر ان دو کھلاڑیوں کی رائے لی جاتی تو یقیناً یہ جاننے میں کافی مدد ملتی کہ آخر عرفان کو بٹھا کر سمیع کو کیوں ترجیح دی گئی حالانکہ پاکستان کو ایشیا کپ اور ورلڈ ٹی ٹوئنٹی دونوں میں کم و بیش ویسی ہی پچز پر کھیلنا ہو گا جس پر پی ایس ایل کے میچز ہو رہے ہیں۔

انور علی کی بات کی جائے تو تمام تر واہ واہ کے باوجود ان کی کارکردگی نہ ہونے کے برابر ہے۔ سری لنکا کے خلاف بنائے گئے فتح گر 46 رنز سمیت وہ 2015 سے اب تک کھیلے گئے آٹھ ٹی ٹوئنٹی میچوں میں صرف 79 رنز بنانے میں کامیاب رہے اور باؤلنگ میں کارکردگی مزید پریشان کن ہے۔

بحیثیت باؤلر انور علی نے آٹھ میچوں میں سات وکٹیں لیں لیکن کسی بھی میچ میں متاثر کن باؤلنگ کا مظاہرہ نہ کر سکے جبکہ پاکستان سپر لیگ میں بھی ان کی اب تک کی کارکردگی اور فارم قابل تشویش ہے۔

ایسی صورت میں ٹیم میں محمد سمیع نسبتاً بہتر اضافہ ثابت ہو سکتے تھے لیکن ساتھ ساتھ ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ ورلڈ کپ میں اچھی کارکردگی دکھانے والے سہیل خان یکدم کہاں غائب ہو گئے اور آخر وہ ایسی کس انجری کا شکار ہیں کہ ایک سال گزرنے کے باوجود ابھی تک صحتیابی کے عمل سے گزر رہے ہیں۔ ان سوالوں کا جواب سب سے بہتر چیف سلیکٹر ہی دے سکتے ہیں(اگر دینا چاہیں تو).

بہرحال اب اسکواڈ کا اعلان ہو چکا ہے اور شب و روز ہونے والے ان تماشوں کے باوجود ہمیشہ کی طرح تہہ دل سے دعا ہے کہ پاکستان کرکٹ ٹیم جیت سے ہمکنار ہو لیکن ساتھ توقع کرتا ہوں کہ ٹیم کی ناکامی کی صورت میں ناکامی کا ملبہ کسی نوجوان کھلاڑی پر گرانے کے بجائے حکام اپنی ذمے داری قبول کرتے ہوئے استعفیٰ دینے کو ترجیح دیں گے۔

تبصرے (0) بند ہیں