صحافی کی ڈائری: دورہ گوادر (پہلا حصہ)

صحافی کی ڈائری: دورہ گوادر (پہلا حصہ)

توصیف رضی ملک

یہ تین حصوں پر مشتمل سیریز کا پہلا مضمون ہے۔


پہلا دن

6 بجکر 30 منٹ: میں سمجھتا ہوں کہ کسی صحافی کو صبح 7 بجے ڈیوٹی پر پہنچنے کا کہنا کسی گناہ کبیرہ سے کم نہیں۔

صاف کہوں تو کئی مہینوں سے میں اتنی صبح سویرے نہیں اٹھا تھا۔ اپنی سخت شفٹ کر کے بمشکل دو گھنٹوں کی نیند کے بعد میں سردیوں کی سنہری صبح دیکھنے کی امید کر رہا تھا، مگر اس کے بجائے گھپ اندھیرے نے میرا استقبال کیا۔

گوادر پورٹ کے قریب پی این ایس اکرم جیٹی جہاں پاک میرینز اور پاک بحریہ کے اسپیشل سروس گروپ کے اہلکار تعینات ہیں۔
گوادر پورٹ کے قریب پی این ایس اکرم جیٹی جہاں پاک میرینز اور پاک بحریہ کے اسپیشل سروس گروپ کے اہلکار تعینات ہیں۔

مجھے علی الصبح نیول ہیڈ کوارٹر کراچی پہنچنے کو کہا گیا تھا۔ دیر ہونے کی وجہ سے میں 8 بجے کے تھوڑا بعد نیول ہیڈ کوارٹر پہنچا۔ صحافیوں کا گروپ پہلے ہی نیول ایئر بیس کے لیے روانہ ہوچکا تھا، مگر خوش قسمتی سے جلد ہی مجھے پی این ایس مہران لے جانے کے انتظامات کر لیے گئے۔

8 بجکر 30 منٹ: بحریہ کا تازہ کمیشنڈ اے ٹی آر ٹرانسپورٹ طیارہ ایندھن بھرے جانے کے بعد اڑنے کے لیے بالکل تیار کھڑا تھا۔ میں جہاز میں سوار ہونے والا آخری سویلین تھا۔

جب اے ٹی آر ہوا کے دوش پر رواں ہوا تو ہمیں کراچی کا کہرآلود طائرانہ منظر دیکھنے کو ملا۔ پرواز کا تجربہ ایئرفورس کے سخت اور ہنگامہ خیز جہاز ہرکولیس سی 130 کے مقابلے میں کہیں زیادہ لگژری تھا۔

آرامدہ سیٹوں اور درمیان میں کشادہ راستے کے ساتھ اے ٹی آر کسی کمرشل مسافر جیٹ سے کم نہیں ہے۔ ہمیں عملے کے ایک رکن نے بتایا کہ بحریہ نے اے ٹی آر طیارے دو سال پہلے خرید کیا تھا۔

''ان میں ابھی کچھ خاص تبدیلیوں اور اصلاحات کی ضرورت ہے، جس کے بعد یہ سمندر کی نگرانی کرنے کے قابل بن جائیں گے۔''

کراچی سے پسنی تک کے ایک گھنٹے کے سفر کے دوران ہمیں چائے دی گئی اور مختلف اعلانات ہوئے.

پاک میرینز کی بٹالین گوادر پورٹ کو سکیورٹی فراہم کرتی ہے۔
پاک میرینز کی بٹالین گوادر پورٹ کو سکیورٹی فراہم کرتی ہے۔

9 بجکر 30 منٹ: ہمیں پسنی میں ہی اترنا پڑا کیونکہ گوادر ایئر پورٹ مرمت کی وجہ سے بند تھا۔ یہ بالکل کسی صحرا میں لینڈ کرنے جیسا تھا: بلوچستان کی ساحلی پٹی ریت کے ٹیلوں اور مٹی کے میدانوں سے بھری ہوئی ہے۔

ہمیں اس کے بعد نیول آفیسرز میس میں لے جایا گیا، جسے وارڈ روم بھی کہا جاتا ہے، تاکہ گوادر پہنچنے کے لیے بس کے دو گھنٹوں کے سفر سے پہلے ''تر و تازہ'' ہو جائیں۔

ریت کے افسردہ ٹیلوں کے باوجود ہمارے لیے پسنی میں اعلیٰ قسم کے واش رومز کا بندوبست موجود تھا.

کوسٹل ہائی وے کے ساتھ ہی نصب سنگِ میل کے مطابق گوادر اس جگہ سے اب بھی 45 کلومیٹر دور تھا۔

گوادر پورٹ
گوادر پورٹ

واحد لین والا ہائی وے بہت ہی کمال کا ہے۔ مقامی لوگوں اور کاروباروں کے لیے ایک معاشی شہہ رگ کی حیثیت رکھنے والا یہ ہائی وے دوسرے شہروں سے ساحلی پٹی تک رسائی فراہم کرتا ہے اور صوبے میں سیاحت کے فروغ کا باعث بنا ہے — جیسا کہ کراچی کے بہت سے لوگ اسی راستے کے ذریعے بلوچستان کے مختلف ساحلوں پر گھومنے آتے ہیں۔

12 بجے: گوادر کا پسماندہ اور گرد آلود قصبہ دیکھ کر میں حیرت میں پڑ گیا تھا۔

میری توقعات کے برعکس، گوادر کو — جو کہ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کا ایک اہم حصہ ہے — اب بھی ان ترقیاتی کاموں سے مستفید ہونا باقی ہے جن کی میڈیا میں تشہیر کی جاتی ہے.

گوادر کے قریب گہرا نیلا سمندر۔
گوادر کے قریب گہرا نیلا سمندر۔

گوادر پورٹ ابھی فعال بننے سے کافی دور ہے۔ میں نے نوٹ کیا کہ پورٹ کی جانب کوئی بھی متعدد لین کی حامل مناسب سڑک موجود نہیں تھی۔ وہاں پہنچنے کا بہترین راستہ ایک تنگ اور پرہجوم بازار سے ہو کر گزرتا ہے، جہاں ٹریفک جام ہونا معمول کی بات ہے۔

ہم نے جیسے ہی شہر کی طرف رخ کیا تو ہمارے ساتھ موجود رابطہ کار نے ایک سپر اسٹور کی جانب اشارہ کیا (جس میں کراچی کے معیار کے مطابق بہت کم چیزیں تھیں) اور کہا کہ ''گوادر میں ہمارے پاس یہ سب سے بہترین دکان ہے۔''

یہ دیکھنے کے بعد میرے ذہن میں گوادر کی ترقی کی تصویر کافی حد تک مکمل ہو گئی۔

بدقسمتی سے مجھے اب بھی اس ترقی کے موضوع پر اگلے دن اعلیٰ سطحی بریفنگ میں شرکت کرنی تھی۔

12 بجکر 30 منٹ: سطح سمندر سے چند سو فٹ سے زائد بلندی پر ایک پہاڑی کے اوپر واقع گوادر نیول میس ملکی ملٹری معیار کے عین مطابق ہے۔

پہاڑی کے اوپر سے گوادر پورٹ اور ساحل سمندر کے سحر انگیز مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔

وہاں پہنچنے پر ہمیں چائے اور دیگر لوازمات پیش کیے گئے اور پھر جلدی جلدی ختم کرنے کو کہا گیا، کیونکہ بریفنگ شروع ہو چکی تھی۔

سڑک کے طویل سفر کے بعد بمشکل ملنے والی چائے اور اس ''ترقی'' پر بریفنگ، جسے ہم گوادر میں پہلے ہی دیکھ چکے تھے، میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا بہت مشکل ہو گیا تھا۔ میں بریفنگ روم میں چائے کا کپ ساتھ ہی لے گیا۔

سمندر سے گوادر پورٹ کا ایک نظارہ۔
سمندر سے گوادر پورٹ کا ایک نظارہ۔

گوادر میں نیول یونٹ پی این ایس اکرم کے کمانڈنگ افسر، کمانڈر عاطف نے علاقے کے ان ترقیاتی ٹاسکس کے بارے میں بتایا جو بحریہ کے حوالے ہیں، جن میں امن و امان کو بحال رکھنا اور مقامی لوگوں کو بنیادی صحت اور تعلیمی سہولیات فراہم کرنا شامل تھا۔

عاطف نے مزید بتایا کہ ''۔۔۔۔ اور سب کچھ بلا معاوضہ کیا جا رہا ہے، بغیر فیس لیے۔''

کمانڈر عاطف نے مزید بتایا کہ بحریہ مقامی باشندوں کے لیے ملازمت کے مواقع بھی پیدا کرتی ہے اور انہیں اس علاقے کے ترقیاتی کاموں میں بھی شامل کرتی ہے۔

1 بجکر 30 منٹ: بحریہ کے جوان ہمیں ایک ہچکولے دار تیز رفتار کشتی پر وہ چوکیاں دکھانے کے لیے لے گئے جہاں گوادر پورٹ کو سمندر کی طرف سے محفوظ بنانے لیے پہرا دیا جاتا ہے۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے گوادر میں تھرڈ میرین بٹالین کو تعینات کیا ہوا ہے۔

بٹالین کے کچھ یونٹس کو خصوصی طور پر چینی انجینئرز کو تحفظ فراہم کرنے کا ٹاسک دیا گیا ہے۔

3 بجے: ہچکولوں سے بھرپور کشتی کے سفر کے بعد ہمیں تین کورسز پر مشتمل شاہانہ کھانا پیش کیا گیا، جس سے میرا میٹابولزم بالآخر معمول پر آ ہی گیا.

اب تک ایک بات تو کافی حد تک یقینی ہو چکی تھی کہ اس دن کی منصوبہ بندی صحافیوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے نہیں کی گئی تھی — جن میں سے کچھ تو اپنی ریٹائرمنٹ کی عمر بھی پار کر چکے تھے۔ ایسی صورتحال کا سامنا صرف فوجی اہلکار ہی کر سکتے ہیں جنہیں خصوصی طور پر ایسی صورتحال کے لیے تربیت دی جاتی ہے.

بحریہ کا جہاز گوادر پورٹ پر لنگر انداز ہے۔
بحریہ کا جہاز گوادر پورٹ پر لنگر انداز ہے۔

یوں لگا کہ کسی نے بھی اس چھوٹی سی بات پر بھی غور نہیں کیا تھا کہ تقریباً 50 صحافیوں کو ''تر و تازہ'' ہونے کے لیے عارضی قیام کے دوران اگر آپ ہر کسی کو واش روم کے استعمال کے لیے 3 سے 4 منٹ کا بھی وقت دیں، تو انہیں واش روم کے استعمال میں گھنٹے سے زیادہ لگے گا۔

بحریہ کے اہلکاروں نے بار بار یہ بات دہرائی کہ:

''پسنی ایئر فیلڈ کے رن وے پر لائٹس کا انتظام نہیں ہے اس لیے سورج غروب ہونے کے بعد جہاز کا ٹیک آف کرنا ناممکن ہے۔ چنانچہ ہمیں تیزی سے چلنے کی ضرورت ہے۔''

مجھے ان لوگوں پر افسوس ہے جنہوں نے اس بات پر یقین کیا تھا۔

4 بجے: ہمیں بحریہ ماڈل اسکول کے ساتھ ہی موجود میرین یونٹ میں شام کی چائے پیش کی گئی. یہ اسکول بحریہ کی جانب سے مقامی بچوں کو تعلیم فراہم کرنے کے لیے تعمیر کروایا گیا ہے۔

5 بجے: آخر کار ہمیں بھرپور تشہیر کے حامل مگر فی الحال غیر فعال گوادر پورٹ پر لے جایا گیا۔

یوں لگا کہ گوادر پورٹ پر تجارتی سرگرمیاں رک چکی تھیں، یا کم از کم بندرگاہ پر کرینوں کے زنگ آلود پہیوں کو دیکھنے کے بعد میں نے تو یہی محسوس کیا۔ بعد میں میری اس بات کی تصدیق پورٹ پر موجود افسران نے بھی کی۔

ایسا لگا کہ جیسے ہم پورٹ کو صرف ہاتھ لگانے آئے تھے۔ سورج غروب ہو رہا تھا اور ہمیں جلدی میں الوادع کہنا پڑا۔

7 بجے: پسنی میں موجود ایئر فیلڈ بہت روشن تھا۔ تھکا دینے والے دن کے آخر میں طیارے نے آرام سے ٹیک آف کیا۔

میں آپ کو یہ ضرور بتانا چاہوں گا کہ رات کے وقت جہاز کی کھڑکی سے کراچی کو دیکھ کر ایک سحر سا طاری ہو جاتا ہے۔

انگلش میں پڑھیں


بحریہ کے شعبہء تعلقات عامہ کی جانب سے 50 صحافیوں کے گروپ کو بلوچستان کی ساحلی پٹی پر گوادر اور پسنی میں واقع بحریہ کی تنصیبات کا دورہ کروایا گیا تھا۔


توصیف رضی ملک ڈان ڈاٹ کام کے اسٹاف ممبر ہیں.

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: trmaverick@


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔