عاشر عظیم مالک کا دوسرا حصہ بنانے کے خواہشمند

عاشر عظیم مالک کا دوسرا حصہ بنانے کے خواہشمند



گزشتہ دنوں پاکستان بھر میں فلم مالک پر پابندی عائد کردی گئی جس کی وجہ اس میں کرپشن اور سیاست پر تنقید کو قرار دیا جارہا ہے اور اسے ختم کرانے کے لیے عدالت میں مقدمہ بھی دائر کیا جاچکا ہے۔

اس فلم کے خالق عاشر عظیم پاکستان کے معروف اداکار،ہدایت کار،کہانی نویس اورفلم ساز ہیں۔آج سے 22برس قبل1994میں انہوں نے اپنا لکھااورہدایت کردہ ڈراما”دھواں“ پاکستان ٹیلی وژن سے پیش کیا،جس میں انہوں نے اداکاری بھی کی اوراسی ایک ڈرامے سے شہرت کی بلندیوں کوچھولیا۔

اب عاشرعظیم میڈیا کے ذریعے اورعدالت میں ،دونوں جگہ اپنی فلم کامقدمہ لڑرہے ہیں ۔

فلم پر پابندی اور اس تنازعے کے حوالے سے بلاگر خرم سہیل کو انٹرویو دیتے ہوئے عاشر عظیم نے اس تنازعے کے مختلف پہلوﺅں پر بات کی۔

خرم سہیل : اگر اس فلم کی کہانی صرف فکشن ہے تو اس کی سچائی سے کسی کو تکلیف کیوں ہوگی اوراگریہ حقیقت پر مبنی کہانی ہے تو پھر یہ فکشن کیسے ہوا؟

عاشر عظیم : اس ملک کے 99 فیصد شہری میری اورآپ کی طرح ہیں، لیکن ہمارے اردگردایک مخصوص طبقہ اشرافیہ ہے،ہمارے لیے قانون کچھ اورہے،ان کے لیے کچھ اور۔ ہمارے اورآپ کے جیساعام شہری جب کھڑے ہوکرکہتاہے کہ”میں اس ملک کامالک ہوں۔“تو یہ سچ ان کو ہضم نہیں ہوتا۔ یہ اشارہ اس سچائی کی طرف ہے۔

خرم سہیل: سندھ حکومت نے آپ کی فلم ”مالک“پرجب پابندی لگائی اورپھرچند گھنٹوں بعدہٹابھی لی ،توکیاآپ کواحتیاطی تدبیر کے طورپرعدالت سے رجوع کرکے فوری طورپر حکم امتناعی نہیں لینا چاہئے تھا ؟

عاشر عظیم: پہلی بات تویہ ہے،میں کوئی پروفیشنل فلم ساز نہیں ہوں،جس کواتنی قانونی باریکیوں کے بارے میں واقفیت ہو، دوسری بات صوبائی اوروفاقی حکومتوں کی طرف سے لگائی گئی پابندیوں کے اوقات کار میں فرق ہی کتنا تھا،بمشکل ایک دن بھی نہیں ،تواس وقت اتنے کم وقت میں کس طرح میں عدالت سے رجوع کرتا،یہ ممکن نہ تھا۔

خرم سہیل : حیر ت ہے آپ نے اتنے حساس موضوع پر فلم بنائی ،مگر آپ کاخیال ہے کہ اس حوالے سے کسی ردعمل کی توقع نہیں تھی،یہ بات ناقابل فہم ہے ۔

عاشر عظیم : میری فلم کی کہانی کوئی ایسی انوکھی بھی نہیں ہے۔ٹیلی وژن اورفلموں میں جس طرح کی کہانیاں دکھائی جارہی ہیں،ان میں بھی تویہی ہورہا ہے۔ کل مجھے مصطفی قریشی صاحب کافون آیا،وہ کہنے لگے۔’میں نے جتنی فلموں میں کام کیا،اس میں سے نوے فیصد فلموں کی کہانی یہی رہی ہے۔ پاکستان ٹیلی وژن کے سب سے مقبول ترین ڈرامے ”وارث“کی کہانی کیاہے،ایک جاگیردارانہ نظام کوموضوع بحث بنایاگیا، اس لیے مجھے تو بالکل بھی اندازہ نہیں تھاکہ میری فلم کی کہانی پر کسی کاایسا ردعمل آئے گا۔

فوٹو بشکریہ عابد حسین
فوٹو بشکریہ عابد حسین

خرم سہیل: آ پ کی فلم ایک فرضی وزیراعلیٰ کے کردار کے ذریعے اخلاقی اورمالی کرپشن کی جس طرح عکاسی کی گئی،اس طریقہ کار اورکہانی کے مرکزی خیال پر بہت ساری قوتوں کو اختلاف ہے ،اس پر آپ کاکیاموقف ہے ؟

عاشر عظیم : اسی چیز کو تواظہاررائے کی آزادی کہاجاتاہے،جس کی جمہوریت میں گنجائش بھی ہے،اس کے باوجود میراماننا ہے،اگرکسی کی رائے میرے موقف سے مختلف ہے تومیں اس کابھی احترام کرتاہوں،کیونکہ مجھے آزادی اظہار رائے پرکامل یقین ہے۔ میں نے سوچا کہ اس فلم کو جب سنسر بورڈ دیکھے گا،تو کوئی مسئلہ ہوا تووہ سامنے آجائے گا،مگراس طرح کا کوئی ردعمل نہیں آیااورملک کے تین سنسر بورڈز نے فلم کوپورے پاکستان میں نمائش کرنے کااجازت نامہ دے دیا،توپھرمیں کیوں سوچتاکہ اس فلم میں کوئی مسئلہ ہوگا۔

خرم سہیل: آپ کی فلم میں ایک محافظ ہی فرضی وزیراعلیٰ کو گولی مالی دیتا ہے اور ایک طبقے کے خیال میں اس فلم کے ذریعے آپ نے یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ قانون اپنے ہاتھ میں لیاجاسکتاہے، اس حوالے سے آپ کیاکہتے ہیں ؟

عاشر عظیم : ہماری فلم کا کیس اپنی نوعیت کاانوکھا کیس ہے،جس میں فلم پر پہلے پابندی لگائی جاتی ہے ،اس کے بعد اس کی وجوہات تلاش کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں اور اعتراضات گھڑنے کازورلگایا جاتا ہے۔ ان سب باتوں میں دم نہیں ،کیونکہ معذرت کے ساتھ جھوٹ کے پاﺅں نہیں ہوتے۔اس لیے اگر میری فلم کے بارے میں اگر یہ کہاجاتاہے کہ اس میں قانون کو ہاتھ میں لینے کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے توپھر اس زد میں ہرفلم آئے گی،کوئی بھی فلم اس سے ماورا نہیں ،تھوڑا یا زیادہ عنصر اس میں ضرور ملے گا۔

فوٹو بشکریہ عابد حسین
فوٹو بشکریہ عابد حسین

خرم سہیل: آ پ نے کراچی کے گورنرہاﺅس میں اس فلم کی عکس بندی کی، توکسی نے نہیں پوچھا کہ فلم کا موضوع یا کہانی کیا ہے ؟

عاشر عظیم : اگرکسی کو گورنرہاﺅس کراچی میں بھی اس فلم کی عکس بندی پر اعتراض ہے تو بات یہ ہے کہ گورنرہاﺅس پاکستان کی ملکیت ہے،یہ عوامی عمارت ہے،یہ میرااورآپ کا،ہرپاکستانی کاگھر ہے،امریکامیں وائٹ ہاﺅس میں روزعام آدمی کو داخلے کی اجازت ہے،یہ توہمارے ہاں مخصوص سوچ کے حامل لوگ ہیں،جنہوں نے گورنرہاﺅس اوروزیراعلیٰ ہاﺅس کے دروازے عام آدمی کے لیے بند کررکھے ہیں ۔ آج سے 22سال پہلے ”دھواں“جیسامقبول ترین ڈرامابنایا،اس میں بھی گورنرہاﺅس استعمال ہوا۔اس میں بھی ملک دشمن طاقتوں کے خلاف جدوجہد دکھائی،اس پر کیوں پابندی نہیں لگائی گئی؟

خرم سہیل: سوشل میڈیا پرآپ کی فلم اوراس سے متعلقہ معاملات پر کس طرح کا عوامی ردعمل سامنے آیا ہے ؟

عاشر عظیم : سوائے ایک محدود طبقے کے،ایک عام پاکستانی آج بھی میرے ساتھ کھڑاہے۔ مجھے اورکسی کی پرواہ نہیں اورنہ ہی کسی طرح کا خوف ہے ،آج سے 22 برس پہلے بھی کوئی خوف نہیں تھا،جب ”دھواں “بنایااورآج بھی کوئی خوف نہیں ہے۔

فوٹو بشکریہ عابد حسین
فوٹو بشکریہ عابد حسین

خرم سہیل : خیال یہ کیا جا رہا ہے چونکہ آپ کی فلم کوآئی ایس پی آر کی طرف سے لاجسٹک سپورٹ حاصل ہوئی توشاید فلم کے لیے فنڈز وغیرہ بھی ملے ہوں ،جبکہ ایک طبقے کو یہ تاثر بھی ملا کہ آپ شاید جمہوریت کااحترام نہیں کررہے ؟

عاشر عظیم : میرے خیال سے فلم کاپیغام دیکھناچاہیے ،نہ کہ میں کیا کررہاہوں یاسوچ رہا ہوں۔ فوج نے تواس پابندی پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا۔ اگرمیں نے فوج کے پیسوں سے فلم بنائی ہوتی ،توپھروہ میری مدد کوبھی آتے ،ان کا کوئی بیان اس تنازعے پر آپ نے دیکھا؟

خرم سہیل: آپ اپنی اس فلم ”مالک“کادوسرا حصہ بنانے کاارادہ رکھتے ہیں ،ا س میں بھی کہانی کامرکزی خیال یہی رہے گا؟

عاشر عظیم : میری یہی کہانی جاری رہے گی۔ مجھے کئی لوگ مشورے دے رہے ہیں کہ فلم کادوسراحصہ بنانے جارہے ہیں تواب کی بار آپ 71 کی جنگ پر فلم بنائیں ،تو جس طرح کے موضوع میں کسی کو دلچسپی ہے ،وہ فلم بنائے،مجھے جس موضوع میں دلچسپی ہوگی ،میں اس پر فلم بناﺅں گا۔

خرم سہیل : میراذاتی خیال ہے ،اگراپنی فلم کی کہانی آپ کسی ماہر فلم نویس سے لکھواتے تومسائل کو وہ کہانی کواوراچھی طرح مہارت سے قلم بند کرتا،آ پ کی اداکاری اورہدایت کاری کے ہم معترف ہیں ،مگر قلم کار ہونا ذرامختلف بات ہے ،کیاکہتے ہیں ؟

فوٹو بشکریہ عابد حسین
فوٹو بشکریہ عابد حسین

عاشر عظیم : میں سمجھتاہوں،میں اچھا کہانی نویس ہوں۔مجھے اپنی تما م تخلیقی صلاحیتوں میں لکھنے کی صلاحیت سب سے بہترلگتی ہے ،میں نے ”دھواں“بھی خودلکھاوراب ”مالک“ کی کہانی بھی خود لکھی۔ابھی تک فلموں میں سب سے بنیادی چیز جس کی کمی ہے ، وہ اسکرپٹ ہے،تواگرہمارے ہاں اتنے اچھے کہانی نویس ہوتے،تویہ مسئلہ کیوں درپیش ہوتا۔

خرم سہیل : کیا کبھی ناول یا کتاب کی شکل میں بھی کچھ تخلیق کریں گے ؟ یہ بھی توایک میڈیم ہے ،جس کے ذریعے معاشرے کی بھلائی اورفلاح کے لیے کام کیا جاسکتا ہے اوربقول آپ کے ،اچھے کہانی نویس ہیں ۔اس حوالے سے کیاکہتے ہیں ؟

عاشر عظیم : میں کہانی کو ناول کی طرح لکھتانہیں ،بلکہ اسکرین پلے کی طرز پر سوچتا ہوں،تصویروں سے تحریر تخلیق کرتا ہوں،میرے ذہن میں تصویریں اورپرچھائیاں ہوتی ہیں ، بعد میں وہ تحریری شکل میں ڈھالتاہوں۔


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔