کبھی سنا تھا کہ منطق، دلیل، حقائق اور حقیقی تاریخ سے جڑا معاشرہ ہی ترقی کی منازل طے کرتا ہے اور ان امور سے عاری سماج تباہی کے سوا کچھ نہیں دیکھتا۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم ان حقائق سے عاری بے ہنگم معاشرے کا جزو بن چکے ہیں؟

ملک میں کتنے ہی عظیم شعراء، ادباء، نقاد، ڈرامہ نگار، فلم ساز، گلوکار، (پڑھے لکھے) صحافی، سائنسدان، اساتذہ، غرض یہ کہ ہر شعبہ ہائے زندگی سے متعلق کمال فن رکھنے والے پیدا ہوئے اور پھر اُنہیں چکی کے دونوں پاٹوں کے درمیان ایسا باریک پیسا گیا کہ زندگی کی نوید سنانے والے اپنے آپ میں مر گئے، لیکن معاشرہ بعد از مرگ اُنہیں اعزازات سے نوازنا نہ بھولا۔

پھر قومی اُفق پر ایک اور دور ایسا آیا کہ مقتدر حلقوں نے خود کو ہر شے کا حل سمجھ لیا۔ جو ادیب نہیں تھا، زبردستی ادیب بن گیا، ہر دوسرا شخص بے ربط شاعری کرنے لگا، بے روزگاری سے تنگ بیشتر نااہل و نالائق افراد استاد کے مسند پر جا بیٹھے، جس نے کبھی کتاب کو چھوا تک نہیں وہ صحافی و تجزیہ کار بن گیا، جو سیاستدان نہیں تھا، اُس کے ہاتھ ملک کی تقدیر آ گئی، مکینک پانی سے گاڑی چلانے لگے اور سائنسدان منہ تکتے رہ گئے۔ غرض یہ کہ ملک کا تقریباً ہر شعبہ انحطاط کا شکار ہوگیا۔

تمام شعبہ ہائے زندگی کی طرح پاکستان کی فلمی صنعت بھی کچھ ایسے ہی زوال کا شکار رہی۔ تاریخ بتاتی ہے کہ 1896 میں بمبئی کے واٹسن ہوٹل سے شروع ہونے والے سینما اور پھر طویل انتظار اور اکا دکا فلموں کے بعد 1924 میں لاہور میں نمائش کے لیے پیش کی جانی والی فلم ”The daughters of today“ یا ”دختر ِحاضر“ نے برصغیر کے ان حصوں میں بھی پذیرائی حاصل کی جو بعد ازاں پاکستان میں شامل ہوئے۔

مووی ریویو: 'مالک ہوں پاکستان کا'

پھر بھاٹی گیٹ لاہور میں باقاعدہ فلمی صنعت کی بنیاد پڑی۔ 1930 سے 1946 کا دور فلمی صنعت کے لیے قدرے کمال رہا اور پھر 1959 سے 1977 تک کا دور سنہری گردانا گیا۔

یہی نہیں، بلکہ فلمی صنعت نے لازوال اداکار، گلوکار، موسیقار، سازندے، فلم ڈائریکٹرز اور دیگر فنکار پیدا کیے جن کی فہرست اتنی طویل ہے کہ یہاں ذکر کیا تو یہ مضمون کم پڑ جائے گا۔ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ 80 کی دہائی کے بعد ملکی فلمی صنعت زوال کا شکار ہونے لگی اور ملک کے اِس قیمتی اثاثے کو بستر مرگ پر تڑپنے کے لیے چھوڑ دیا گیا۔

چند سال قبل 2010 کے آس پاس فلمی صنعت کو اُس وقت آکسیجن میسر آئی جب شعیب منصور کی شہرہ آفاق تخلیقی کاوشیں، 'خدا کے لیے' اور 'بول' منظر عام پر آئیں۔ پھر وار، نامعلوم افراد، 021، دی سسٹم، دختر، مور اور دیگر فلموں نے نہ صرف پاکستان بلکہ عالمی سطح پر بھی شہرت پائی۔ یوں لگا کہ فلمی صنعت ترقی کی پٹڑی پر چل پڑی ہے لیکن نہیں ابھی ایسا نہیں ہے۔

حال ہی میں عاشر عظیم کی تیار کردہ فلم 'مالک' کی نمائش ہوئی، اور پھر ایسا طوفان اُٹھا کہ پہلے سندھ کی صوبائی حکومت اور پھر وفاقی حکومت نے ملک بھر میں فلم کی نمائش پر پابندی عائد کر دی۔

اعتراضات یہ اُٹھائے گئے کہ ملکی جمہوری اداروں اور سیاستدانوں پر کاری ضرب لگائی گئی ہے، تشدد کو ہوا دی گئی ہے، سیاستدانوں خصوصاً 'سی ایم' کو نشانہ بنایا گیا پے، سی ایم کے گارڈ (جو سابق فوجی دکھایا گیا) کے ہاتھوں سی ایم کا قتل مثبت انداز میں پیش کیا گیا ہے، سکیورٹی کمپنی کو طاقتور اور فوجی مدد لیتے ہوئے دکھایا گیا ہے اور ریاستی مشینری کو کمزور ثابت کرنے کی کوشش کی گئی۔

مزید پڑھیے: مالک اور 'مالکان' کی محاذ آرائی کیوں؟

سوال یہ ہے کہ اگر فلم اتنی ہی بری تھی تو پہلے ملک کے پانچوں سنسر بورڈز نے فلم کی نمائش کی اجازت کیوں دی، اور وہ حصے حذف کیوں نہ کیے گئے جن پر اعتراضات تھے۔ یہ تو فلم سینسر بورڈ کو پہلے سوچنا چاہیے تھا کہ جب تک فلم کے مواد کے حوالے سے مکمل طور پر تصدیق نہ کر لی جاتی، تب تک اسے نمائش کا اجازت نامہ جاری نہ کیا جاتا۔ اور کیونکہ یہ فیصلہ کرنا کہ کوئی فلم عوام کے دیکھنے کے لیے ٹھیک ہے یا نہیں سینسر بورڈ کا کام ہے، اس لیے اس کا فیصلہ حتمی ہونا چاہیے تھا، لیکن ایسا نہیں ہوا۔

اور چلیں اگر فلم میں سیاستدانوں کو کرپٹ دکھا ہی دیا گیا ہے، تو سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ کیا ملک کے (چند سیاستدانوں کو چھوڑکر بقیہ تمام) سیاستدان دودھ کے دھلے ہیں، کیا سیاستدانوں کے ہاتھوں میں ملک کی باگ ڈور نہیں، کیا ملک میں نجی سکیورٹی کمپنیاں ہر جگہ اور ہر ایک کے ساتھ نتھی نہیں، کیا یہ تمام سیکیورٹی کمپنیاں سابق فوجیوں کی نہیں، جہاں پولیس کو ہونا چاہیے وہاں کیا نجی سیکیورٹی کمپنیاں نہیں، کیا پولیس میں وہ تمام خوبیاں موجود ہیں جو کسی مضبوط ریاستی ادارے میں ہونی چاہیئں؟

ذرا تھوڑی دیر کے لیے ایک لکھاری، فلم ہدایتکار، اداکار اور تخلیق کار ہونے کی حیثیت سے سوچیں، کیا فلم بیچنے کے لیے نہیں بنائی جاتی؟ کیا لکھاری اسکرپٹ لکھتے وقت حقائق سے صرفِ نظر اختیار کرے؟ کیا ملکی مسائل اور تاریک پہلوﺅں پر فلم سازی بند کردی جائے؟ کیا مغرب میں بننے والی فلموں میں کبھی خود کش حملہ آور، کالعدم تنظیموں، امریکی فوج کے مختلف ممالک میں حملوں، بے گناہوں کے قتل عام اور سربراہان کے قتل، نجی سکیورٹی کمپنیوں، سیاستدانوں کو بدعنوان کبھی نہیں دکھایا گیا؟

مالک میں اگر تشدد ہے (جسے ہر ممکن انداز میں حذف کرنا چاہیے) تو کیا ہولی وڈ، بولی وڈ اور دیگر دنیا کی فلموں میں سب امن دکھایا جاتا ہے؟ کیا بولی وڈ اور ہولی وڈ کی فلموں کی نمائش پاکستان میں نہیں ہوتی؟ وہاں حکومت اور سینسر بورڈ کہاں ہے؟

اداریہ ڈان: مالک پر پابندی

اگر آج کچھ ایسی فلمیں بننا شروع ہوئی ہیں کہ عوام سینما کا رخ کرنے لگے ہیں، تو کیا ضروری ہے کہ اعتراضات صرف اس لیے تھوپے جائیں کہ ان فلموں میں فوج کی معاونت شامل ہے؟

کاش فلم کو فوج کے خلاف نفرت کی عینک اتار کر تجریدی فنون کی عینک سے بھی دیکھا جاتا، یعنی فلم کا اسکرپٹ مزید مضبوط ہوسکتا تھا، عکس بندی بہتر ہو سکتی تھی، مکالمہ نویسی میں اگر چند خامیاں ہیں تو مزید بہتر بنایا جا سکتا تھا وغیرہ وغیرہ، لیکن یہاں تو ایک فلم نے ملک، ریاست، جمہوریت اور سیاستدانوں کے مستقبل کو خطرے سے دوچار کر دیا، اور ایسے شور مچ گیا کہ ملک میں بس آمریت نافذ ہونے والی ہے۔ کیا واقعی ایسا ہے؟

1994 میں عاشر عظیم کا ہی لکھا ڈرامہ سیریل 'دھواں' سرکاری ٹی وی سے نشر کیا گیا تو ملک بھر میں دھوم مچ گئی۔ اس ڈرامے میں بھی پانچ دوست نجی حیثیت میں دہشتگردوں اور منشیات اسمگلرز کا مقابلہ کرتے دکھائے گئے۔ اُس میں ان دوستوں کی دوست ایک خاتون (نازلی نصر بحیثیت سارہ حساس ادارے، وزارتی کمیٹی کی جانب سے) آفیسر بھی شامل تھی اور پولیس کا نوجوان اے ایس پی (عاشر عظیم بحیثیت اظہر) ان نجی افراد سے باقاعدہ مدد لیتا دکھایا گیا۔

یقینا اُس وقت نجی میڈیا خصوصاً ٹی وی چینل ہوتے تو سب سے پہلے یہ اعتراض اُٹھتا کہ کیا کیا فوج، آئی ایس آئی، پولیس اور اس کی اپنی انٹیلیجنس میں اتنی سکت نہیں کہ وہ دہشتگردوں کا مقابلہ کر سکے؟ کیا انسداد منشیات فورس کا محکمہ اس قابل نہیں کہ منشیات اسمگلرز اور دہشتگردوں کا پتہ چلا سکے؟ کیا ہر ایک کو نجی حیثیت میں ہتھیار اٹھانے کی اجازت حاصل ہے؟

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مالک پر تنقید کے ساتھ اصلاح کے پہلو بھی تلاش کیے جاتے۔ لیکن جس ملک میں جمہور تباہ ہو چکی ہو اور سیاستدان صرف جمہوریت کا راگ الاپ رہے ہوں، جہاں غیر ضروری امور پر قوم کا قیمتی وقت اور سرمایہ ضائع کر دیا جائے، جہاں کمزور کو جھوٹے مقدمات میں پھنسانے کا ٹھیکہ تو پولیس کے پاس ہو لیکن چھوٹو گینگ کے چند ڈاکوﺅں پر قابو پانے کا نہیں، جہاں قدرتی آفات، کراچی میں امن، جنوبی پنجاب آپریشن، اور پرامن و شفاف انتخابات کے لیے فوج ہی مداوا ہو، وہاں تعمیری تنقید کرنے کے لیے اپنے ہاتھ صاف ہونے چاہیئں۔

اور کیونکہ ایسا ہے نہیں، اس لیے اول و آخر تمام مسائل کے خلاف صرف ایک ہی تنقید موجود ہے کہ 'جمہوریت خطرے میں ہے' اور ہر تنقید 'جمہوریت کے خلاف ایک سازش ہے۔'

تبصرے (4) بند ہیں

Khurram khan May 04, 2016 07:18pm
Ashar Azeem Proof his Role.... aik film say itna kuch ho suckta hay!.... what a shameful Bannnnnned.... Band tou in ka Bujj gaya hay..... in UAE Asher you can play your movie..... it would be a hit the Market and these iDiots. con-grates man............ You are Pakistani Shehri Aur Pakistan kay Maaalik.....
AK May 04, 2016 10:18pm
Unbelievably bold ! Nice solutions along with critics.
Muhammad Ibrahim May 05, 2016 01:35pm
Sorry, I wrongly commented on "Nahi". Infact a good subject and the best defended.Government should abandon the legacy of Zia ul Haq. Who truly sabotaged our flourishing film industry. I support your voice and cinema revival and apprehended by the Govt policies regarding Malik and true free freedom of expression. "Muhammad Ibrahim" a Pakistani aur Pakistan ka Malik.
LIBRA May 05, 2016 02:38pm
well done very well writter and highlighted key points #ISTANDWITHMAALIK# I have watched already in Cinema and really really enjoyed alooot a great film by great Ashir Azeem