عمران فاروق قتل کےملزم خالدشمیم کی ویڈیو کیسے بنی؟

اپ ڈیٹ 29 اپريل 2016
عمران فاروق قتل کیس کا اہم ملزم خالد شمیم—۔فائل فوٹو/ڈان
عمران فاروق قتل کیس کا اہم ملزم خالد شمیم—۔فائل فوٹو/ڈان

راولپنڈی/کراچی: متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے سینئر رہنما ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس کے اہم ملزم خالد شمیم کے ایک حالیہ ویڈیو بیان نے سرکاری اور سیاسی حلقوں میں بے چینی پیدا کردی ہے۔

راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں قید شمیم نے مذکورہ ویڈیو میں الزام لگایا کہ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل میں ملوث تھے۔

ویڈیو میں خالد شمیم کو کہتے ہوئے سنا جاسکتا ہے، 'جب عمران فاروق کی میت پاکستان لائی گئی تو انھوں نے (الطاف حسین نے) مصطفیٰ کمال کو فون کیا اور کہا کہ کام ہوگیا ہے'۔

مزید پڑھیں:عمران فاروق قتل کا کوڈ 'ماموں کی صبح ہوگئی' تھا

ویڈیو میں خالد شمیم کی صحت کافی بہتر نظر آرہی ہے لیکن ان کے الفاظ کچھ غیر واضح ہیں، خالد کا کہنا تھا کہ الطاف حسین نے مصطفیٰ کمال کو بھی دھمکی دی کیونکہ وہ ان کی جانب سے خطرہ محسوس کرتے تھے۔

مذکورہ ویڈیو، جو جیو نیوز چینل پر شاہ زیب خانزادہ کے پروگرام کے دوران نشر کی گئی، مبینہ طور پر ایم کیو ایم سے منسلک، کسی زیرِ حراست شخص کی پہلی ویڈیو نہیں ہے، جو میڈیا پر منظرعام پر آئی۔

مزید پڑھیں:الطاف حسین نے شاہد حامد کو قتل کرنے کی ہدایت دی، صولت مرزا

اس سے قبل سزائے موت کے قیدی صولت مرزا کی اعترافی ویڈیو بھی ان کی پھانسی سے محض چند گھنٹے قبل میڈیا پر منظر عام پر آئی تھی۔

صولت مرزا، جنھیں کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن (کے ای اسی سی)، موجودہ کے-الیکٹرک کے سابق ایم ڈی شاہد حامد کے قتل پر پھانسی کی سزا دی گئی تھی، نے ویڈیو مں الزام لگایا تھا کہ الطاف حسین نے سابق وزیر برائے پورٹس اینڈ شپنگ بابر خان غوری کے ذریعے قتل کے احکامات دیئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں:شاہد حامد کے قاتل صولت مرزا کو پھانسی

خالد شمیم کی ویڈیو منظر عام پر آنے کے بعد گذشتہ روز وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے لیک ہونے والی ویڈیو کی انکوائری کے احکامات جاری کیے جس کے بعد جیل سپرنٹنڈنٹ کا بیان بھی ریکارڈ کیا گیا۔

وزارت داخلہ کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا کہ وزیر داخلہ نے حکام کو ہدایت کی ہے کہ وہ اس بات کی تحقیقات کریں کہ آیا ویڈیو بنانے میں جیل انتظامیہ کا کوئی کردار ہے اور کیا یہ ویڈیو واقعی اصلی ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت کے ایک سینیئر عہدیدار نے جیل سپرنٹنڈنٹ اور دیگر جیل حکام کے بیانات ریکارڈ کیے۔

مزید پڑھیں :عمران فاروق قتل کا مقدمہ پاکستان میں درج

ڈپٹی انسپکٹر جنرل (جیل خانہ جات) شاہد سلیم بیگ نے ڈان کو بتایا کہ انکوائری کا آغاز کردیا گیا ہے اور جیل سپرنٹنڈنٹ سعید اللہ گوندل بھی اپنا بیان ریکارڈ کروا چکے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ جب قیدی کی اپنے اہلخانہ سے ملاقات کروائی جاتی ہے تو کسی کو بھی بیرک کے اندر ویڈہو ریکارڈ کرنے کی اجازت نہیں ہوتی چاہے کیسے بھی حالات کیوں نہ ہوں۔

انھوں نے بتایا کہ خالد شمیم کو اڈیالہ جیل کی ہائی سیکیورٹی بیرک میں رکھا گیا گیاہے، جہاں اس کی جلدی بیماری کا علاج کروایا جارہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:عمران فاروق قتل:دو مطلوب ملزم افغان سرحد سے گرفتار

ڈی آئی جی کا کہنا تھا کہ خالد کو جیل کے شیڈول کے مظابق اس کی فیملی سے باقاعدگی سے ملاقات کی اجازت دی جاتی تھی۔

وزارت داخلہ نے اس معاملے کی رپورٹ آئندہ چند دنوں میں طلب کرلی ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ جیل سپرنٹنڈنٹ نے اپنے بیان میں دعویٰ کیا کہ ویڈیو جیل میں ریکارڈ نہیں کی گئی کیونکہ ویڈیو کے پس منظر سے ایسا معلوم نہیں ہوتا کہ ریکارڈنگ کے دوران خالد جیل کے اندر ہی موجود تھا۔

مزید پڑھیں:عمران فاروق قتل کیس: دو ملزمان کا اعتراف جرم

اس سے قبل رواں برس جنوری میں وزرادت داخلہ نے ٹرائل کے دوران میڈیا سے بات کرنے پر خالد شمیم کی سیکیورٹی کے انچارج پولیس افسر کو معطل کردیا تھا۔

یہ انصاف کا مذاق ہے، ایم کیو ایم

ویڈیو میں لگائے گئے الزامات پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے ایم کیو ایم رہنما ڈاکٹر فاروق ستار نے چیف جسٹس آف پاکستان سے ویڈیو بیان کی ریکارڈنگ اور اس کے نشر کیے جانے کا نوٹس لینے کا مطالبہ کیا، جن کا کہنا تھا کہ اس ویڈیو بیان کے ذریعے ملک کے عدالتی نظام اور قانون کا مذاق اڑایا گیا ہے۔

عزیز آباد میں اپنے پارٹی ہیڈکوارٹر میں پریس کانفرنس کے دوران فاروق ستار کا کہنا تھا کہ خالد شمیم کا ویڈیو بیان ایم کیو ایم کے میڈیا ٹرائل کا ہی ایک حصہ ہے۔

یہ بھی پڑھیں:عمران فاروق قتل کیس: ایم کیو ایم نے بی بی سی کی رپورٹ مسترد کردی

انھوں نے کہا، 'ایک زیر حراست شخص کی ویڈیو کس نے ریکارڈ کی، خالد شمیم کو ویڈیو کا اسکرپٹ کس نے فراہم کیا اور کس نے اسے ٹی وی چینلز پر نشر کیا؟ قوم ان تمام سوالات کے جواب چاہتی ہے۔'

فاروق ستار کا کہنا تھا کہ جن چینلز نے یہ بیان نشر کیا، ان سے ہوچھا جانا چاہیے کہ اس بیان کی قانونی اور عدالتی حیثیت کیا تھی اور کیا ایک ذمہ دار اور خودمختار میڈیا کے لیے یہ ویڈیو نشر کرنا مناسب ہے۔

یہ خبر 29 اپریل 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

تبصرے (0) بند ہیں