ایبٹ آباد آپریشن کے اہم کردار کہاں ہیں؟

02 مئ 2016
2 مئی کو ایبٹ آباد میں لی گئی اس تصویر میں وہ گھر نظر آرہا ہے جہاں اسامہ بن لادن اپنی 3 بیویوں کے ہمراہ مقیم تھا– فوٹو: اے ایف پی
2 مئی کو ایبٹ آباد میں لی گئی اس تصویر میں وہ گھر نظر آرہا ہے جہاں اسامہ بن لادن اپنی 3 بیویوں کے ہمراہ مقیم تھا– فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد: پانچ سال قبل امریکی فوجی اہلکاروں نے، ستمبر 2001 میں جہازوں کو اغوا کروا کر نیویارک اور واشنگٹن کی عمارتوں کو نشانہ بنانے والے القاعدہ کے سابق سربراہ اسامہ بن لادن کو آپریشن میں ہلاک کردیا تھا۔

خبر رساں ایجنسی ’اے ایف پی‘ کے مطابق اس پورے آپریشن کے اہم کرداروں سے متعلق مختصر معلومات یہ ہیں؛

براک اوباما

2012 کے امریکی انتخابات کے نتیجے میں دوبارہ صدر منتخب ہونے والے براک اوباما کی انتخابی مہم کا غیر سرکاری نعرہ 'اسامہ بن لادن مرگیا اور جنرل موٹرز زندہ ہے' ہر زبان پر تھا۔

براک اوباما جب صدر بنے تو انہیں عالمی مالیاتی بحران کا سامنا ہوا، انہوں نے امریکا کو سنبھالا اور کھڑا کیا، عراق میں ہونے والی 'احمقوں کی جنگ' سے اپنے اہلکاروں کو نکالا اور اسامہ بن لادن کے خلاف آپریشن کرکے القاعدہ کے خلاف جنگ میں فتح حاصل کی۔

اس فتح کے 5 سال بعد آج براک اوباما کی صدارت کا دوسرا اور آخری دور ختم ہونے کے قریب ہے، جبکہ القاعدہ کی جانب سے آنے والی دھمکی کو داعش لے کر ابھری ہے اور عراق، شام، یمن اور لیبیا میں جنگ کا آغاز کر چکی ہے۔

امریکی نیوی 'سیلز'

نومبر 2014 میں امریکی نیوی سیلز کے سابق اہلکار روبرٹ اونیل نے اس آپریشن کے متعلق عوامی سطح پر انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے ہی اسامہ بن لادن کو 3 گولیاں مار کر ہلاک کیا تھا۔

اس انکشاف کے بعد امریکی سیلز کی جانب سے اچھا ردعمل سامنے نہیں آیا، کیونکہ وہ اپنے آپ کو 'خاموش پیشہ ور' کہتے ہیں اور پُرخطر مہم کو خفیہ طور پر مکمل کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔

او نیل کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنی کہانی اس لیے بیان کی ہے کہ وہ 11 ستمبر کے حملے میں متاثر ہونے والے خاندانوں کی مدد کے لیے انہیں صورتحال سے آگاہ کرنا چاہتے تھے۔

مزید پڑھیں: امریکہ اسامہ تک کیسے پہنچا: ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ

اس انکشاف کے بعد اونیل نے مقرر اور سیکیورٹی ماہر کا نیا پیشہ اختیار کرلیا، اور اب وہ 'فوکس نیوز' میں فوجی تجزیہ کار کی حیثیت سے سامنے آتے ہیں۔

ایمن الظواہری

اسامہ بن لادن کے نائب ایمن الظواہری نے اس کی ہلاکت کے بعد القاعدہ کا چارج سنبھالا۔

لیکن مصر سے تعلق رکھنے والے اور پیشے سے ڈاکٹر کی قیادت میں القاعدہ کمزور ہوتی چلی گئی، کیونکہ اس کی حریف داعش نے شام اور عراق کے بہت بڑے علاقے پر قبضہ کرلیا اور مغربی ممالک میں بھی کئی بڑے حملے کیے۔

تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ ایمن الظواہری پاکستان اور افغانستان کی سرحد کے درمیان کہیں موجود ہے، لیکن اپنے نیٹ ورک پر اس کا کتنا کنٹرول ہے، یہ اب بھی واضح نہیں۔

مزید پڑھیں: 'اسامہ بن لادن پاکستان کے مہمان نہیں تھے'

پاکستانی مصنف اور تجزیہ کار احمد رشید کا ماننا ہے کہ اپنے آپ کو دوبارہ سامنے لانے اور افغان اور پاکستانی طالبان سے تعلقات کی کوششوں کے باوجود القاعدہ کا جنوبی ایشیا میں زور ختم ہوتا جا رہا ہے۔

اگر موازنہ کیا جائے تو داعش کے مظالم اور اپنے زیر قبضہ علاقوں میں وحشیانہ جبر کے سامنے القاعدہ اعتدال پسند نظر آتی ہے۔

بن لادن کی بیویاں

اسامہ بن لادن نے 5 شادیاں کی تھیں، مگر جب وہ 2002 میں پاکستان میں داخل ہوا تو اس کے ساتھ اس کی صرف 3 بیویاں تھیں، جس میں اس کی سب سے چھوٹی اور عزیز بیوی 'امال' بھی شامل تھی۔

پاکستانی جوڈیشل کمیشن کی ایبٹ آباد آپریشن کے حوالے سے سامنے آنے والی رپورٹ کے مطابق یمن سے تعلق رکھنے والی یہ بیوی امریکی آپریشن کے وقت اسامہ کے ساتھ کمپاؤنڈ میں ہی موجود تھی۔

یہ بھی پڑھیں: اسامہ بن لادن کے قاتل نے خود کو ظاہر کردیا

جب اسامہ کے خاندان کو اس بات کا احساس ہوا کہ یہ ان کے خلاف آپریشن ہے تو اس نے حتمی آپشن کی مکمل تیاری کرلی، جب امال نے ایک اہلکار کو اسامہ بن لادن کی جانب بندوق تانے دیکھا تو وہ اس کی جانب بھاگی، جس کے جواب میں اہلکار نے 'نہیں! نہیں!' کہا اور اس کے گھٹنے میں گولی مار دی۔

ان تینوں بیواؤں کو گزشتہ سال سعودی عرب بے دخل کرنے سے قبل پاکستانی حکام کے حوالے کردیا گیا تھا، جس کے بعد ان کے حوالے سے کوئی خبر سامنے نہیں آئی۔

صہیب اطہر

پاکستان کے آئی ٹی پروفیشنل شعیب اطہر راتوں رات ایک مشہور شخصیت بن گئے تھے جب انہوں نے نادانستہ طور پر آپریشن کے اوقات کے دوران ٹوئٹ کیا تھا جس میں بن لادن کی ہلاکت ہوئی تھی۔

34 سالہ اطہر 2 مئی کی صبح کمپیوٹر پر بیٹھے کام کر رہے تھے جب انہیں 'روٹر بلیڈز' کی گھن گھرج سنائی دی۔

انہوں نے اپنی اس ٹوئٹ میں، جس سے پوری دنیا کو اس کہانی کے بارے میں معلوم ہوا، کہا کہ ’ایبٹ آباد میں رات 1 بجے ہیلی کاپٹرز کا آنا ایک نایاب منظر ہے'۔

بعد ازاں سوشل میڈیا پر صہیب اطہر کے 'فالوورز' کی تعداد یک دم 1 لاکھ سے تجاوز کرگئی، انہیں انٹرویو کی بے تحاشہ درخواستیں موصول ہوئیں، جن میں سے صحافی اور پاکستانی انٹیلی جنس سروسز دونوں شامل تھے، جنہوں نے ان سے یہ تک پوچھا کہ 'ٹوئٹر کیا ہے؟'

گزشتہ ماہ وہ اپنے خاندان کے ساتھ اسلام آباد منتقل ہوئے۔

ان کا کہنا تھا کہ زندگی آگے بڑھ گئی ہے، مجھے اسے اپنی شخصیت یا زندگی کا حصہ نہیں بنانا۔

مگر ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے امریکی 'بلیک ہاک' ہیلی کاپٹر، جو امریکی اہلکاروں کی جانب سے تباہ کردیا گیا تھا، کے کچھ حصے یادگار کے طور پر اپنے پاس محفوظ کرلیے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہا کہ میرے پاس کیبل اور مزید اشیا موجود ہیں جو میرے اسٹور میں کسی ڈبے کے اندر موجود ہیں'۔


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں