'اس کی جان بچاؤ ورنہ...'

اپ ڈیٹ 20 مارچ 2016
آپریشن میں ناکامی کی صورت میں تشدد کا خوف ڈاکٹرز اور پیرامیڈیکل اسٹاف کی کارکردگی پر برا اثر ڈالتا ہے۔ — Creative Commons.
آپریشن میں ناکامی کی صورت میں تشدد کا خوف ڈاکٹرز اور پیرامیڈیکل اسٹاف کی کارکردگی پر برا اثر ڈالتا ہے۔ — Creative Commons.

ذرا تصور کریں: سول ہسپتال کراچی میں سرجری کے پروفیسر امجد سراج میمن بتاتے ہیں کہ چند سال قبل مسلح افراد کا ایک گروہ ان کے پاس ایسے شخص کو لے کر پہنچا جس کے سر پر شدید چوٹیں لگی تھیں، اور مطالبہ کیا کہ اس شخص کا دماغ، جو وہ پلاسٹک کی تھیلی میں تھامے کھڑے تھے، واپس لگا کر صحتیاب کر دیا جائے۔

ڈاکٹر میمن نے scidev.net کو بتایا کہ ''ہمیں دھمکایا گیا کہ بات مان لی جائے ورنہ سنگین نتائج کے لیے تیار ہوجائیں۔''

مشتعل افراد اور جذباتی تیمارداروں سے نمٹنا، ہسپتال میں توڑپھوڑ اور یرغمال بننا، مریضوں اور ان کے ورثاء کے ہاتھوں جونیئر ڈاکٹرز، پیرامیڈیکل اسٹاف اور نرسوں کا زبانی و جسمانی تشدد کا نشانہ بننا، سینیئرز کا جونیئرز سے جارحانہ رویہ اور حال ہی میں دیکھی گئی جونیئرز کے ہاتھوں سینیئرز کی پٹائی اور یرغمالی، یہ وہ تمام چیزیں ہیں جو کبھی مقدس سمجھے جانے والے میڈیکل پیشے میں آج عام طور پر دیکھنے کو ملتی ہیں۔

انسانیت بچانے اور اس کی خدمت کرنے والوں کو آج خود مشتعل افراد سے بچانے کی ضرورت ہے۔

پڑھیے: معذوری کی وجہ: ڈاکٹروں کی غفلت

مختلف مطالعوں کے مطابق پاکستان کے سرکاری ہسپتالوں میں شعبہء ایمرجنسی اور وارڈز میں موجود ڈاکٹرز اور دیگر ملازموں پر مریضوں کے ورثاء کا زبانی و جسمانی تشدد عام بات ہے۔

2015 میں انٹرنیشنل ریڈ کراس کمیٹی (آئی سی آر سی) نے جناح سندھ میڈیکل یونیورسٹی کے ساتھ مل کر تحقیق کی جس میں ڈاکٹروں، نرسوں، پیرامیڈکس، ہسپتال کے دیگر غیر میڈیکل ملازمین اور قانون نافذ کرنے والے حکام سے انٹرویوز شامل کیے گئے۔ اس تحقیق سے مسئلے کی سنگینی ظاہر ہوئی۔

شعبہ ظب سے وابستہ افراد نے بتایا کہ انہوں نے خود کو خوفزدہ، لاچار اور کم ہمت محسوس کیا۔ پاکستان کے ہسپتالوں میں تشدد سے متعلق نومبر 2015 میں شائع ہونے والی تحقیق کے نتائج پہلے کی گئی دیگر تحقیقات سے کافی مطابقت رکھتے ہیں۔

لیکن کچھ ایسے بھی کیسز تھے جن میں تشدد نے شدت اختیار کر لی تھی۔

لاہور کے میئو ہسپتال میں شعبہ جراحی کے سابق سربراہ پروفیسر ماجد چوہدری یاد کرتے ہیں کہ کس طرح انہوں نے کلاشنکوف بردار مذہبی سیاسی جماعت کے 350 مشتعل افراد کو تسلی دی تھی، جن کے سربراہ متعدد گولیاں لگنے کے باعث شدید زخمی حالت میں ان کے وارڈ میں موجود تھے۔ وہ تمام افراد اپنے رہنما کو وہاں سے لے جانے آئے تھے۔

پروفیسر نے بتایا کہ ''وہ خطرے سے باہر تھے لیکن انہیں ڈسچارج نہیں کیا جاسکتا تھا۔''

پروفیسر مزید بتاتے ہیں کہ ''میرے ذہن میں سب سے پہلے مریض کے زخموں کے ٹانکے کھولنے کا خیال آیا۔ پھر میں نے آپریشن تھیٹر میں ان کے دو بیٹوں بلوایا جہاں انہوں نے اپنے والد کو 'سنگین' حالت میں دیکھا۔ میں نے کہا کہ میں ان کے والد کو بچانے کے لیے ایک پرخطر 'آپریشن' کرنے جارہا ہوں اس لیے مشتعل افراد کو کہیں کہ اپنے ہتھیار نیچے رکھ کر ان کے والد کی صحتیابی کے لیے دعا کریں۔''

جس کے دو گھنٹوں کے بعد مشتعل افراد منتشر ہوگئے تھے۔

مزید پڑھیے: علاج اچھا، پر غریب کے لیے نہیں

ڈاکٹرز پر جب پستول تانی جاتی ہے یا پھر مشتعل افراد ڈاکٹر کو گھیر کر دھمکاتے ہیں تو ''اعصاب کو قابو میں رکھنا'' اور ''دل کی دھڑکن کو معمول پر رکھنا'' بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ پر اگر پرسکون رہا جائے اور عقل سے کام لیا جائے تو حساس صورتحال سے نمٹا جا سکتا ہے۔

اگر مریض کے ورثاء اور ڈاکٹر کے درمیان مؤثر رابطہ موجود ہو، تو کئی دفعہ تشدد اور اشتعال سے بچا جا سکتا ہے۔

مریض سے ہمدردی، اس کے ساتھ وقت گزارنا اور اس مرحلے میں مریض کی اپنی شمولیت مؤثر علاج اور صحتیابی کے لیے کافی اہم ثابت ہوسکتی ہیں۔

ایمانداری کے ساتھ واضح طور پر بیماری کی تمام پیچیدگیاں سمجھا کر، بیماری کے سنگین نتائج 'یہاں تک ممکنہ موت' سے بھی آگاہ کر کے اور ڈاکٹر کی مریض اور اس کے ورثاء کے ساتھ ہوئی تمام بات چیت کو دستاویزی شکل دے کر مریض اور ان کے ورثاء کی ممکنہ غیرحقیقی توقعات کو ختم یا کم کیا جاسکتا ہے۔

مگر ایسا ایمرجنسی کی حالت میں کرنا شاید مشکل ہو، جہاں کم وقت میں جلد سے جلد فیصلے لینے پڑتے ہیں۔ وہاں اکثر مریض کے ورثاء سے مشورے اور خطرات کے بارے میں بتانے کا وقت نہیں ہوتا۔ نتیجتاً شعبہء ایمرجنسی میں موجود جونیئر ڈاکٹرز اور نرسوں کو اشتعال انگیزی کا سب سے زیادہ سامنا کرنا پڑتا ہے۔

نو سرکاری ہسپتالوں کے ایمرجنسی شعبوں میں اشتعال کا نشانہ بننے والے جونیئر ڈاکٹرز پر 2011 میں پہلی ملک گیر تحقیق میں 675 ڈاکٹرز سے انٹرویوز کیے گئے جن میں سے تقریباً 76.9 فیصد ڈاکٹرز کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا اور اس تعداد میں سے 65 فیصد زبانی اور 11.9 فیصد جسمانی تشدد کا شکار ہوئے تھے۔

خواتین ڈاکٹرز کے مقابلے میں مرد ڈاکٹرز پر تشدد کا خطرہ زیادہ دیکھا گیا اور زیادہ تر ڈاکٹرز نے تسلیم کیا کہ کسی بھی طرح کے تشدد سے ان کی کارکردگی پر برا اثر پڑتا ہے۔

لاہور کے ایک سرکاری ہسپتال میں شعبہء طب سے وابستہ 164 افراد پر ایسی ہی تحقیق 2013 میں کی گئی۔ دورانِ تحقیق 74 فیصد ڈاکٹرز نے بتایا کہ وہ گذشتہ سال کے دوران تشدد کا نشانہ بنے جن میں اکثریت (76.8 فیصد) کے ساتھ ایسے کیسز ایمرجنسی شعبوں میں رونما ہوئے تھے۔

تشدد کرنے والے زیادہ تر افراد (71 فیصد) مریضوں کے ورثاء تھے۔

دونوں تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی کہ تیمارداروں کا ''رش''، لمبا انتظار اور ڈاکٹر سے محدود رابطے کی وجہ سے انتشار اور بد نظمی پیدا ہوتی ہے، جو بعد میں سنگین تشدد کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔

جانیے: سعودی عرب میں ذلّت اور موت

لاہور میں ہونے والی تحقیق میں انٹرویو دینے والے دو تہائی سے زائد ڈاکٹرز نے تشدد کی شکایات درج کروائی تھیں، جبکہ زیادہ تر نے صرف اپنے ساتھیوں کو اس بات سے آگاہ کیا تھا۔ یہ شک کہ کوئی اقدام نہیں اٹھایا جائے گا (73 فیصد)، ایک اہم وجہ تھی جس کی بناء پر تشدد کی اطلاع ہسپتال انتظامیہ کو نہیں دی گئی تھی۔

کچھ ڈاکٹرز (38.7 فیصد) کا خیال تھا کہ یہ اس ملازمت کا حصہ ہے۔

آئی سی آر سی کی تحقیق سے یہ بھی معلوم ہوا کہ زیادہ تر تشدد کے متاثر ملازم اس بارے میں اطلاع دینا غیر ضروری سمجھتے ہیں اور خائف ہوتے ہیں کہیں ان کے منفی نتائج نہ مرتب ہوں۔

صحت مراکز کے ملازموں کے خلاف تشدد کا باعث بننے والے رویوں، ادارتی اور سیاسی و سماجی عوامل کو درست کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ اس مقدس پیشے سے وابستہ لوگوں کو تحفظ فراہم کیا جا سکے۔

یہ مضمون ابتدائی طور پر scidev.net پر شائع ہوا، اور بہ اجازت یہاں شائع کیا گیا ہے۔

تبصرے (5) بند ہیں

Ashian Ali Malik Mar 19, 2016 04:19pm
سرکاری ہسپتالوں میں عملہ اور ڈاکٹرز کا بیماروں اور تیمارداروں کے ساتھ رویہ ہی اتنا گھٹیا ہوتا ہے کہ ڈاکٹرز اور دیگر عملہ کے سر پر بندوق رکھ کر ہی بہترین علاج معالجہ کی سہولیات حاصل کی جا سکتی ہیں۔
Ashian Ali Malik Mar 19, 2016 04:22pm
سرکاری ہسپتالوں کا عملہ اپنا رویہ تبدیل کریں جیسا کہ سرکاری ہسپتال میں ڈیوٹی کے بعد وہ نجی کلینک میں رویہ اختیار کرتے ہیں تو کبی بھی تشدد اور حراساں کرنے کا واقعہ نہیں ہو گا ۔
ahmaq Mar 19, 2016 05:54pm
یہ وہ تمام چیزیں ہیں جو کبھی مقدس سمجھے جانے والے میڈیکل پیشے میں آج عام طور پر دیکھنے کو ملتی ہیں۔to kiya doosarey saarrey peshey mukkadaa naheyin heyN? aaj pata chalaa yeh
mastani Mar 20, 2016 02:09am
Hakim sahab to hame kabhi zalil nahi karte, sirf zamana badal gaya, log badal gae or doctor bhi badal gae, log bechaare kiya kare.
ahmaq Mar 20, 2016 12:43pm
@mastani pakistan doktor ko iran afghanistan aor Turkey meyN hakim (Hakeem) ya tabeeb boltey heyN-mslan medicla superintendent ko bas hekim bola jata hey