میں ابھی علامہ اقبال انٹرنیشنل ائیرپورٹ کے مسافر لاؤنج میں بیٹھا اپنی فلائیٹ پی کے 751 کا انتظار کر رہا ہوں، میرے سامنے جدہ کو جانے والی فلائیٹ کے لئے گیٹ نمبر 21 پر آوازیں دی جا رہی ہیں۔ کچھ مسافر دوڑے دوڑے آ رہے ہیں اور متعلقہ عملے کے چہرے پر بھی پریشانی عیاں ہے۔ دائیں طرف جہاں سے مسافر لاؤنج میں آیا جاتا ہے، وہاں کچھ مسافر احرام باندھے احتجاج کر رہے ہیں، ان کی شاہین ائیر لائن کی فلائیٹ تاخیر کا شکار ہے۔

اس پرسکون منظر سے پہلے جو منظر تھا وہ بھی آپ کی نذر کرنا چا ہتا ہوں۔ صبح آٹھ بج کر دس منٹ پر میں ائیر پورٹ کے روانگی والے دروازے پر تھا، لیکن لوگوں کی ٹکٹ دیکھ کر اندر داخلے کی اجازت دینے والا صرف ایک آدمی تھا، اس لئے لوگوں کی ایک لمبی لائن لگ چکی تھی۔

بڑی مشکل سے اس سے گزرا تو آگے سیکیورٹی سکینر سے سامان گزارنے کا مرحلہ تھا، اس کے بعد آپ کی تفصیلی تلاشی لی جاتی ہے اور پھر دو مختلف ڈیپارٹنمنٹس کے لوگ آپ سے سوال و جواب کرتے ہیں۔

ایک افسر کا مقصد آپ کا سامان کو منشیات کے حوالے سے جانچنا اور دوسرا آپ سے روپے پیسے کی معلومات لیتا ہے کہ کتنے ساتھ لے کر جا رہے ہیں، اس کے بعد سامان جمع کروانے کا مرحلہ ہے۔

سامان جمع کروانے والی لائن میں جانے لگا تو ایک کاونٹر سا بنایا گیا تھا اس نے میرا پاسپورٹ دیکھا، ویزہ دیکھا اور پوچھا پاسپورٹ کی کاپی ہے، میں نے کہا نہیں، اس نے کچھ بھی نہ کہا اور میں سامان جمع کروانے والی لائن میں لگ گیا۔

مجھ سے آگے صرف تین سے چار افراد لائن میں لگے ہوئے تھے لیکن کم از کم چالیس منٹ بعد میری باری آئی۔ انہوں نے ٹکٹ، ویزہ دیکھا اور پاسپورٹ کی کاپی مانگی، میں نے پوچھا وہ کس لئے ، بتایا گیا کوئی نیا قانون بنا ہے، کیا آپ کو سامان کی لائن میں لگنے سے پہلے بتایا نہ گیا تھا؟ کاونٹر پر موجود شخص کو میں نے جواب دیا کہ نہیں۔ اس نے کہا جائیے کاپی کروا لائیے۔ فوٹو کاپی پر پہنچے وہاں بھی ایک لائن لگی ہوئی تھی، فوٹو کاپی کروائی گئی دو صفحات کے چالیس روپے لے لئے گئے۔

چالیس روپے کا یہ اضافی ٹیکس کس کی جیب میں جاتا ہے، اس پر سوال ضائع کرنے کی بھی ضرورت نہیں۔ ائیرپورٹ سے ردی کے سامان میں فوٹو کاپیاں بیچے جانے کی کہانی ابھی زیادہ پرانی نہیں۔

اس کاپی کو دوبارہ پہلے کاونٹر پر لایا اور اس شخص سے پوچھا تم نے مجھے بتایا کیوں نہیں کہ کاپی درکار ہے۔ انہوں نے کہا ہم نے آپ سے پوچھا تو تھا کہ کاپی ہے کہ نہیں؟ باقی کام ہمارا نہیں کہ ہر مسافر کو بتائیں کہ فوٹو کاپی کرواؤ۔ میں نے کہا تمہارا انچارج کون ہے کہنے لگے ، یہیں کہیں ہو گا ڈھونڈھ لیں۔ ایک انچارچ قسم کی خاتون نظر آئیں، ان سے کہا ایکسکیوزمی، کہنے لگی ، جی جی میں ایک منٹ میں آئی اور یہ جا اور وہ جا۔۔۔

سامان جمع کروانے کی لائن میں پھر آئے۔ سامان جمع ہوا اور اس کام تک ڈیڑھ گھنٹہ لگ چکا تھا۔ وہاں سے پاسپورٹ کنٹرول تک آئے اور وہاں بھی ایک لمبی لائن لگی ہوئی تھی۔

اسی کاونٹر کے سامنے شکایات اور تجاویز کا بکس لگا ہوا تھا اور ساتھ ہی کاونٹر پر ایک صاحب کھڑے تھے ان سے پوچھا شکایات لکھنے کے لئے کاغذ کہاں ہے، پوچھنے لگے کس کی شکایت کریں گے، میں نے بتایا فوٹو کاپی کے نظام کی۔ انہوں نے کاغذ دیا جو میں جلدی جلدی پُر کرکے واپس کیا، اس کاغذ پر بہت زیادہ ذاتی معلومات پوچھی گئی تھیں، جیسے پاسپورٹ کا نمبر، گھر کا مکمل پتہ وغیرہ ۔۔۔۔۔تاکہ لوگ اس فارم کو پُر کرتے ہوئے یہ سوچ کر کریں کہ کوئی آپ کے گھر تک بھی پہنچ سکتا ہے، جبکہ عموما شکایات میں شکایت کنندہ کی شناخت کو چھپا کر اس کی شکایت پر توجہ دی جاتی ہے۔

پاسپورٹ کنٹرول پر ہماری تازہ تصویر لی گئی ، اس کے بعد پاسپورٹ کنٹرول کے نام سے ہی ایک اور کاونٹر ہے جس پر ایف ائی اے کے اہلکار آپ کی تصویر پاسپورٹ سے ملا کر دیکھتے ہیں۔ اس کے بعد پھر ایک سکینر آتا ہے اور آپ لاؤنج میں آتے ہیں جہاں مذکورہ تماشہ چل رہا تھا جس کا بیاں آغاز میں کیا گیا ہے۔ اس ساری مشق میں دوگھنٹے سے زائد کا وقت لگا جو کہ دنیا کے کسی بھی ائیرپورٹ کے مقابلے بہت زیادہ دکھائی دیتا ہے۔

دنیا بھر کے ائیر پورٹس پر تین سے چار کاونئٹر ان تمام کاموں کو نمٹاتے ہیں جو پاکستان میں آٹھ سے دس کاونٹر پر کی جاتی ہے۔ جیسے اگر کوپن ہیگن سے سوار ہوں تو سیدھا سامان جمع کروانے کے کاونٹر پر جایا جائے گا، بکنگ کا سامان جمع کر لیا جائے اور میرے ہاتھ میں صرف ہینڈ کیری سامان رہ جائے گا ، جس کو لے کر میں سیکورٹی گیٹ کی طرف چلا جاؤں گا، وہاں میرا سامان اچھی طرح چیک کیا جائے گا اور میری تلاشی لی جائے گی۔ اور بس اس کے ملک سے باہر جانے کی سٹمپ لگانے کا کاونٹر ہے جس پر شاذ و نادر ہی لائن لگتی ہے اس کے بعد میں مسافر لاؤنج میں چلا جاؤں گا۔

سیکیورٹی گیٹ پر ایک مسافر پر زیادہ سے زیادہ کتنا ٹائم لگتا ہے وہ داخلے والے لاؤنج کی سکرین پر لکھا آ رہا ہوتا ہے جو زیادہ سے زیادہ سیکیورٹی چیکنگ ٹائم میں نے نوٹ کیا ہے وہ چودہ منٹ کا ہے۔ ورنہ پانچ سے سات منٹ میں آپ سیکیورٹی سے گزر جاتے ہیں اور سامان جمع کروانے والی جگہوں پر عمومی طور پر لمبی لائن نہیں ہوتی سوائے پاکستان کو جانے والی فلائٹوں کے کیونکہ ہم سب سے زیادہ سامان ساتھ میں لاتے ہیں۔

کچھ لوگ شاید کہیں کہ ڈنمارک میں امن زیادہ ہے اور آبادی کم اس لئے آپ بیس پچیس منٹ میں مسافر کی شناخت، سیکورٹی اور سامان وغیرہ کے کام مکمل کر لیتے ہیں۔ اس لئے ان کےلئے بیجنگ کا ماڈل پیش خدمت ہے۔

مسافر داخلی دروازے سے داخل ہونے کے بعد اپنا سارا سامان سکینر بیلٹ پر رکھتا ہے، اس کے بعد سامان جمع کروانے والی لائن میں لگتا ہے، وہاں سے امیگریشن کاؤنٹر اور سیکیورٹی کاونٹر اکھٹا ہی بنایا گیا ہے، جس سے گزر کر آپ مسافر لاونج میں چلے جاتے ہیں۔

میری دانست میں چین سے سیکیورٹی اور ٹائم مینجمنٹ سیکھی جانی چاہیے، کیونکہ وہ اپنی بڑی آبادی کو ٹرانسپورٹ کے اداروں پر سیکیورٹی کے حوالے سے جس طرح کنٹرول کرتے ہیں وہ میری نظر میں پاکستان کے لئے زیادہ موثر ہے۔

عمومی طور پر مسافر لاؤنج میں سے جہاز پر جانے سے پہلے صرف آپ کا بورڈنگ پاس دیکھا جاتا ہے لیکن پاکستان میں بورڈنگ پاس چیک ہونے کے بعد بھی جہاز میں داخل ہونے سے پہلے بھی ایک شخص اپنی بصیرت کی بنا پر آپ کا پاسپورٹ اور ویزہ گھما گھما کر چیک کرتا ہے اور پھر آپ کو جہاز میں جانے کی اجازت ہوتی ہے۔

پاکستان کے ہوائی اڈوں پر مسافروں کے ساتھ جو ذلت آمیز سلوک ہوتا ہے ایک الگ باب کا متقاضی ہے۔ دو گھنٹے تک مختلف قطاروں میں کھڑے رکھنا، کوئی نہ کوئی نئی رکاوٹ جیسے پاسپورٹ کی کاپی کروا لاؤ، مختلف ڈیپارٹمنٹس کے لوگوں کا تلخ رویہ، سفارشی اور بااثر لوگوں کے لئے کسی قانون کا نہ ہونا، ٹاوٹ لوگوں کا سر عام مسافروں سے کہنا کہ ایک ہزار دو اور ان لائنوں میں لگنا نہیں پڑے گا، قانون پسند شہری وہاں لائنوں میں لگ کر جو تضحیک محسوس کرتے ہیں بیان سے باہر ہے۔

جس بندے نے مجھے پاسپورٹ کی کاپی کروانے کا کہنا تھا اور نہیں کہا۔ میں واپس اس کے پاس جا کر چیختا رہا کہ کیوں تم نے نہیں بتایا اس شور مچانے پر بھی وہاں کسی آفیسر کو مداخلت کی ضرورت محسوس نہ ہوئی جو اس بات کا اشارہ ہے کہ مسافروں کا احتجاج ان کے لئے عام سے بات ہے۔

ارباب اختیار کو ان الجھنوں سے گزرنا ہی نہیں پڑتا۔ انہیں کیا سروکار کہ عام لوگوں کے ساتھ کیا بیتتی ہے؟ پاکستانی ائیرپورٹس پر یہی عوامل ہیں جو ہمارے طیاروں کی پرواز میں تاخیر کا سبب بنتے ہیں کاش کوئی ایسے مسائل کی طرف بھی توجہ دے۔

نوٹ: یہ تحریر علامہ اقبال انٹرنیشنل ائیرپورٹ کے لاؤنج میں بیٹھ کر ہی لکھی گئی ہے۔

تبصرے (13) بند ہیں

محمد آصف ملک Mar 24, 2016 05:14pm
حقیت پر مبنی تحریر ہے لیکن کیا کریں پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر ----- مرد ناداں پر کلام نرم و نازک بے اثر
عبدالرزاق قادری Mar 24, 2016 05:34pm
ڈاکٹر غافر شہزاد نے اپنی کتاب (سفرنامہ) ”شیکسپیئر کے دیس میں“ میں لاہور والے ہوائی اڈے کے اندر دوکانداروں کے رویے کے بارے میں اسی طرح کا نقشہ کھینچا ہے
Rizwan Mar 24, 2016 05:45pm
ہماری سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ ہم بولتے نہیں اور ظلم سہتے رہتے ہیں مثال کے طور پر جب آپ نے وہاں شور مچایا ہو گا کہ کاپی کہ لیے کیوں نہیں بتایا گیا تو شاید ایک دو آدمی آپ کے ساتھ بولے ہوں گے باقی ساب تماشہ دیکھ کر ہنس رہے ہوں گے ۔
Kamal KSA Mar 24, 2016 07:36pm
I travel through Karachi and found the system really appropriate. As some of our people exercise all kind of visa cheating and drugs smuggling so we can't really compare our processing time with EU countries, where people think for the respect first. However any instructions should be given clearly at airport entrance.
BJ Mar 24, 2016 10:01pm
We are this kind of nation. Same story prevails in every field of our Pakistani life. . . be it a road or air travel, visit to hospital or any office. . . just characters are renamed.
یمین الاسلام زبیری Mar 24, 2016 10:34pm
ہمارے ہاں انگریزی پر بڑا ذور ہے، لیکن ہم انگریزی توتے کی طرح رٹ رہے ہیں۔ مثائل کا انبار بڑھتا جارہا ہے اور ہم انگریز سے فوٹو کاپی مشین چلانا تو سیکھ رہے ہیں لیکن اس کا استعمال اپنی مرضی سے، اور خود غرضی سے، کررہے ہیں۔ ایسی تعلیم کا کیا فائدہ؟
irfan Mar 25, 2016 12:45am
ہر جگہ ایسا ہی ہو رہا ہے یہ پاکستان نہیں کرپشتان بن گیا ہے
sab Mar 25, 2016 03:05am
karachi airport pay aaj say 10 saal pahlay 100 rupees per copy diya hay aap nay to phir achi qeemat par photo copy karai
Murad Quasim Mar 25, 2016 03:39am
With major airlines abstaining to fly to Pakistan due to security reasons since last few years, this new drama will scare any potential airline businesses that may be considering to include Pakistan on their flight map. If these extra steps are important for security reasons, passport reading machnies need to be procured and installed on Pak airports. The user should still 'pay' for these new facilities however, this charge should be included in the airport tax (i.e., the ticket price) so as it is fair and transparent.
ahmaq Mar 25, 2016 10:12am
@Murad Quasim I have travelled from the said airport on january 26 for Istanbul. I did not see any demand for a fotocopy. Anyhow, if they have introduced this system, it is not logical. Purchase of airticket can not be done without id card number/passport number, Once the id card number/passport number is there you can locate the passenger very easily. It is not logical to introduce such a system. However, as everywhere in Pakistan, there is no system on airport. Airport shops do not have controlled prices, except vip lounges. I remind at Lahore airport, I had difficulty in purchasing airticket for Islamabad international airpot on 19th January. The officer at airport refused to sell me an airticket for economy class and forced me to purchase a business class air ticket. When I boarded th plane all of it was empty except a few passengers. I had difficulty to connect to utside world by a week wifi connection. NoRregularProperShuttle servis to and from airport to city centre.
abdul razzaq Mar 25, 2016 11:17am
ye sub air port k afsran or amlay ke mily bhugatt hai hram khany ke adutt hai in logon ko passport dakhtay hian jo bunda pehly bar ja rha ho os ko bht tung kraty hain passay lany k laiy....main do sal hr 3 month bad jata tha jub muj se koi aisi demand krta tha to os achi khasi suna data tha. or man odr he aker jata tha bad khud mint kertay thay ja o bahi. .....
ali.nadir Mar 25, 2016 12:01pm
yeh haqeeqat he k hum bus bardasht kerte hi jate hn aawaz nahi uthate agr aawaz uthana bhi chahen to koi sath nahi deta
Umar Mar 25, 2016 12:33pm
I happened to visit Lahore airport in the month of January and I needed to buy prepaid card for mobile and 100 Rupees card was selling on 120 Rupees, on asking the shopkeeper that why is he selling at price of 120 Rupees? He replied 'muhabbat'. Now this question is, how to blame? Is hamaam men sab he nange hen......... In my dictionary the meaning of 'muhabbat' is affection and love, but in this case it was quoted to suppress his 'besharmi' and 'beghairiti'. We as a nation are so used to of being looted, disgraced and mistreated that we often do not notice it or have accepted it.