اسلام آباد: سینیٹ کی فنکشنل کمیٹی برائے انسانی حقوق کے اجلاس میں انکشاف ہوا ہے کہ صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں نصب 2200 سرکاری سی سی ٹی وی کیمروں میں سے نصف خراب ہیں ۔

سینیٹر محسن لغاری کی زیر صدارت سینیٹ کی فنکشنل کمیٹی برائے انسانی حقوق کے اجلاس کو بریفنگ میں ڈی آئی جی ایڈمن کراچی غلام سرور جمالی نے بتایا کہ کراچی شہر میں سرکاری طور پر 2200 سی سی ٹی وی کیمرے لگے ہوئے ہیں۔

مزید پڑھیں: لاہور کیلئے 1800 سی سی ٹی وی کیمرے

انہوں نے بتایا کہ شہر میں نصب نصف سے زیادہ سی سی ٹی وی کیمرے خراب ہیں جبکہ بعض چوری بھی ہوچکے ہیں۔

ان کے مطابق شہر میں سکیورٹی مقاصد کے لیے دس ہزار سی سی ٹی وی کیمرے نصب کرنے کی ضرورت ہے۔

ایڈیشنل سیکرٹری وزارت خزانہ سندھ محمد ریاض نے کمیٹی کو بتایا کہ تھر میں خشک سالی کے بعد چار ارب روپے مالیت کی گندم تقسیم کی گئی ہے، پانی کی فراہمی کی اسکیموں کے لیے پانچ ارب روپے جبکہ صحت کی سہولیات کے لیے دو ارب روپے جاری ہوئے۔

ارکان کمیٹی نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 4 ارب روپے کی گندم تقسیم ہوئی ہے تو تھر میں لوگ بھوکے کیوں ہیں؟ پانچ ارب روپے کی پانی کی اسکیمیں زمین پر کہاں ہیں؟ کمیٹی نے تھرپارکر میں بچوں کی اموات کا ذمہ دار سندھ حکومت اور سرکاری اداروں کو قرار دے دیا۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی امن کے لیے آٹھ تجاویز

کمیٹی نے تھرپارکر میں اموات پر آئندہ اجلاس میں سندھ کے سیکرٹری خزانہ، سیکرٹری خوراک اور سیکرٹری صحت کو طلب کرلیا ۔

خیال رہے کہ سندھ پولیس نے 2010 میں کراچی کے لیے ویڈیو کے ذریعے نگرانی کا نظام متعارف کروایا تھا جس کی ابتدائی طور پر لاگت 50 کروڑ روپے رکھی گئی تھی۔

اس منصوبے کو 2014 میں مزید وسعت دی گئی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اہم مقامات پر 84.6 کروڑ روپے کی لاگت سے کیمرے لگائے۔


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں