اگر آپ نے کسی کتاب کو مشہور کرنا ہے تو اسے متنازع بنا دیں۔ اگر آپ کسی فلم کا کھڑکی توڑ ہفتہ منعقد کروانا چاہتے ہیں، تو اس پر ملک کے کسی ایک حصے میں پابندی لگا دیں۔ کوئی چیز بلیک کروانی ہے؟ اس کا کوٹا مقرر کروا دیں۔ یہ راز دنیا کے قدیمی کاروباریوں نے بہت پہلے دریافت کر لیا تھا کہ جس کی جتنی بدنامی ہوگی اتنا ہی نام ہوگا۔

سندھ حکومت نے ڈرتے ڈرتے مالک فلم پر پابندی لگائی اور پھر ہٹا بھی دی۔ پھر بڑی سرکار نے بڑا فیصلہ کر دیا اور فلم پورے ملک کے سنیماؤں سے ہٹ گئی۔ لیکن کتنی دیر تک؟

فلم پر کافی اعتراضات ہیں۔ مثلاً ایک سین ہے جس میں فلم کے ہیرو کے ذہن میں ان کے والد صاحب شک کا بیج ڈالتے ہیں کہ جس شخص کی حفاظت اس کی ذمہ داری ہے، کیا وہ شخص حفاظت کے لائق بھی ہے؟ آگے جا کر ہیرو صاحب اس وڈیرے کو (جس کی اگر جواں سالی سے صرفِ نظر کر لیا جائے تو باقی تمام اشارے ہمارے ایک وزیرِ اعلیٰ کی طرف دیے گئے ہیں) نہ صرف خود گولی مار دیتے ہیں، بلکہ اس کے قتل کی نیت سے آئے حملہ آور سے ہمدردی بھی کرتے ہیں۔

کچھ کا اعتراض ہے کہ اس میں چھوٹے صوبوں سے تعلق رکھنے والے کرداروں کو ایک مخصوس سٹیریوٹائپ کا دکھایا گیا ہے۔ کچھ لوگوں کے نزدیک اس میں طالبان کی غلط تصویر کشی کی گئی ہے۔ کچھ لوگوں کو عاشر عظیم کی بیگم کی اداکاری پر تشویش ہے، تو کچھ کے نزیک یہ فلم دھواں ڈرامے کا فلمی چربہ ہے۔

مشہور اداکار ہیتھ لیجر کی بیٹ مین سیریز پر بننے والی فلم دی ڈارک نائٹ جس دن ریلیز ہوئی، اس دن امریکی ریاست کولوراڈو کے ایک سنیما میں حملے کے نتیجے میں 12 افراد جاں بحق اور 80 کے قریب زخمی ہوگئے۔ اس واقعے کے بعد ایک بحث چھڑ گئی کہ کیا فلم اور ٹی وی ہمارے رویوں پر اثر انداز ہوتے ہیں؟ ایک نظریہ یہ کہتا ہے کہ فلموں میں دکھائے جانے والے پر تشدد مناظر کے نتیجے میں معاشرے میں متشددانہ رجحانات بڑھ رہے ہیں، جبکہ دوسرے نظریے کا کہنا ہے کہ فلموں میں نظر آنے والا تشدد، معاشرے کی چلتی نبض کا زیر و بم ہے، اور کچھ نہیں۔

ایک بحث آزادیء اظہار اور اس آزادی کی حدود کے تعین کی بھی ہے۔ اکثر ترقی یافتہ ممالک آزادیء اظہار کے نظریے کے تحت بالغوں کی لیے بنائی گئی فلموں، مذہبی کارٹونز اور سیاسی نظریوں کے مذاق کی اجازت دیتے ہیں، لیکن انہی ممالک میں نفرت انگیز تقاریر، انتہا پسندی اور ہولوکاسٹ جیسے معاملات میں غلط اظہار پر سزائیں بھی موجود ہیں۔ اسلامی ممالک میں مذہبی اور قومی نظریات کی حرمت اور کئی ملکوں میں برسرِ اقتدار شخصیات کی اہانت بھی قابل دست اندازی جرم بن جاتی ہے۔

اظہار کی آزادی اور ذمہ داری میں حدِ فاصل کہاں کھینچی جائے؟ کن حالات میں فنکار معاشرے پر اثرانداز ہوتا ہے اور کہاں معاشرہ فنکار پر؟

انسانی معاشرے کے دیگر بہت سارے سوالوں کی طرح ان سوالوں کا بھی کوئی یقینی جواب نہیں ہے۔ ہر دور میں ہر معاشرہ وہ نقطہء توازن ڈھونڈھتا رہتا ہے جہاں ان ساے سوالوں کے جواب مل جائیں۔ مالک فلم پر ہونے والی بحث اس حوالے سے اہم ہے۔

کیا یہ فلم ایک عام آدمی کو قانون ہاتھ میں لینے کی ترغیب دیتی ہے؟ کیا چھوٹے صوبوں کے کرداروں میں گہرائی اور تنوع دریافت کرنا ہمارے کہانی نویسوں کی دسترس سے باہر ہے؟ اگر اس فلم کی منطق مان لی جائے تو ممتاز قادری کا عمل درست قرار دیا جا سکتا ہے؟ معاشرے میں انقلاب لانے والے اولوالعزم اور معاشرے میں بگاڑ پیدا کرنے والے فتنہ پرور میں فرق کیا صرف لفظی ہیر پھیر کا ہے؟

some_text

      جن لوگوں کو اس فلم میں اچھائی نظر آرہی ہے، وہ اس لیے ہے کہ اس فلم میں ان کے لیے گو نواز گو والے سارے آئٹم سونگ موجود ہیں۔ جو لوگ اس فلم کے خلاف ہیں، وہ اس لیے ہیں کیونکہ ان کی پارٹی کے بزرگوں کی پگڑیاں اچھل رہی ہیں۔          

کیا یہ فلم ہماری لنگڑی لولی جمہوریت اور عدالتی نظام پر ایک تازیانہ ہے؟ عدالت، گواہ، جرم، سزا کا تعین اگر موقع پر موجود بندوق والے نے ہی کرنا ہے، تو پھر نظام عدل کے اس ٹنٹنے کی کیا ضرورت؟ اگر عوام کرپٹ سیاستدانوں کو ہی چنتی رہتی ہے تو اس بے وقوف بندر کے ہاتھ میں ووٹ کا تیز دھار استرا دیا ہی کیوں جائے؟

مالک فلم پر پابندی اور اس کے چلنے کا فیصلہ ایک ایسی ہی بحث کے نتیجے میں ہونا چاہیے۔ مگر وہ لوگ جو فیصلہ کرتے ہیں، ان کے لیے کسی فلم کا چلنا یا نہ چلنا کسی فلسفیانہ بحث کا نتیجہ نہیں، بلکہ وہ مفاد پرستی ہے جو ہماری قومی زندگیوں میں ہر جگہ غالب ہے۔

جن لوگوں کو اس فلم میں اچھائی نظر آرہی ہے، وہ اس لیے ہے کہ اس فلم میں ان کے لیے گو نواز گو والے سارے آئٹم سونگ موجود ہیں۔ جو لوگ اس فلم کے خلاف ہیں، وہ اس لیے ہیں کیونکہ ان کی پارٹی کے بزرگوں کی پگڑیاں اچھل رہی ہیں۔

جن لوگوں نے اس پر پابندی لگائی، وہ مفاد عامہ کے کسی بھاری بوجھ تلے نہیں تھی، بلکہ یہ اقدام ذاتی تحفظ کے جذبے کے تحت اٹھایا گیا ہے۔ مالک فلم پر پابندی کے پیچھے معاشرے سے انتہا پسندی کے خاتمے کی کوئی سوچ ہوتی، تو مدرسوں اور یونیورسٹیوں میں مشتبہ مقاصد والے 'تربیتی سیمیناروں' کے ذریعے نوجوانوں کی برین واشنگ کرنے پر بھی پابندی عائد کی جاتی۔

پھانسیوں کی جو بے وقت فصل چڑھی ہے، اگر اس میں ممتاز قادری کا سر بھی شامل ہے تو اس کی وجہ کوئی تبدیلیءِ قلب نہیں ہے، بلکہ اپنے ارد گرد بندوقیں لے کر گھومنے والے وہ بہت سارے باڈی گارڈ ہیں، جن کی بندوقوں کا رخ صاحب کی گاڑی سے باہر کی طرف رہنا قانون کے سرعت انگیز اور بے رحم ہاتھ کے ساتھ مشروط ہے۔

وفاقی حکومت نے مالک فلم پر پابندی لگا تو دی ہے مگر کتنے دن تک؟ اٹھارہویں ترمیم کے زیر اثر خیبر پختونخواہ کی حکومت کا اصرار ہے کہ فلم چلے گی اور ضرور چلے گی۔ بات عدالت تک گئی تو کیا، عدالت اس فلم کو چیف جسٹس کے ممتاز قادری کیس میں دیے گئے ریمارکس کی تحقیر سمجھ کر فیصلہ کرے گی یا ان زمینی حقائق کی روشنی میں جن کی کششِ ثقل کے گرد بڑے بڑے سیارے گھومتے ہیں؟

فلم مالک کے مواد اور اس پر لگنی والی پابندی کا مسئلہ اتنا سادہ نہیں ہے جتنا کہ بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ آنے والے دنوں میں جیت کس کی ہوتی ہے۔ فلم مالک کی، یا اس پر پابندی لگانے والے 'مالکان' کی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (2) بند ہیں

حسن امتیاز Apr 30, 2016 05:53pm
مالک فلم پر پابندی کے پیچھے معاشرے سے انتہا پسندی کے خاتمے کی کوئی سوچ ہوتی، تو مدرسوں اور یونیورسٹیوں میں۔۔۔۔۔۔۔۔ مشتبہ مقاصد والے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 'تربیتی سیمیناروں'۔۔۔۔۔۔ کے ذریعے نوجوانوں کی۔۔۔۔برین واشنگ۔۔۔۔۔۔کرنے پر بھی پابندی عائد کی جاتی۔ ؟؟؟؟؟؟
ZASyed May 01, 2016 10:30am
تعین اگر موقع پر موجود بندوق والے نے ہی کرنا ہے، تو پھر نظام عدل کے اس ٹنٹنے کی کیا ضرورت؟ اگر عوام کرپٹ سیاستدانوں کو ہی چنتی رہتی ہے تو اس بے وقوف بندر کے ہاتھ میں ووٹ کا تیز دھار استرا دیا ہی کیوں جائے؟