لاہور میں مزید 1700 درخت کاٹنے کی تیاری

اپ ڈیٹ 03 مئ 2016
163ارب روپے کے منصوبوں کیلئے 3900 درختوں کو کاٹ دیا جائے گا — فوٹو: وائٹ اسٹار
163ارب روپے کے منصوبوں کیلئے 3900 درختوں کو کاٹ دیا جائے گا — فوٹو: وائٹ اسٹار

لاہور: پنجاب حکومت گزشتہ دو برس کے دوران مختلف ترقیاتی کاموں کی وجہ سے لگ بھگ 2200 درخت کاٹ چکی ہے جبکہ رواں سال شروع ہونے والے ایک اور میگا پروجیکٹ اورینج لائن ٹرین منصوبے کے لیے مزید 1700 درخت کاٹ دیئے جائیں گے۔

دستاویزات کے مطابق 3 پروجیکٹس، جن میں 2 ارب روپے کی مالیت کا سگنل فری کوریڈور منصوبہ ( گلبرگ لبرٹی چوک سے شادمان براستہ جیل روڈ)، 160 ارب روپے مالیت کا لاہور اورینج لائن میٹرو ٹرین منصوبہ اور ڈیڑھ ارب روپے مالیت کا کنال روڈ کو چوڑا کرنے کا پروجیکٹ شامل ہے، کی وجہ سے گزشتہ برس اگست کے مہینے کے بعد سے شہر پہلے ہی تقریباً 2200 درختوں سے محروم ہو چکا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: لاہور میٹرو ٹرین منصوبے کی منظوری

سگنل فری کوریڈور کے پروجیکٹ میں لبرٹی چوک سے شادمان فوراہ چوک تک 196 درختوں کو کاٹا گیا، اورینج لائن میٹرو ٹرین منصوبے میں ڈیرا گجران سے علی ٹاؤن کے درمیان 27.1 کلومیٹر کے درمیان آنے والے 620 درخت کاٹے گئے جبکہ کنال روڈ کو چوڑا کرنے کے منصوبے کے دوران 1300 درختوں کو ختم کیا گیا۔

یاد رہے کہ 2 برس قبل پنجاب یونیورسٹی سے لنک کنال روڈ تعمیر کرنے کے لیے بھی 120 درخت کاٹے گئے تھے، جن میں سے زیادہ تر آم کے درخت تھے۔

رواں ماہ گلبرگ سے موٹروے تک 'ایلیویٹڈ ایکسپریس وے پروجیکٹ' کا آغاز کیا جارہا ہے، اسی منصوبے کے لیے مزید 1700 درخت کاٹنے کی رپورٹ سامنے آئی ہے۔

خیال رہے کہ اس پروجیکٹ کا آغاز 'بابو صابو' سے ہوگا جبکہ یہ بولیوارڈ گلبرگ میں ظفر علی روڈ پر ختم ہوگا۔

یہ پروجیکٹ تین حصوں پر مشتمل ہے ، اس منصوبے میں سڑک کی طوالت 10.7 کلو میٹر جبکہ چوڑائی 31 میٹر ہوگی۔

مزید پڑھیں: کے پی میں درختوں کی کٹائی پر پابندی

رپورٹ کے مطابق لاہور شہر میں شروع ہونے والے منصوبے میں مختلف اقسام کے درخت، سڑک اور نالہ آ رہے ہیں جبکہ پروجیکٹ کو تکمیل تک پہنچانے کے لیے 1715 درختوں کی کٹائی کی جائے گی۔

اب تک ترقیاتی کاموں کی وجہ سے کاٹے گئے درختوں میں جامن، لیموں، شہتوت، شیشم، کیکر، ربڑ، امرود، نیم، پھولائی، کتھا، سدا بہار، یوکلپٹس اور سفید زیرے کے درخت شامل ہیں۔

سول سوسائٹی نے درختوں کی دیکھ بھال کے لیے آزادانہ اتھارٹی قائم کرنے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔

لاہور کنزرویشن سوسائٹی کے سیکریٹری اطلاعات ڈاکٹراعجاز احمد کا کہنا تھا کہ یہ مسئلہ بہت اہم ہے، اس لیے آزاد اتھارٹی کا مطالبہ کیا، جس کے پاس سارے درختوں کے ریکارڈ موجود ہوں گے۔

انہوں نے سارے کاٹے گئے اور لگائے گئے درختوں کی جانچ پڑتال اور ان کا آڈٹ کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔

پروفیسر ڈاکٹر غلام عباس انجم کا کہنا ہے کہ حکومت کو ان درختوں کی موثر نگرانی بھی کروانی چاہیے جن کو اکھاڑے گئے درختوں کے بدلے کاشت کرنے کی یقین دہانی کروائی گئی تھی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ درختوں کی اہمیت سے سب واقف ہیں اور یہ وقت کی بھی اہم ضرورت ہے کہ درخت گرانے والے شعبہ جات اور حکام کاٹے گئے درختوں سے 5-10 گنا زیادہ درخت کی کاشت بھی کریں۔

ڈائریکٹر ماحولیات نسیم الرحمٰن نے درختوں کی بے دریغ کٹائی پر ڈان سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ یہ شعبہ ایک بھی درخت کاٹنے کے خلاف ہے، مگر کچھ ناگزیر وجوہات ہمیں درختوں کو کاٹنے پر مجبور کردیتی ہیں۔

ان کا کہنا تھا ان ترقیاتی کاموں کی وجہ سے شہر کی آلودگی میں بھی اضافہ دیکھا گیا ہے، تاہم امید ہے کہ اورینج ٹرین منصوبہ مکمل ہونے کے بعد حالات اور فضا میں بہتری نظر آئے۔

یہ مضمون 3 مئی 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

Khan May 03, 2016 06:02pm
السلام علیکم لاہور کے شہریوں کو ان خوبصورت درختوں سے محروم کرنا ظلم ہے، جامن، لیموں، شہتوت، شیشم، کیکر، ربڑ، امرود، نیم، پھولائی، کتھا، سدا بہار، یوکلپٹس اور سفید زیرہ ان کے نام ہی کتنے پیارے ہیں، اگر نام نہاد ترقی کے لیے ہلکان نہ ہورہے ہوتے تو ان درختوں کو منتقل بھی کیا جاسکتا تھا اب تو خوبصورت پرندے بھی لاہور سے منہ موڑ لینگے خیرخواہ