مشکل بچت کے 5 آسان طریقے

بچت کے ان طریقوں کو آزما کر آپ اپنی زندگی میں واضح تبدیلی محسوس کر سکتے ہیں۔
بچت کے ان طریقوں کو آزما کر آپ اپنی زندگی میں واضح تبدیلی محسوس کر سکتے ہیں۔

مالی معاملات اکثر پرتناﺅ ہوتے ہیں خصوصاً جب آپ یہ حساب نہ کر سکیں کہ آپ کے پیسے کہاں جارہے ہیں۔ میں خود بھی ایک سال پہلے تک شاہ خرچ تھی مگر ایک رات میرے خاندان کو فوری طور پر ایک ایمرجنسی کے لیے پیسوں کی ضرورت تھی اور میں نے خود کو مکمل طور پر کنگال پایا۔

مجھے واضح طور پر یاد ہے کہ اس وقت میرے اکاﺅنٹ میں صرف پانچ ہزار روپے تھے اور میں خود کو بالکل بے بس اور شرمندہ محسوس کررہی تھی۔ میں نے اپنے ارگرد ان چیزوں کو دیکھا جو اس روز ایمرجنسی سے قبل خرید لائی تھی، اور احساس ہوا کہ اس مشکل وقت میں یہ بالکل بھی مدد نہیں کرسکتیں۔ مگر پیسہ مدد کر سکتا تھا۔

اس رات میں نے کچھ پیسوں کو بچانے کا عزم کیا، اور یقین کریں کہ بچت میری زندگی کا سب سے بہترین فیصلہ تھا۔

یہاں میں کچھ ایسے طریقے بتا رہی ہوں جو میں نے روز مرہ کے اخراجات میں بچت کے لیے استعمال کیے، جس کے مجھے بے پناہ فوائد حاصل ہوئے۔ آپ بھی انہیں آزما کر دیکھیں اور اپنی زندگی میں واضح تبدیلی محسوس کریں۔

بجٹ بنانا

سننے میں شاید آسان لگتا ہو مگر بجٹ کی منصوبہ بندی اور اس پر قائم رہنا ہمیشہ تناﺅ سے خالی نہیں ہوتا۔ اگر آپ اکیلے ہیں تو ایک مالی منصوبے پر عمل کرنا نسبتاً آسان ہوتا ہے مگر جب آپ کا خاندان ہو تو ہر ماہ غیرمتوقع اخراجات کا سامنا ضرور ہوتا ہے۔

مگر کچھ اخراجات ایسے ہیں جو ہر ماہ ہوتے ہیں جیسے گھر کا کرایہ (اگر آپ کا اپنا ہے تو آپ خوش قسمت ہیں)، بجلی، پانی اور گیس کے بل، سودا سلف، اسکول کی فیسیں، ٹرانسپورٹ اخراجات وغیرہ۔

ایک اوسط رقم لیں جس کا تعین آپ نے خود کرنا ہے اور اسے اوپر بیان کردہ بنیادی اخراجات کے لیے ایک طرف رکھ دیں۔ شروع کے کچھ مہینوں کے دوران اس اوسط رقم پر جمے رہنے کی کوشش کریں، اگر آپ ایسا نہیں کرپاتے تو ایک قدم اور آگے جاکر دیکھیں کہ آپ کن اخراجات میں مزید کمی لا سکتے ہیں۔

مثلاً کیا آپ بجلی کے بل یا سودا سلف میں مزید بچت کرسکتے ہیں؟ اگر آپ کی بنیادی ضروریات کا بجٹ مسلسل دو ماہ تک تجاوز کررہا ہے تو یہ وقت ہے کہ رُکیں اور سوچیں کہ آپ کہاں زیادہ اخراجات کر رہے ہیں، گھر والوں کی میٹنگ بلائیں اور اس معاملے پر کھلی بحث کریں تاکہ ہر رکن ذمہ داری اٹھاتے ہوئے اپنا کردار ادا کرے۔

بجٹ بناتے ہوئے اس بات کا خیال رکھیں کہ آپ کی آمدنی اور اخراجات کے درمیان توازن قائم ہو، آپ اپنی تمام آمدنی کو بنیادی ضروریات اور سودا سلف یا شاپنگ اور باہر کھانوں پر نہیں خرچ کرسکتے۔

ہمیشہ ایک مخصوص رقم اپنے پاس رکھیں چاہے چھوٹی ہی کیوں نہ ہو، ایمرجنیسی اور دیگر سرگرمیاں جیسے بچوں کے اسکول کا ٹرپ یا کسی رشتے دار کے لیے شادی کے تحفے جیسی صورتحال کسی بھی وقت سامنے آسکتی ہے۔

بلوں کی بروقت ادائیگی

یہ ایک اہم ٹاسک ہوتا ہے مگر پھر بھی یہ کسی کے بھی ذہن سے آسانی سے فراموش ہوسکتا ہے، زندگی کی گہماگہمی میں بلوں کی مقررہ تاریخ کو بھول جانا قدرتی ہوتا ہے، خاص طور پر اگر وہ مہینے کے درمیان کے بعد آئیں۔

تاہم اس صورتحال سے بچنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اس ذمہ داری کو خاندان کے کسی ایک فرد کے ذمے لگا دیا جائے۔ بوڑھے والد، دادا یا انکل وغیرہ خاندان میں اس ماہانہ ٹاسک کے لیے عام طور پر بہترین افراد ثابت ہوتے ہیں جبکہ اس طرح وہ مصروف اور متحرک بھی رہتے ہیں۔

وگرنہ گھریلو خواتین یا بڑے بچے بھی بلوں کی آن لائن ادائیگی کا ذمہ اپنے سر لے سکتے ہیں۔ ملازمت پیشہ افراد کو یہ ذمہ داری دینا مناسب نہیں ہوگا کیونکہ وہ پہلے ہی خاندان کی کفالت کے لیے کل وقتی ملازمت کررہے ہوتے ہیں اور ایک اضافی کام ان کے اوپر کام کے بوجھ کو بڑھا دیتا ہے۔

ریٹیل تھراپی کی عادت سے گریز

ریٹیل تھراپی، یعنی ذہنی تناؤ کو کم کرنے کے لیے شاپنگ کرنا، اپنی جگہ مددگار تو ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ آپ کے ماہانہ بجٹ اور بچت کی بدترین دشمن بھی ہے۔ لان کے سوٹس کے میلے، زیورات کی دیوانگی اور جوتوں کا شوق ایک برے دن سے آپ کا دھیان ہٹا سکتے ہیں مگر یہ آپ کی بچت پر ایک بڑا اور مستقل سوراخ چھوڑ دیتے ہیں۔

اس کے برعکس جب آپ ڈپریس ہوں تو اس کیفیت سے باہر نکلنے کے لیے دیگر ذرائع کو تلاش کریں، مثلاً آن لائن فلم دیکھ لینا، اقوال پڑھنا یا دوست سے بات کرنا تاکہ آپ اچھا محسوس کرسکیں۔

بلا سوچے سمجھے خریداری محدود وقت کے لیے خوشی تو دے سکتی ہے مگر آپ کو انتہائی ضروری وسیلے سے محروم بھی کر دیتی ہے جو کسی بھی مشکل وقت میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔

مزید برآں شاپنگ اپنی ضروریات اور خواہشات کا تجزیہ کرنے کے بعد ہی کرنی چاہیے، اپنی آج کی خواہشات کی روک تھام کریں اور اپنے کل کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کچھ روپے بچالیں جس پر آپ کا مستقبل خود آپ کا شکرگزار ہوگا۔

کوپن اور ڈیلز کو استعمال کرنا

گھر سے باہر دو افراد کے کھانے کا خرچہ عام طور پر تین سے پانچ ہزار روپے کے درمیان ہوتا ہے جس کا انحصار ریسٹورنٹ کے مقام اور پکوان پر ہوتا ہے جن کا آپ آرڈر دیتے ہیں۔ چار افراد کے خاندان میں یہ خرچہ اوسطاً چھ سے آٹھ ہزار تک بڑھ جاتا ہے۔

اگر آپ بچت کرنے کی کوشش کررہے ہیں تو ہر ویک اینڈ یا ہفتے میں دو بار باہر کھانا کھانے سے بہت زیادہ خرچہ ہو جاتا ہے۔ اس کے بجائے مہینے میں ایک بار باہر کھانے یا گھر میں بہترین پکوان تیار کرنے پر توجہ دیں جو کم خرچ، زیادہ صاف اور زیادہ آرام دہ ہوتا ہے۔

کم خرچ میں باہر کھانے کا ایک اور ذریعہ ڈیلز اور ڈسکاﺅنٹس کو اپنانا ہے۔ لگ بھگ تمام ہوٹلوں کی جانب سے مختلف النوع ڈسکاﺅنٹس، کوپنز اور ڈیلز کی پیشکش کی جاتی ہے۔

مختلف بینکوں کی جانب سے ان کا کارڈ استعمال کرنے پر دس سے بیس فیصد رعایت کی پیشکش کی جاتی ہے جبکہ فاسٹ فوڈ چینز پر بھی فیملی یا مڈ نائیٹ ڈیلز آفر کرتی ہیں۔ ان آفرز پر نظر رکھیں اور جب کوئی مناسب آفر دستیاب ہو اس وقت ہی باہر کھانا کھانے جائیں۔

ایمرجنسی کے لیے منصوبہ

ایمرجنسی حالات کے لیے پیسے بچانا مت بھولیں، میڈیکل ایمرجنسی، بہت زیادہ یوٹیلیٹی بلز اور مہنگی خریداری کے اخراجات زندگی میں کسی بھی وقت سامنے آسکتے ہیں۔ ایک بار جب آپ روزمرہ کے اخراجات کا بجٹ بنالیں تو ایک مخصوص رقم ایمرجنسی کے لیے ایک طرف رکھ دیں۔

ضروری نہیں کہ آپ اپنی تنخواہ کا بہت بڑا حصہ اس مقصد کے لیے مختص کریں بلکہ ہر ماہ تھوڑی رقم بچانا بھی کافی ہوگا۔ ایک سال میں اس بچت سے آپ کے پاس اچھی خاصی رقم جمع ہو جائے گی اور آپ کا ایمرجنسی فنڈ بتدریج بڑھنے لگے گا۔

مناسب وقت پر اگر موزوں ہو تو آپ ایمرجنسی فنڈ سے کچھ رقم نکال کر سالانہ تعطیلات یا شاپنگ ٹرپ پر بھی جاسکتے ہیں۔

بچت کرنا ایک یا دو روز کا کام نہیں بلکہ یہ زندگی بھر کی عادت ہے جو آپ کو متعدد طریقوں سے فائدہ پہنچاتی ہے۔ اس سے آپ کو کبھی کسی پر انحصار نہیں کرنا پڑتا۔

تو اس کارآمد عادت کو آج سے اپنالیں اور اس کے فوائد سے کل مستفید ہوں۔

یہ مضمون 10 اپریل کو ڈان سنڈے میگزین میں شائع ہوا۔


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

تبصرے (3) بند ہیں

Samo Shamshad May 01, 2016 03:24pm
zbardast
ممتاز حسین May 02, 2016 10:40am
بہترین اس طرح کی تحریر کی بہت ضرورت ہے
sameer May 02, 2016 11:52am
apni zaroriyat ka gaka ghont ka Bachat kar na yacommite dalana depression ko dawat daa naa ha?