شام میں بم دھماکے، 148 سے زائد افراد ہلاک

اپ ڈیٹ 23 مئ 2016
شام میں بم دھماکوں کے بعد لوگ جائے وقوع پر جمع ہیں—۔فوٹو/ اے ایف پی
شام میں بم دھماکوں کے بعد لوگ جائے وقوع پر جمع ہیں—۔فوٹو/ اے ایف پی

بیروت: شام کے 2 شہروں میں ہونے والے7 بم دھماکوں کے نتیجے میں 148 سے زائد افراد ہلاک ہوگئے۔

ان دھماکوں کی ذمہ داری شدت پسند تنظیم اسلامک اسٹیٹ (داعش) نے قبول کرلی۔

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) نے شام میں انسانی حقوق کے حوالے سے کام کرنے والے آبزرویٹری گروپ کے حوالے سے بتایا کہ ساحلی شہر جبلہ میں ہونے والے دھماکے میں 51 جبکہ تارتوس میں ہونے والے دھماکے کے نتیجے میں 48 افراد ہلاک ہوئے۔

دوسری جانب خبر رساں ادارے اے ایف پی نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ شام میں بم دھماکوں کے نتیجے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 148 سے تجاوز کرگئی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 'اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے شام میں ہونے والے دھماکوں کی شدید مزمت کی ہے جس میں 148 سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔'

آبزرویٹری گروپ کے سربراہ رمی عبدالحمٰن نے مارچ 2011 سے جاری تنازع کے دوران حالیہ حملوں کو 'بغیر کسی شک و شبہ کے مہلک ترین حملے' قرار دیا۔

شام میں بم دھماکوں کے بعد لوگ جائے وقوع پر جمع ہیں—۔فوٹو/ اے ایف پی
شام میں بم دھماکوں کے بعد لوگ جائے وقوع پر جمع ہیں—۔فوٹو/ اے ایف پی

مزید پڑھیں:شام: ہسپتال پر بمباری میں 27 افراد ہلاک

دوسری جانب اسلامک اسٹیٹ نے حملوں کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا کہ داعش کے جنگجوؤں نے جبلہ اور تارتوس میں حملہ کیا۔

شامی شہر جبلہ اورتارتوس پیر کی صبح 7 دھماکوں سے گونج اٹھے تھے، جن میں سے زیادہ تر خود کش تھے۔

شام کے سرکاری ٹی وی نے دھماکوں کی رپورٹ دی لیکن کل ہلاکتوں کی تعداد 78 بتائی گئی، جن میں سے 45 جبلہ میں جبکہ 33 تارتوس میں ہلاک ہوئے۔

یہ بھی پڑھیں : شام: داعش کے حملوں میں 150 سے زائد ہلاکتیں

سرکاری ٹی وی پر تارتوس کے ایک بس اسٹیشن کی فوٹیج بھی دکھائی گئی جو حملے کے نتیجے میں تباہ ہوا۔

فیس بک پر مقامی خبریں دینے والے ایک پیج نے جبلہ کے ایک بس اسٹیشن پر دھماکے کی بھی رپورٹ دی۔

جبلہ اور تارتوس شامی صدر بشار الاسد کے مضبوط علاقے تصور کیے جاتے ہیں، جن کا تعلق جبلہ سے محض 25 کلومیٹر پر واقع ایک گاؤں قارداہ سے ہے۔

یہ بھی پڑھیں : عراق و شام: داعش اب بھی 60 فیصد علاقے پر قابض

خیال رہے کہ شام میں صدر بشار الاسد کی حکومت میں 2011 میں خانہ جنگی شروع ہوئی تھی، جس کے بعد سے گزشتہ 5 سال میں 2 لاکھ 70 ہزار سے زائد افراد اس جنگ کا نشانہ بن چکے ہیں۔

جون 2014 میں شام اور عراق کے ایک بڑے رقبے پر شدت پسند تنظیم داعش نے قبضہ کرکے خلافت کا دعویٰ کیا اور ابوبکر البغدادی کو اپنا خلفیہ مقرر کیا تھا، داعش کے خلاف شام اور روسی اتحاد کے علاوہ امریکا اور اس کے حامی ممالک فضائی کارروائیاں کر رہے ہیں، دوسری جانب داعش مخالف القاعدہ کی حامی النصرہ فرنٹ سمیت مختلف چھوٹے گروہ بھی شام کے دیگر علاقوں پر قابض ہیں۔

مزید پڑھیں : شام میں جنگ بندی اور انتخابات کا اعلان

شام میں قیام امن کے لیے اقوام متحدہ کی جانب سے مذاکراتی عمل بھی شروع کیا گیا، مذاکراتی عمل کے دوران فروری میں جنگ بندی کا اعلان کیا گیا لیکن اس جنگ بندی کا اطلاق داعش اور القاعدہ پر نہیں کیا گیا۔


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

تبصرے (0) بند ہیں