شب ہائے کوئٹہ

کوئٹہ کے غرب میں واقع چلتن کا پہاڑی سلسلہ دن کو جیسے ہی خیرباد کہتا ہے تو رفتہ رفتہ رات کی سیاہی بھی پورے شہر کو اپنی تاریکی میں جکڑ لیتی ہے۔ اسی دوران اپنے کچھ ہم خیال اور سر پھرے دوستوں کے ساتھ ہم شہرکے شرق میں واقع مُردار پہاڑی سلسلے کی چوٹیوں کا رخ کرتے ہیں اور وہاں بیٹھ کر دل کی جلن کو بجھانے کے لیے الاؤ جلاتے ہیں۔

آگ کے قریب بیٹھے، گرم چائے کی چُسکیاں لیتے ہوئے، قُدرت کے بدلتے اس رنگ و مزاج سے لُطف اندوز ہونا برسوں سے ہمارا پسندیدہ مشغلہ رہا ہے۔ کبھی دوستوں کے بلند آواز قہقہے پوری فضا میں گونجتے ہیں تو کبھی سارے دوست خاموش بیٹھے اپنے خیالوں میں گم گھنٹوں تک آگ کو تکتے رہتے ہیں۔ بعض اوقات سارے دوست اس طرح آگ کی طرف ہاتھ پیھلائے خاموش بیٹھتے ہیں جیسے آگ کی پرستش کر رہے ہوں اور مسلسل دعا میں مشغول ہوں۔

اسی دوران میں اور میرا خاموش ڈی اس ایل آر کیمرا اپنے کام میں لگ جاتے ہیں۔ کچھ قدم دور جا کر اپنے دوستوں کو اپنے اپنے کرداروں میں مگن دیکھ کر عجیب سی کیفیت طاری ہو جاتی ہے۔ ایک ایک کردار میں بہت سی کہانی موجود ہیں۔ ایک ایک کردار میں بے تحاشہ قصے، حسرتیں، خواہشیں، عقدے اور رنگینیاں موجود ہیں۔

مگر یہاں ان کرداروں کے ساتھ ساتھ دوسرے کردار بھی ہیں جو اس ماحول کو اور زیادہ دلکش اور لطف اندوز کر دیتے ہیں۔ انہی کرداروں میں سے ایک خوبصورت کردار ان وسیع پہاڑوں کا ہے، شب کی تاریکی کا ہے، ہوا کی سر سر کی ہے، دور بیٹھے کوئٹہ شہر کی خاموشی کا ہے، آسمان پہ کوسوں دور ستاروں کا ہے، چائے سے نکلتے ہوئے دھوئیں کا ہے، آگ کے لکڑیوں کو چٹخنے کی آواز کا ہے، گھروں سے نکلتی ہوئی جگنو مانند برق کا ہے۔

دل چاہتا ہے کرداروں کے ان لمحات کو جانے نہ دوں، روک لوں، اور ہمیشہ کی طرح انہی کرداروں میں، انہیں لمحوں میں رہوں۔ مگر افسوس کہ میرے اختیار میں یہ نہیں۔ میرے بس میں بس یہی ہے کہ میں صرف تصویر کے ذریعے ان لمحات کو قید کر سکوں۔ میں آپ قارئین کے دلوں میں وہ کیفیت تو نہیں لا سکتا مگر اپنی تصویروں کے ذریعے وہ منظر دکھانے کی کوشش ضرور کر سکتا ہوں۔ اسی لیے آپ کے پیش خدمت ہے میرے کچھ قید کیے ہوئے لمحے، جنہیں دیکھ کر میں کوئٹہ کی حسین راتوں میں کھو جاتا ہوں۔

پھول آدھی رات کا ہے آنگن میں مہکا ہوا۔ — فوٹو سعادت علی صبوری۔
پھول آدھی رات کا ہے آنگن میں مہکا ہوا۔ — فوٹو سعادت علی صبوری۔

گزر گئی ہے سفر میں میرے قیام کی شام۔ — فوٹو سعادت علی صبوری۔
گزر گئی ہے سفر میں میرے قیام کی شام۔ — فوٹو سعادت علی صبوری۔

میں اپنے ساتھ رہتا ہوں ہمیشہ، اکیلا ہوں مگر تنہا نہیں ہوں۔ — فوٹو سعادت علی صبوری۔
میں اپنے ساتھ رہتا ہوں ہمیشہ، اکیلا ہوں مگر تنہا نہیں ہوں۔ — فوٹو سعادت علی صبوری۔

جب تیرا غم جگا لیا، رات مچل مچل گئی۔ — فوٹو سعادت علی صبوری۔
جب تیرا غم جگا لیا، رات مچل مچل گئی۔ — فوٹو سعادت علی صبوری۔

کچھ دیر کے لیے مجھے تنہائی چاہیے۔ — فوٹو سعادت علی صبوری۔
کچھ دیر کے لیے مجھے تنہائی چاہیے۔ — فوٹو سعادت علی صبوری۔

کسی اکیلی شام کی چپ میں، گیت پرانے گا کے دیکھو۔ — فوٹو سعادت علی صبوری۔
کسی اکیلی شام کی چپ میں، گیت پرانے گا کے دیکھو۔ — فوٹو سعادت علی صبوری۔

ایک گونہ بے خودی مجھے دن رات چاہیے۔ — فوٹو سعادت علی صبوری۔
ایک گونہ بے خودی مجھے دن رات چاہیے۔ — فوٹو سعادت علی صبوری۔

کیا زمانہ تھا کہ ہم روز ملا کرتے تھے، رات بھر چاند کے ہمراہ پھرا کرتے تھے۔ — فوٹو سعادت علی صبوری۔
کیا زمانہ تھا کہ ہم روز ملا کرتے تھے، رات بھر چاند کے ہمراہ پھرا کرتے تھے۔ — فوٹو سعادت علی صبوری۔

ہاتھ آئے نہ ستارے تیرے آنچل کی طرح۔ — فوٹو سعادت علی صبوری۔
ہاتھ آئے نہ ستارے تیرے آنچل کی طرح۔ — فوٹو سعادت علی صبوری۔

جینے کو تیرے ہجر کی ایک شام بہت ہے۔ — فوٹو سعادت علی صبوری۔
جینے کو تیرے ہجر کی ایک شام بہت ہے۔ — فوٹو سعادت علی صبوری۔


میرا نام سعادت علی صبوری ہے اور میرا تعلق کوئٹہ سے ہے۔ میں بزنس سٹڈیز کا گریجویٹ ہوں۔ فوٹوگرافی، ٹریولنگ اور ایڈوینچر میں دلچسپی رکھتا ہوں۔