اسلام آباد: پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے بلوچستان میں امریکی ڈرون حملے کے نتیجے میں افغان طالبان کے سربراہ ملامنصور کی ہلاکت کے معاملے پر سینیٹ میں تحریک التوا جمع کرادی۔

سینیٹر فرحت اللہ خان بابر کی جانب سے جمع کروائی جانے والی تحریک التوا میں ڈرون حملوں کی توسیع کے معاملے پر بحث کرانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ بلوچستان میں ڈرون حملوں سے سیکیورٹی کو مزید خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔

فرحت اللہ بابر کا کہنا تھا کہ ملا منصور کے پاکستانی سرزمین پر مارے جانے سے اس تاثر کو تقویت ملتی ہے کہ ریاست میں کچھ عناصر دہشت گردوں کو پناہ دے رہے ہیں۔

تحریک التوا میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کو ڈرون حملے سے پیشگی مطلع کردینے سے متعلق رپورٹس بھی صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا رہی ہیں۔

مزید پڑھیں: 'ڈرون حملہ پاکستانی خودمختاری کی خلاف ورزی'

پی پی پی کا مزید کہنا تھا کہ اگر مذکورہ ڈرون حملے میں ملا منصور ہلاک نہیں ہوئے اس صورت میں بھی بلوچستان میں ہونے والا امریکی ڈرون حملہ 'ریڈ لائن' عبور کرنے کے مترادف ہے۔

ادھر ڈان نیوز کے مطابق پنجاب اسمبلی میں بھی پیپلزپارٹی کی ایم پی اے فائزہ ملک کی جانب سے ڈرون حملے کے خلاف قرار داد جمع کرائی گئی۔

قرارداد میں حملوں پرتشویش اور مذمت کا اظہار کرتے ہوئے وفاق سے امریکی سفیر کو دفتر خارجہ طلب کرکے شدید احتجاج کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔

قرارداد میں کہا گیا ہے کہ مستقبل میں ایسے حملے سے بچنے کیلئے معاملے کو عالمی سطح پراٹھایا جائے۔

ملا اختر منصور کون تھے؟


• ملا اختر منصور کا تعلق افغانستان کے صوبے قندھار سے تھا، اُن کی عمر 50 سال تھی۔

• انہوں نے جولائی 2015 میں ملا عمر کی موت کے بعد افغان طالبان کی کمان سنبھالی۔

• افغان طالبان کے امیر نے خیبر پختونخوا کے شہر نوشہرہ کے جلوزئی مہاجر کیمپ میں دینی مدرسے تعلیم بھی حاصل کی تھی۔

• طالبان دور حکومت کے دوران ملا اختر منصور 2001-1996 تک افغانستان کے سول ایوی ایشن کے وزیر بھی رہے۔

• افغانستان پر اکتوبر 2001 میں امریکی حملے کے دوران دیگر طالبان رہنماؤں کی طرح ملا اختر منصور بھی نامعلوم مقام پر روپوش ہوئے۔

• سابق سویت یونین کے خلاف جنگ میں ملا اختر منصور نے بھی حصہ لیا تھا۔

خیال رہے کہ امریکی محکمہ دفاع نے ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب اعلان کیا تھا کہ پاک افغان سرحد پر ایک دور دراز علاقے میں فضائی حملے میں افغان طالبان کے رہنما ملا اختر منصور ہلاک ہو گئے ہیں۔

پینٹاگون کے ترجمان پیٹر کوک نے بتایا تھا کہ امریکی محکمہ دفاع نے پاک افغان سرحد پر ہدف کے عین مطابق کی گئی ایک فضائی کارروائی میں ملا اختر منصور کو نشانہ بنایا۔

مزید پڑھیں: 'ملا منصور حملے سے قبل ایران میں نہیں تھے'

بعدازاں ترجمان دفتر خارجہ نفیس زکریا نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ ملا اختر منصور پر کیے جانے والے ڈرون حملے سے قبل امریکا نے معلومات کا تبادلہ کیا تھا۔

نفیس زکریا کے مطابق واقعے میں دو افراد ہلاک ہوئے ہیں جن میں سے ایک کی شناخت محمد اعظم کے نام سے ہوئی ہے۔

ترجمان نے بتایا تھا کہ ڈرون حملے سے متعلق معلومات آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور وزیراعظم نواز شریف سے شیئر کی گئی تھیں۔

ملااختر محمد منصور کو سابق امیر ملا عمر کی جگہ امیر بنایا گیا تھا— فوٹو: اے پی
ملااختر محمد منصور کو سابق امیر ملا عمر کی جگہ امیر بنایا گیا تھا— فوٹو: اے پی

دوسری جانب ایسوسی ایٹڈ پریس کی ایک رپورٹ کے مطابق افغان طالبان کے ایک سینئر کمانڈر ملا عبدالرؤف نے بھی ملا اختر منصور کی ہلاکت کی تصدیق کردی ہے۔

ڈان اخبار کی ایک رپورٹ میں واشنگٹن میں موجود سفارتی ذرائع کے حوالے سے کہا گیا کہ ملا اختر منصور کی ہلاکت سے پاکستان کے طاقت ور حلقوں کو کسی بھی قسم کے بڑے خدشات لاحق نہیں۔

مزید پڑھیں: 'ملا منصور حملے سے قبل ایران میں نہیں تھے'

ذرائع کا دعویٰ تھا کہ ملا اختر منصور کے ماضی میں پاکستانیوں کے ساتھ کچھ تعلقات تھے مگر ان تعلقات میں ان کے افغان طالبان کے امیر بننے کے بعد کشیدگی آ گئی تھی۔

پاکستان نے گزشتہ کچھ عرصے میں متعدد بار کوشش کی کہ وہ افغان مفاہمتی عمل میں شامل ہو جائیں لیکن ملا اختر منصور کی جانب سے اس کو قبول نہیں کیا گیا۔

امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں موجود سفارتی مبصرین اس حوالے سے کہتے ہیں کہ ملا اختر منصور کی ہلاکت سے طالبان مزید ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوں گے، طالبان کے پہلے امیر ملا عمر کی ہلاکت پر طالبان پہلے ہی کئی دھڑوں میں تقسیم ہو گئے تھے۔


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں