واشنگٹن: امریکی صدر براک اوباما کا کہنا ہے کہ وہ اسامہ تک پہنچنے کے لیے نیوی سیلز کو ایبٹ آباد آپریشن سے کئی سال قبل پاکستان بھیجنا چاہتے تھے، لیکن جب تک ان کی ٹیم کے تمام اراکین کے درمیان پر اس پر اتفاق نہیں ہوا، انہوں نے انتظار کیا۔

براک اوباما نے یہ انکشاف ایبٹ آباد آپریشن کے 5 سال مکمل ہونے پر ’سی این این‘ کو ایک تفصیلی انٹرویو کے دوران کیا۔

امریکی صدر کے قریبی ساتھیوں نے بھی سی این این کے پیٹر برجن سے بات کرتے ہوئے ایبٹ آباد آپریشن کا ذکر کیا، جس میں امریکی نیوی سیلز نے اسامہ بن لادن کے کمپاؤنڈ میں داخل ہو کر اسے ہلاک کیا۔

انٹرویو کے دوران امریکی صدر نے کہا کہ وہ کئی سال قبل اسامہ کے خلاف آپریشن کرنا چاہتے تھے، لیکن اس وقت اراکین میں اتفاق نہیں تھا اور جب اس پر سب کا اتفاق ہوا، تو اس آپریشن کی منظوری دی گئی۔

براک اوباما کا کہنا تھا کہ انہیں ان کے تجربے نے سکھایا ہے کہ ’اچھے عمل کا اچھا نتیجہ ہوتا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ جب میں نے آپریشن کا فیصلہ کیا تو ہمیں اس وقت اسامہ کے حوالے سے تمام معلومات تھیں لیکن ہم آپریشن کے خطرات سے بھی آگاہ تھے۔

انہوں نے وائٹ ہاؤس کے نگرانی روم سے آنکھوں دیکھے آپریشن کا احوال بتاتے ہوئے کہا کہ ہم نگرانی کمرے میں اس وقت پہنچے جب ہیلی کاپٹرز اسامہ کے کمپاؤنڈ کی چھت پر اتر رہے تھے، لینڈنگ کے دوران ایک ہیلی کاپٹر کو نقصان پہنچا جس پر مجھے اور میری ٹیم کے اراکین کو پریشانی ہوئی اور ہم نے سوچا کہ یہ آپریشن کا اچھا آغاز نہیں ہے۔

براک اوباما نے کہا کہ لیکن اچھی بات یہ تھی کہ ہیلی کاپٹر تباہ نہیں ہوا اور ہمارے تمام اہلکار محفوظ رہے، جس کے بعد نیوی سیلز کے 23 اہلکاروں میں سے ایک نے اس ہیلی کاپٹر میں دھماکا خیز مواد رکھ کر اسے تباہ کردیا اور پھر اہلکار کمپاؤنڈ میں داخل ہوئے۔

ان کا کہنا تھا کہ آپریشن کی منصوبہ بندی اور تیاری بہت بہتر کی گئی تھی، جس کے باعث اس میں کامیابی ملی۔

پیٹر برجن نے جب امریکی صدر کو یاد دلاتے ہوئے کہا جہ اسامہ نے مرنے سے قبل جس آخری شخص کو دیکھا وہ امریکی تھا، جس پر براک اوباما کا کہنا تھا کہ امید ہے کہ اس وقت اسامہ کو سمجھ آئی ہوگی کہ امریکی ان 3 ہزار افراد کو نہیں بھولے، جنہیں اس نے ہلاک کیا تھا۔

یہ خبر 3 مئی 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

تبصرے (0) بند ہیں