موئن جو دڑو کی 5 ہزار سالہ قدیم تہذیب کی مالک وادیء سندھ اپنی منفرد تہذیب وتمدن اور ثقافت کی وجہ سے دنیا بھر میں اہمیت کی حامل ہے۔ چاہے اجرک ہو، سندھ ٹوپی ہو یا رلی، ہر ایک اپنے منفرد انداز اور رنگوں کے حسین امتزاج کے سبب دیکھنے والے کا دل موہ لیتی ہے، یہی وجہ ہے کہ یہ دستکاری دنیا بھر میں سندھ کی پہچان بن چکی ہے۔

یوں تو بھٹائی کی اس نگری میں کراچی سے لے کر کشمور تک دستی ہنر کے مراکز گھر گھر میں قائم ہیں، مگر قدیم سندھ کی پہچان فراسی کی تیاری کا مرکز تحصیل گولارچی ہے۔ ماضی میں گولارچی اور اس کے گرد و نواح میں 500 عورتیں فراسی کی کاریگر تھیں مگر جدت پسندی کے سبب فراسی کی جگہ ریڈی میڈ قالین سمیت دیگر فرشیوں نے لے لی ہے جس کے سبب ہاتھ سے تیار کردہ حسین اور خوبصورت فراسی اور اس کے کاریگر رو بہ زوال ہیں۔

دیدہ زیب رنگوں سے مزین فراسی — تصویر ناصر انجم
دیدہ زیب رنگوں سے مزین فراسی — تصویر ناصر انجم

گولارچی میں تیار ہونے والی ایک فراسی — تصویر ناصر انجم
گولارچی میں تیار ہونے والی ایک فراسی — تصویر ناصر انجم

فراسی قالین کی طرح کا ایک بچھونا ہے۔ اونٹ کے بالوں کو رنگ کر دیگر ریشمی اور سوتی دھاگوں سے مل کر فراسی تیار کی جاتی ہے اور ایک فراسی کو مکمل کرنے کے لیے چار خواتین مسلسل تین ماہ محنت کرتی ہیں۔

یہ فراسی شادی بیاہ سمیت دیگر تقریبات میں خاص شخصیات کے لیے استعمال کی جاتی ہے یا پھر کسی مہمان کو قیمتی تحفتے کے طور پر دی جاتی ہے۔ تقریبآ 200 سال سے مہری قبیلے کی خواتیں فراسی تیار کرتی آ رہی ہیں مگر اب جدت پسندی کے عفریت نے فراسی کے کاریگروں کو اپنے اندر نگل لیا ہے۔ اب صرف ضلع بدین کے بجاری شریف، چاکر خان مہری، نندانی سمیت 6 سے7 گاؤں میں فراسی تیار کی جاتی ہے۔

مہری قبیلے کی خواتین فراسی بافی کر رہی ہیں۔ — تصویر ناصر انجم
مہری قبیلے کی خواتین فراسی بافی کر رہی ہیں۔ — تصویر ناصر انجم

ایک زیرِ تکمیل فراسی — تصویر ناصر انجم
ایک زیرِ تکمیل فراسی — تصویر ناصر انجم

قدیم تہذیب کے اس خوبصورت حصے، فراسی کی بقاء فروغ کے لیے کام کرنے والے حسن مہری نے بتایا کہ فراسی کی تیاری ایک محنت طلب کام ہے تقریباً 3 ماہ میں ایک فراسی تیار کی جاتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ فراسی کی تیاری میں اونٹوں کے بال استعمال کیے جاتے ہیں اور ایک فراسی کی عمر ایک سو سے ڈیڑھ سو سال تک ہوتی ہے اور سو سالوں تک فراسی اپنا رنگ نہیں کھوتی۔

وہ کہتے ہیں کہ ان کے پاس سو سے دو سو سال پرانی فراسیاں بھی موجود ہیں۔ ایک فراسی کی قیمت 50 ہزار سے ایک لاکھ روپے تک ہوتی ہے مگر اب بازار میں سستے کمبل دستیاب ہونے کی وجہ سے فراسی کی کھپت میں نمایاں کمی آئی ہے اور اب صرف کچھ گھر ہی فراسی استعمال کرتے ہیں۔

ایک فراسی کو مکمل کرنے کے لیے چار خواتیں مسلسل تین ماہ تک  فراسی بافی کرتی ہیں — تصویر ناصر انجم
ایک فراسی کو مکمل کرنے کے لیے چار خواتیں مسلسل تین ماہ تک فراسی بافی کرتی ہیں — تصویر ناصر انجم

گولارچی میں تیار ہونے والی فراسی — ناصر انجم
گولارچی میں تیار ہونے والی فراسی — ناصر انجم

دنیا کی مہذب قومیں اپنی قومی تہذیب و تمدن اور ثقافت کی بقا کے لیے ہر ممکن کوشش کرتی ہیں اور اس مقصد کے لیے ایک جامع حکمت عملی طے کرتی ہیں۔ پاکستان اور سندھ بھی ایک قدیم ثقافت کا مرکز ہے۔ ثقافت کے فروغ اور بقا کے لیے وزارتِ ثقافت بھی موجود ہے مگر محکمہ ثقافت نے فراسی کے فروغ کے لیے ابھی تک کوئی خاطر خواہ کردار ادا نہیں کیا ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ محکمہ ثقافت سندھ میں فراسی کی بقا اور فروغ کے لیے اقدامات کرے اور ایکسپو سینٹرز میں ہونے والی نمائشوں میں فراسی کی مختلف اقسام کی بھی نمائش کی جائے تاکہ ملک سمیت دنیا بھر میں فراسی کی اہمیت واضح ہوسکے اور اس ہنر کو فروغ حاصل ہوسکے۔

تبصرے (6) بند ہیں

شاہد حنائی May 07, 2016 12:31am
ناصر انجم صاحب نے مختصر پیرائے میں محققانہ اور مدلل مضمون لکھا ہے۔ مضمون نگار اپنے موضوع کے پسِ منظر سے بھی آگاہ ہیں اور معاملے کی اہمیت و افادیت کا بھی شعور رکھتے ہیں۔ انھوں نے روایتی ، ثقافتی اقدار کو سامنے رکھ کر جدت پسندی کا سامنا کرنے کی کام یاب کوشش کی ہے۔ انگریز کی چال یہ تھی کہ کھدی کی صنعت ختم کراکے مزدوروں کو اپنی ملوں میں ملازم (دراصل غلام)رکھ لیا۔ پھر انھیں مزدوروں سے کام لیتے ہوئے اپنے ٹھپے لگا کر ملکوں ملکوں بیوپار کیا۔ اب یہ کا ملٹی نیلشلائزیشن کی صورت پوری دنیا کو اپنی گرفت میں لے چکا ہے۔ اندرونِ سندھ میں ایسے کئی فن اور فن کار دم توڑ رہے ہیں جن کے کبھی شاہانہ ٹھاٹھ ہوا کرتے تھے۔ ناصر انجم صاحب ! دل لگا کر اپنا مشن جاری رکھیں۔ کام یابی کچھ حاصل کرلینے کا نام نہیں ہے۔اصل کام یابی کوشش کرتے رہنا ہے۔ شاہد حنائی (حال مقیم کویت)
Mahar May 07, 2016 01:05am
قابل تعریف بلاگ ہے آپ محترم کا اس سلسلےکو تقویت دیجیے آپ ایک نوجوان صحافی و لکھاری کی حیثیت سے نئے لکھنے والوں کے لیے مشعل راہ ہیں۔ شکریہ راشد مھر کراچی
naseer ahmed May 07, 2016 12:17pm
ناصر انجم شیخ نے اپنے بلاگ کے زریعے ایک ایسی دم توڑتی ثقافتی ہنر کی بقا کے بارے میں آواز بلند کی جو نہ صرف مہیری قبیلے بلکہ زیریں سندھ کے لئے بھی باعث فخر ہے۔ناصر انجم نے ہمیشہ اپنے قلم کے زریعے اچھوتے ٹاپک پر طبع آزمائی کی ہے۔اور ڈان گروپ بھی اس ثقافت کو زندہ رکھنے میں جو کردار ادا کیا ہے یہ عمل قابل ستائش ہے
lala nadeem May 07, 2016 01:37pm
Realy an intresting blog.farasi is an unique matress .
ساجد اقبال May 07, 2016 05:20pm
دنیا کی مہذب قومیں اپنی قومی تہذیب و تمدن اور ثقافت کی بقا کے لیے ہر ممکن کوشش کرتی ہیں اور اس مقصد کے لیے ایک جامع حکمت عملی طے کرتی ہیں۔ پاکستان اور سندھ بھی ایک قدیم ثقافت کا مرکز ہے۔ ثقافت کے فروغ اور بقا کے لیے وزارتِ ثقافت بھی موجود ہے مگر محکمہ ثقافت نے فراسی کے فروغ کے لیے ابھی تک کوئی خاطر خواہ کردار ادا نہیں کیا ہے۔
Arsalan Arain May 12, 2016 10:06am
ناصر انجم نے ایک اچھا موضوع تحقیق کے لئے منتخب کیا۔ فراسی کی حقیقت سے میں بھی اشنا نہیں تھا۔ بہت اچھی تحقیق ہے۔