• KHI: Partly Cloudy 17.1°C
  • LHR: Partly Cloudy 9.7°C
  • ISB: Partly Cloudy 11.8°C
  • KHI: Partly Cloudy 17.1°C
  • LHR: Partly Cloudy 9.7°C
  • ISB: Partly Cloudy 11.8°C
شائع April 5, 2016 اپ ڈیٹ April 6, 2016

آزاد کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد کے شمال میں محض 136 کلومیٹر کی دوری پر ہندو مت، بدھ مت، اور شیو مت کا مقدس ترین گاﺅں شاردہ صدیوں سے ایستادہ ہے۔

شاردہ دیوی کی مقدس عمارت شاردہ کے وسط میں کشن گنگا (نیلم) دریا کے بائیں کنارے واقع ہے۔ شاردہ سنگم مقدس زیارت سے چند گز نیچے واقع ہے جہاں تینوں مقدس ندیاں یعنی کشن گنگا (نیلم) سرسوتی یا کنکوری (سرگن نالہ) اور مدھومتی (شاردہ نالہ) آپس میں بغل گیر ہوتی ہیں۔

کسی بھی تہذیب کی ارتقاء میں آب و ہوا، نباتات، جنگلی حیات، ماحول، رسم و رواج، علاقائی ساخت، یہ تمام چیزیں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔ ہزاروں سالوں کے تغیر کے نتیجے میں تہذیبیں جنم لیتی ہیں اور تناور ہوتے ہی نظریات و عقائد کی وارث کہلانے لگتی ہیں۔ فطرت انسانی صدیوں سے غیر مرئی اور مافوق الفطرت قوتوں کی اطاعت میں راحت محسوس کرتی ہے۔

شاردہ مظفرآباد سے صرف 136 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔
شاردہ مظفرآباد سے صرف 136 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔

3058 قبلِ مسیح میں وسط ایشیاء میں آنے والے سراس وات برہمن، جو علم آشنا اور مہذب لوگ تھے، اس درے میں آ کر آباد ہوئے۔ شاردہ دیوی انہی قبائل کی تخلیق بتائی جاتی ہیں جن کے نام پر شاردہ گاﺅں آج بھی تابناک تاریخ اور اجڑے مقامات لیے موجود ہے۔

شاردہ دیوی کو علم، حکمت، ہنروفنون کی دیوی قرار دے کر صدیوں پوجا کی جاتی رہی ہے۔ وقت کے ساتھ اسے شکتی (طاقت) لکشمی (دولت) دیوی بھی قرار دیا گیا۔ وشنووتی، شیو مت، بدھ مت، جین مت اور ہندو دھرم کے عقائد کے باہم متصل ہونے سے یہاں سے مخلوط المذاہب تہذیب و ثقافت نے جنم لیا جو رواداری، برداشت اور احترام پر مبنی قرار پائی۔

آج ہندوستان اور سری لنکا سمیت متعدد ممالک میں شاردہ دیوی کے پیروکار موجود ہیں۔ بالخصوص نیپال کے کشن خاندان کے شہزادے کنشک اول (25 سے 60 عیسوی) جن کے بارے میں یہ تصور کیا جاتا ہے کہ انہوں نے ہی شاردہ مندر بنوایا تھا، ان کی نسل آج بھی نیپال میں موجود اور شاردہ دیوی کو مقدس مانتی ہے۔

ملک و بیرونِ ملک سے ہزاروں سیاح شاردہ کے آثارِ قدیمہ دیکھنے کے لیے آتے ہیں۔
ملک و بیرونِ ملک سے ہزاروں سیاح شاردہ کے آثارِ قدیمہ دیکھنے کے لیے آتے ہیں۔
یہاں کی قدیم تعمیرات لوگوں کو ورطہء حیرت میں ڈال دیتی ہیں۔
یہاں کی قدیم تعمیرات لوگوں کو ورطہء حیرت میں ڈال دیتی ہیں۔
شاردہ کسی زمانے میں بہت بڑی درسگاہ رہی ہے جہاں ہزاروں طلباء تعلیم حاصل کرتے تھے۔
شاردہ کسی زمانے میں بہت بڑی درسگاہ رہی ہے جہاں ہزاروں طلباء تعلیم حاصل کرتے تھے۔

چینی سیاح ہیون شانگ (631 عیسوی) کے بقول بدھ مت کشمیر کا طاقتور ترین مذہب مانا جاتا تھا اور اسی دور میں بدھوں کی چوتھی بین الاقوامی کانفرنس ہندوستانی پنجاب کے شہر جالندھر میں منعقد ہوئی جس کے اثرات وادیء کشمیر پر بھی مرتب ہوئے تھے۔ نیپال اور بدھ مت کا تعلق ہزاروں سال پرانا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ علم، حکمت اور ہنر کی دیوی شاردہ کو وہاں آج بھی تقدس حاصل ہے۔

برہمن سماج کے دور 880 سے 1320 عیسوی تک شاردہ دیوی کو تقدس اور تہذیب کو عروج حاصل رہا۔ اسی دور میں شاردہ رسم الخط بھی تخلیق کیا گیا جو صدیوں تک رائج رہا۔

تاریخی روایات بتاتی ہیں کہ دنیا بھر سے علم، روحانیت اور گیان کے حصول کے لیے طالب علم آئے، خود کو علم سے منور کیا اور شاردہ دیوی کا پیغام دنیا کے کونے کونے تک پہنچایا۔ کنشک اول کے دور میں شاردہ وسطی ایشیاء اور ایشیاء کی اہم ترین درسگاہ کہلائی۔ یہاں بدھ مت کی تعلیم کے ساتھ منطق، فلسفہ، جغرافیہ، تاریخ، معاشرت، روحانیت کی دیوناگری رسم الخط کے ذریعے تعلیم دی جاتی رہی۔

شاردہ میں دیوی کا مندر آج بھی کھنڈر کی صورت میں موجود ہے۔ یہاں پر لگائے گئے بھاری بھرکم پتھر عقل انسانی کو دنگ کر دیتے ہیں کہ جب ٹیکنالوجی بھی نہیں تھی اس وقت اتنے بڑے پتھر اس مقام تک کیسے پہنچائے گئے اور پھر انہیں ایک دوسرے کے اوپر کیسے چڑھایا گیا۔

بڑے بڑے پتھروں کی 18 سے 28 فٹ اونچی دیواروں میں شمالاً، جنوباً مستطیل درس گاہ کے درمیان میں کنشک اول کا تعمیر کروایا ہوا بغیر چھت کا چبوترہ موجود ہے جس کا کوئی نام اور تقدس ضرور رہا ہوگا۔

تقریباً 36 فٹ بلند چبوترے کا داخلی دروازہ مغرب کی سمت ہے جو نقش و نگار اور مذہبی تحریروں یا علامات سے مزین ہے۔ شاردہ کی قدیم عبادتگاہ و درسگاہ تک پہنچنے کے لیے 63 سیڑھیاں صدیوں سے انسانیت کا بوجھ سہار رہی ہیں۔ آٹھ بڑے بڑے پتھروں سے بنی دیوار اپنی اصلی حالت میں تو موجود نہیں لیکن اب اس کے آثار باقی ہیں۔

شاردہ دیوی کے استھان سے چند میٹر کے فاصلے پر حضرت سید جمال الدین شاہ کا مزار صدیوں رونق افروز رہا یہاں ڈوگرہ راج تک باقاعدہ عرس کی تقریبات منعقد ہوتی رہیں، جہاں ہندو و مسلم باقاعدگی سے حاضری دیتے رہے۔ حضرت سید جمال شاہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ امیر کبیر سید علی ہمدانی کے ہمراہ وسط ایشیاء سے کشمیر تشریف لائے اور اپنے لیے شاردہ گاﺅں پسند فرمایا۔ جب ان کا وصال ہوا تو عقیدت مندوں نے مقبرہ بنایا، جو وقت کے ساتھ ختم ہو گیا۔ آج ان کی مرقد منورہ پر تاجکستان سے لایا ہوا برگد نما درخت ایستادہ ہے۔ عرس کی تقریبات اب منعقد نہیں کی جاتیں اور بیشتر لوگ حضرت سید جمال شاہ کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔

آزاد کشمیر میں قائم محکمہ آثار قدیمہ نے آج تک شاردہ کی باقیات سے تاریخ کا تعین نہیں کیا اور نہ ہی وہاں سے دریافت ہونے والے نوادرات اور قیمتی سکے سنبھالے۔ ان نوادرات سے ماضی کی تہذیبوں اور مذاہب کے بارے میں آگاہی ممکن تھے اور یہ جاننا انتہائی آسان تھا کہ ماضی کی ان تہذیبوں سے آج وابستہ تہذیبیں اور افراد کہاں کہاں مکین ہیں۔

اس پر مستزاد یہ کہ شاردہ سمیت وادی نیلم سے سالانہ لاکھوں فٹ لکڑی کی چوری بھی اس وادی کو مصائب و آلام میں مبتلا کر رہی ہے۔ آزاد کشمیر حکومت جنگلات کاٹ کر فروخت کر کے سالانہ 27 کروڑ کماتی ہے جو اپنے جسم کا کوئی حصہ کاٹ کر فروخت کرنے کے مترادف ہے۔

متعدد حکومتیں آئیں اور چلی گئیں مگر جنگلات کی کٹائی پر پابندی نہ لگ سکی اور آزاد کشمیر میں جنگلات کی کٹائی سے سب سے زیادہ وادی نیلم متاثر ہے جہاں ہزاروں سال پرانے درخت بھی انسانوں کی ہوس زر کا شکار ہو رہے ہیں۔

درختوں کی کمی سے جہاں وادی نیلم کے حسن پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں، تو وہیں ماحولیاتی تبدیلیاں بھی جنم لے رہی ہیں۔ ماضی کے مقابلے میں اب کئی گنا کم برفباری اور ندی نالوں میں سطحِ آب کے درجہء حرارت میں اضافے سمیت مسائل جنم لے چکے ہیں۔ ان تمام مسائل پر توجہ نہ دے کر ہم اس جگہ کے ساتھ ظلم کر رہے ہیں جو صدیوں سے اپنا حسن بچائے رکھنے میں کامیاب رہی تھی۔ لیکن شاید اب شاردہ کے حقیقی زوال کا دور شروع ہوا چاہتا ہے۔

— تصاویر بشکریہ اشفاق شاہ، ایم ڈی مغل۔


ابرار حیدر مظفرآباد، آزاد جموں و کشمیر میں ڈان نیوز ٹی وی کے آؤٹ اسٹیشن رپورٹر ہیں۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیے گئے تبصروں سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

ابرار حیدر

ابرار حیدر مظفرآباد، آزاد جموں و کشمیر میں ڈان نیوز ٹی وی کے آؤٹ اسٹیشن رپورٹر ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تبصرے (33) بند ہیں

Naseer chaudhary Apr 05, 2016 06:52pm
ابرار صاحب بہت مبارک ہو آپکی تاریخ پر گہری نظر ہے پڑ کر میرے علم میں آضافہ ہوا
Naveed Awan Apr 05, 2016 07:11pm
بہت اچھے ابرار حیدر صاحب جناب کی تحری پڑھ کر میرے علم میں اضافہ ہوا ہے
Raja Wasim Apr 05, 2016 07:18pm
ابرار حیدر صاحب بہت خوب یہ ایک بہترین کاوش ہے شاردہ اور نیلم ویلی کے تاریخی ورثہ کی حفاظت کے لیے منظم انداز میں کام کی ضرورت ہےانسٹی ٹیوٹ آف ایشین سویلائزیشن کی ڈاکٹر رخسانہ خان اس پر کافی کام کررہی ہیں مگر حکومتی بے حسی سے یہ ورثہ دن بدن ختم ہو رہا ہے اس حوالے سے نیلم کی سول سوسائیٹی نے بھی بہت آواز اٹھائی مگر شائد وہ اسلام آباد تک نہیں پہنچ سکی وزارت تحفظ قومی ثقافتی ورثہ کی نظر میں ابھی تک یہ ایک ناقابل دریافت جگہ ہے ۔ والسلام راجہ وسیم سیکرٹری جنرل سنٹرل پریس کلب مظفرآباد آزادکشمیر
ahsan shah Apr 05, 2016 07:35pm
بہت اچھے ابرار حیدر صاحب
Farrukh Abbas Apr 05, 2016 08:49pm
Ibrar bhahi ap k alfaz k chinao ka main hamesha se dildada hun.. ap ne bohat mehnat ki.. hamarey ilm main izafa k lye apka bohat shukria
Farrukh Abbas Apr 05, 2016 08:51pm
Ibrar sahib ..ap k alfaaz k chunao ka tau main hamesha se dildada hun. aap ne bohat megnat se utni research kr k hmarey knowledge main izaafa kya.. iss k lye bohat shukria
Sadaf Apr 05, 2016 09:45pm
Very beautiful we are very luky
Muhammad irfan Apr 05, 2016 11:23pm
ابرار صاحب آپ نے بہت اچھا لکھا پڑھ کر بہت مزہ آیا، اللہ آپ کے علم میں اور اضافہ کرے، مجھےتاریخ سے گہرا لگاؤ ہے اور اس طرح کی چیزیں پڑھ کر بہت مزہ آتا ہے
Sammer Abbas Apr 06, 2016 03:22am
بہت زبردست۔۔۔۔۔۔۔ جتنی اعلی تحریر اتنی ہی شاندار فوٹوگرافی ۔۔۔ابرار حیدر صاحب اللہ آپ کے قلم کو مزید قوت عطا کرے۔۔۔آپکی تحریر پڑھ کر بہت مزہ آیا اور دلی مسرت ہوئی۔ایک درخواست بھی ہے کہ اس طرح کا کام جاری رکھیں یقینا" آپ آزاد کشمیر کی صحافت کا قیمتی سرمایہ ہیں۔۔۔اللہ آپکو صحت و سلامتی عطا کرے اور ہم جیسے سست شاگردوں کو آپ جیسی شخصیات سے سیکھنے کا موقع عطا کرے۔۔آمین
عبدالحفیظ Apr 06, 2016 07:55am
ابرار صاحب بہت خوبصورت تحریر ہے۔ ایسی تحریریں بھی لوگوں کو اِن حسیں مقامات کی طرف کھینچ لانے کا ایک ذریعہ ہوتی ہیں۔ شاردہ وادی کے بارے ایک دوست، جنہوں نے یہاں وزٹ کیاتھا، کے ذریعے کافی کچھ سننے کو ملا تھا۔ آج آپ نے اُس میں مزید اضافہ کر دیا۔ ارادہ تو پہلے بھی تھا وادی شاردہ دیکھنے کا، اب مزید پختہ ہو گیا ہے۔ آپ کی طرف سے ایسے مزید مضامین کا انتظار رہے گا۔
حافظ Apr 06, 2016 08:22am
جی ۱۹۹۰میں ٹریکنگ کرتے ہوئے وہاں گئے تھے۔ خوبصورت جگہ ہے۔
Muhammad Haroon Narowal Punjab Pakistan Apr 06, 2016 09:38am
ابرار حیدر صاحب بہت خوب یہ ایک بہترین کاوش ہے شاردہ اور نیلم ویلی کے تاریخی ورثہ کی حفاظت کے لیے منظم انداز میں کام کی ضرورت ہےانسٹی ٹیوٹ آف ایشین سویلائزیشن کی ڈاکٹر رخسانہ خان اس پر کافی کام کررہی ہیں مگر حکومتی بے حسی سے یہ ورثہ دن بدن ختم ہو رہا ہے اس حوالے سے نیلم کی سول سوسائیٹی نے بھی بہت آواز اٹھائی مگر شائد وہ اسلام آباد تک نہیں پہنچ سکی وزارت تحفظ قومی ثقافتی ورثہ کی نظر میں ابھی تک یہ ایک ناقابل دریافت جگہ ہے ۔ والسلام راجہ وسیم سیکرٹری جنرل سنٹرل پریس کلب مظفرآباد آزادکشمیر
Muhammad Haroon Narowal Punjab Pakistan Apr 06, 2016 09:39am
Ibrar sahib ..ap k alfaaz k chunao ka tau main hamesha se dildada hun. aap ne bohat megnat se utni research kr k hmarey knowledge main izaafa kya.. iss k lye bohat shukria
shahid ali khan Apr 06, 2016 10:35am
very nice placee
Sardar Rafique Apr 06, 2016 11:04am
Abrar Haider sahib has been observed writing articles on very technical issue like Recurrence of Earthquake and now on Sharda Cultural-Religious heritage etc. I will only say, while some one is not expert in a field should not public the information which is sensitive like that of earthquake and religious matters.
Ansar Naqvi Apr 06, 2016 11:42am
وادی کی قدیم تہذیب پر آپ کی عمدہ اور طائرانہ نظرقدیم روایات کو مقدس گردانتے اور ان کا پاس رکھنے میں اہم قدم ہے ،ایک اچھا باغباں غیر ضروری خود رو جڑی بوٹیوں کو اس لئے نہیں اکھاڑ پھینکتا کہ وہ ان سے نفرت کرتا ہے بلکہ اس لئے کہ اسے پھولوں سے محبت ہوتی ہے ،بلاشبہ بدھ مت کا شمار وادی کے قدیم مذاہب میں ہوتا ہے اور آپ نے اس تہذیب کوفراموش نہیں کیا ،کیونکہ انسان ارتقا اورسائنس کی ترقی کے طفیل پیٹ کے بل لیٹ کر پانی پینے والے وحشی کاسفرطے کرکے کہکشاں کی رنگین تصویر کشی تک آگیا ہے ،
Khawaja Riaz Wani Apr 06, 2016 12:01pm
Its nice to see a detail cortical about Sharda Neelum Valley .Mr Abrar sub is a researcher and he is competent writer,creative journalists .He is a huge grip about the history of Kashmir and its historical places .i appreciate this Efforts ...wish u best of luck
Dr s.kniz abidi Apr 06, 2016 12:33pm
Kash ehsasy zmadari r lgan hkomt k logon m b pyds ho jati.....khuda ap ko jzay khair dy.ilm m izafa hoa khas taor p amir kbir ali hmdani k bary m pts chla jo mery jadd e bzrg hyn.
ahsan shah Apr 06, 2016 12:36pm
تاریخ پر ابرار حیدر کی بہترین گرفت بارے کشمیر کے صحافی اور لکھنے ،پڑھنے والے تو جانتے تھے۔۔اب پاکستان سمیت دنیا جاننے لگی ھے۔۔۔شاردہ کی سٹوری شاندار ہے،تارٰیخ سے دلچسپی،خوبصورت مقامات سے محبت رکھنےوالوں کی گزارش ہے ہی سلسلہ رکنے نہ پاے۔۔تشنگان علم کی پیاس بجھتی رہے تو صدقہ جاریہ ہے۔۔خدا کرے زور قلم اور زیادہ۔۔۔۔۔
imtiaz solangi Apr 06, 2016 03:01pm
I have visited the site in 2015, very very beautiful but no basic facilities were available.
Muhammad Farooq Khan Apr 06, 2016 05:19pm
This feature story by Abrar Haider is a remarkable effort to aware the readers about this historic place and contains information very less known by the people in Azad Kashmir even.
Tasdq Kazmi Apr 06, 2016 05:29pm
نیلم ویلی اور شاردا کے بارے میں بہت اعلیآ سٹوری ہے۔۔۔بیت پرانی تاریخ بارے پتہ چلا۔۔
[email protected] Apr 06, 2016 05:55pm
شاباش عصمت
javed Chodury Apr 06, 2016 06:58pm
bot aala story hy.Sharda ke tarekh btany pr Abrar sb ap ka bot skreya.
Kashif Javed Apr 06, 2016 07:05pm
تاریخ پر ایسی گرفت ابرار حیدر کی ہو سکتی ھے۔۔آزاد کشمیر ۔نیلم ویلی کے م بہت سے لوگ اپنے ماضی سے ناواقف ہیں اتنی معلومات ،ہیں اس مضمون میں کہ بندہ حیران رہ جاتا ہے۔۔شاردہ کا حسن تو بیت سے لوگون نے دیکھا ہے مگر تاریخ پہلی مرتبہ سامنے ای ہے۔بہت اعلی
Syed Muzammil Hussain Apr 07, 2016 11:44am
Great article . You are appreciated for this great contributor. Syed Muzammil Hussain Islamabad 03015030533
javed choudhry Apr 07, 2016 12:13pm
bot aala artical hy,Sadar Sb...bot kch janny ka moqa mla..
Kafait Hussain Naqvi Apr 07, 2016 12:23pm
ابرار حیدر صاحب کی تا ریخ پر گرفت وسعت اللہ خان کی طرح مظبوط ہے۔ ابرار صاحب بہت سی مشکلات میں مبتلا ہونے کے باوجود اتنا اچھا لکھتے ھیں ۔۔مبارکباد کے مستحق ہیں
manzoor anjum Apr 07, 2016 10:14pm
bhut khoob
allah warayobozdar Apr 08, 2016 11:25pm
very very nice ,
fida Hussain Apr 10, 2016 08:14pm
very informative thanks abrar haider
imran Apr 12, 2016 10:48pm
mashallah sir shukreya boht boht ibrar sahib
masood abbasi Apr 13, 2016 05:14pm
vry vry nice.... asil journlizm ye ha...