'بڑے شہروں میں فاسٹ باؤلنگ کا ماحول نہیں'

اپ ڈیٹ 28 اپريل 2016
فاسٹ باؤلر کے لیے جسامت، رفتار اور غیرمعمولی صلاحیت ضروری ہے،عاقب جاوید—فوٹو: اے ایف پی
فاسٹ باؤلر کے لیے جسامت، رفتار اور غیرمعمولی صلاحیت ضروری ہے،عاقب جاوید—فوٹو: اے ایف پی

دنیائے کرکٹ میں بہترین فاسٹ باؤلرز کے لیے مشہور پاکستان ٹیم اس وقت فاسٹ باؤلنگ کے شعبے میں شدید بحران کا شکار ہے اور یہاں تک کہ نئے فاسٹ باؤلرز کو تلاش کرنے کے لیے سابق کپتان وسیم اکرم کی زیرسرپرستی کیمپ لگانا پڑا۔

پاکستان کرکٹ ٹیم کے ہیڈ کوچ کے لیے درخواست دینے والے سابق فاسٹ باؤلر عاقب جاوید نے کرک انفو کو ایک تفصیلی انٹرویو دیا جس میں انھوں نے بتایا کہ اچھے فاسٹ باؤلر کو پیدا کرنے کے لیے بہترین ماحول کا ہونا ضروری ہے جو بڑے شہروں کی مصروف زندگی میں ممکن نہیں۔

عاقب جاوید کا کہنا تھا کہ 'کوچ کے طور پر میں نے یہ سیکھا ہے کہ فاسٹ باؤلر کے لیے تین چیزیں بہت اہم ہیں، ایک رفتار، دوسری جسامت، تیسری غیرمعمولی صلاحیت اور انفرادیت بھی بہت ضروری ہے۔ یہ جدید کرکٹ کی ضرورت ہے اگر کسی کے پاس ان میں سے کوئی ایک بھی خوبی ہوتو میں اس کو باصلاحیت کہوں گا'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'کیرئر کے دوران ٹیم میں وقاریونس، وسیم اکرم اور عمران خان کی موجودگی میں میری زندگی بہت مشکل تھی، میں جانتا تھا کہ میں ہی واحد آدمی ہوں جس کو تبدیل کیا جاسکتا ہے'۔

عاقب جاوید کا کہنا تھا کہ 'اسی لیے میں نے اپنے آپ سے کہا کہ ٹیم میں جگہ پانے کے لیے چلتے رہیے اور بہتر کریں اور انھیں دکھائیں کہ مجھے یہ جگہ چاہیے اور مجھے ذمہ داری دو اگر نہیں تو تمھیں مجھ سے جو توقعات ہیں وہ بتائیں میں پوری کردوں گا'۔

اپنے کیریئر کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ 'جب ویسٹ انڈیز ٹیم پاکستان آتی تھی تو ہم میلکم مارشل اور دوسرے لوگوں کو دیکھا کرتے تھے اور ان کے ایکشن کی نقل کرنے کی کوشش کرتے تھے اور اسی طرح ہم نے فاسٹ باؤلربننے کا شوق پورا کیا'۔

باؤلنگ ایک آسان فن ہے، جیسا کہ آپ نہیں جانتے کہ لوگ سرکس کے طریقے کیسے سیکھ لیتے ہیں۔ جادوئی نو گیندیں، سات گیندیں، کیا کبھی آپ نے نوٹس کیا کہ وہ اس کو ٹھکانے لگانے میں کتنا وقت لیتے ہیں، آپ کے پاس معمولی ہدف ہوتاہے، اس میں آپ کو چلنا ہے اور اس گیند کو مخصوص جگہ میں پھینکنا ہے یہ کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے'۔

'فاسٹ باؤلنگ کے لیے آپ کو ایک ماحول کی ضرورت ہوتی ہے جو آپ کو بہترین بنانے میں مددگار ہوتا ہے، آپ کو کھلی جگہ اور پارک کی ضرورت ہوتی ہے جہاں آپ دوڑ سکیں اور مختلف چیزیں کرسکیں'۔

مجھے ابھی بھی یاد ہے کہ میں اپنے گاؤں میں اچھا خاصا وقت گذارتا تھا جہاں ہم چیزوں کو کاٹتے تھے، درختوں کو کاٹتے، نہروں میں چھلانگ لگاتے تھے، یہ سب پاگل پن صرف مذاق کے لیے کرتے تھے'۔

میرے خیال میں گنجان آباد شہروں میں فاسٹ باؤلرز پیدا کرنا واقعی مشکل ہے، جہاں آپ اپارٹمنٹ میں رہتے ہیں، بس کے ذریعے اسکول جاتے ہیں اور اکیڈمی میں دو گھنٹوں کے لیے جاتے ہیں، نہیں، یہ فاسٹ باؤلنگ کا ماحول نہیں ہے، اسی لیے ہرکسی کو شہروں کے بجائے گاؤں کی طرف جانا ضروری ہے اور وہاں فاسٹ باؤلر ڈھونڈنے اور انھیں تیار کرنے کے لیے وسیع ماحول ہے'۔

"جب میں چھوٹا تھا تو میں کچھ نہیں جانتا تھا اور میرا ایک اوور 16 گیندوں کا ہوتا تھا جس میں وائیڈ گیندیں ہوتی تھی ایک وقت پر تو میرے اسکول کے کپتان نے کہا کہ برائے مہربانی صرف آف اسپین کرو یا کسی طرح اوور سمیٹ لو اور میں نے کہا کہ میں صرف فاسٹ باؤلنگ کروں گا"۔

اسکول کی ٹیم کنکریٹ کی پچ پر پریکٹس کرتی تھی جہاں ایک دیوار تھی جس کےاوپر چاک سے میں نے لکھ دیا تھا کہ 'جب تک میں سیدھی بال کرنا نہیں سیکھتا جب تک میں یہاں کبھی نہیں آؤں گا'۔

ان کا کہنا ہے کہ میں اپنے عزائم کو پورا کرنے کے لیے روزانہ صبح سویرے 5 بجے اٹھتا تھا اور کرکٹ کی 20 گیندیں اپنے ساتھ رکھتا اور اسکول جاتا اورفرش پر لکیروں کے ذریعے پاؤں کے برابر ایک دائرہ بناتا، اور میں نے فیصلہ کیا تھا کہ روزانہ ایک سو گیندیں کروں گا اور ایک صفحے پر پنسل سے لکھتا جاتا کہ کتنی گیندیں دائرے پر پڑی ہیں،جس کے لیے مجھے صرف 15 دن لگے، دو ہفتوں میں 1500 گیندوں سے میری درستی غیرمعمولی طورپر بڑھ گئی تھی۔

1989 میں آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے دورے پرعمران مجھے کہا کرتے تھے کہ تم بڑے باصلاحیت ہو، اپنی طرف دیکھو تم کسی بھی ٹیم کو تباہ کرسکتے ہو، وہ ہمیشہ لوگوں کی حوصلہ افزائی کرتے اور گم نام سے ہیرو بنا دیتے تھے۔

عاقب جاوید نے کہا کہ 'لاابالی سے پروفیشنل کرکٹ کے درمیان بہت بڑا فاصلہ ہے، یہ آپ کی ذہنیت سے شروع ہوتا ہے، آپ کے کام کی اخلاقیات، جو وقت آپ نے گذارا، آپ سوئے، آپ نے ڈائٹ کی، پریکٹس کے اوقات اس طرح کی کئی چیزیں ہیں'۔

چندچیزیں جو آپ کی زندگی کو تقریباً مکمل طورپر تبدیل کردیتی ہیں جیسا کہ'عمران الیون اور گواسکر الیون سے قبل عمران نے مجھ سے پوچھا کیا تم نئی گیند سے باولنگ کروگے اور میں نے ہاں میں جواب دیا۔

'انھوں نے میرے لیے ایک سلپ، ایک گلی اور اسکوائر لیگ کے ساتھ معمول کی فیلڈنگ ترتیب دی اور پوچھا تم اس فیلڈ سے مطمئن ہو تو میں نے نہیں میں جواب دیا اور کہا کہ اسکوائر لیگ کے فیلڈر کو سیکنڈ سلپ پر کھڑا کریں کیونکہ میں گیند کو باہر نکالوں گا اور فائن لیگ کو تھوڑا وسیع کریں یہ دو جملے عمران کو ایک 17 سالہ لڑکے کے بارے میں جاننے کے لیے کافی تھے کہ اس کی سمجھ کتنی ہے'۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر فائنل میں پاکستان اور متحدہ عرب امارات کا مقابلہ ہوتا تو اس میں کوئی شک نہیں کہ میں متحدہ عرب امارات کی حمایت کرتا جو میری بنائی ہوئی ٹیم ہے اور مجھے اپنی تخلیق پر فخر ہے'۔


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

تبصرے (1) بند ہیں

Kashif Apr 29, 2016 07:25pm
Once upon a time Great guys Great team Great Captain