نئے طالبان رہنما نے امن مذاکرات مسترد کردیے

اپ ڈیٹ 25 مئ 2016
افغان طالبان کے نئے امیر ملا ہیبت اللہ نے امن مذاکراتی عمل کو مسترد کردیا — فائل فوٹو/اے ایف پی
افغان طالبان کے نئے امیر ملا ہیبت اللہ نے امن مذاکراتی عمل کو مسترد کردیا — فائل فوٹو/اے ایف پی

پشاور: افغان طالبان کے نئے امیر ملا ہیبت اللہ نے امن مذاکراتی عمل کو مسترد کردیا ہے۔

اپنے جاری آڈیو پیغام میں ملا ہیبت اللہ کا کہنا تھا کہ ملا عمر اور ملا منصور اختر نے ہمارے لیے ایسی تاریخ نہیں چھوڑی کہ جس سے ہماری نظریں کبھی جھکیں گی۔

انھوں نے کہا کہ وہ افغان طالبان کے سابق رہنماؤں ملا محمد عمر اور ملا اختر منصور کی تاریخ کو نہیں بھول سکتے اور انھیں ان کی شہادت پر فخر ہے۔

ملا عمر اور ملا منصور کا حوالہ دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 'انہوں نے ایسی تاریخ نہیں چھوڑی کہ جیسی نور محمد ترکئی، فضل الاہیم، ببراک کارمل، عبدالنعیم، نجیب اللہ، برہان الدین ربانی وغیرہ چھوڑ کرگئے ہیں، برہان الدین ربانی نے 14 سال افغانستان کے خلاف جہاد کیا، پھر امریکا کے ساتھ مل گیا اور اسی کے کفری نظام میں ان کی موت ہوئی، ہم ایسی تاریخ سے پناہ چاہتے ہیں'۔

مزید پڑھیں: ’افغان طالبان کے امیر ملا اختر منصور ہلاک‘

افغان طالبان کے نئے امیر ملا ہیبت اللہ نے کہا کہ 'طالبان کی اسلامی امارات کی 23 سالہ تاریخ میں اس کے ہر سطح کے قائدین ایسی تاریخ چھوڑ کر گئے ہیں جس سے میدان جنگ ہمیشہ گرم رہا ہے، ملا عمر کی وفات کی خبر سامنے آنے کے بعد طالبان مزید مضبوط ہوئے اور انہوں نے قندوز پر بھی قبضہ حاصل کر لیا'۔

ملا ہیبت اللہ نے اپنے پہلے آڈیو پیغام میں طالبان جنگجو کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ 'جو خود کو افغان کہتا ہو اور اس کے ساتھ مسلمان، مہاجر اور مجاہد بھی کہتا ہو تو وہ کبھی کفار کے سامنے سر نہیں جھکائے گا، ہم اپنی جان اسلام کے لیے قربان کر دیں گے، ہماری جنگ اسلام کے لیے ہے'۔

نئے طالبان رہنما نے کہا کہ ملا منصور اختر کا خون ضرور رنگ لائے گا اور طالبان کو فتح نصیب ہو گی، ہم اپنے اسلاف کا غم آنسوؤں سے ختم نہیں کریں گے بلکہ اس کو جنگ کے استعمال کریں گے۔

یہ بھی پڑھیں: 15 سال میں 900 امریکی ڈرون حملے

انھوں نے کہا کہ افغان کبھی یہود اور ہنود کے ماتحت نہیں رہیں گے ملا منصور اختر نے ایسی تاریخ نہیں چھوڑی جیسی وہ لوگ بنا رہے ہیں جو کل کو امارات اسلامی کی طلب کرتے تھے، اور اب اشرف غنی کی بغل میں بیٹھے نظر آتے ہیں، 'ہم ایسی شرمندگی سے پناہ مانگتے ہیں'۔

ملا ہیبت اللہ نے سوال اٹھایا کہ گلبدین حکمت یار نے اشرف غنی کو لبیک کہہ دیا ہے تو کیا یہ انہوں نے امریکا اور اوباما کو لبیک نہیں کہا؟

یاد رہے کہ گذشتہ ہفتے افغان میڈیا نے حکام کے حوالے سے یہ خبر شائع کی تھی کہ حزب اسلامی کے رہنما گلبدین حکمت یار، افغان حکومت سے امن معاہدے کرنے جارہے ہیں، جس کی دستاویزات تیار کرلی گئیں ہیں۔

مزید پڑھیں: ہیبت اللہ اخونزادہ افغان طالبان کے نئے امیر مقرر

مذکورہ معاہدے کو افغانستان میں طالبان کے ساتھ ہونے والے امن مذاکرات کے حوالے سے ایک اہم پیش رفت قرار دیا جارہا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ جو بھی مسلمان اور طالب ہوگا وہ امریکی صدر باراک اوباما اور افغان صدر اشرف غنی کی باتوں میں نہیں آئے گا۔

انھوں نے مزید کہا کہ 'میڈیا کہہ رہا ہے ہم سرجھکائیں گے لیکن ہم ایسا نہیں کریں گے'۔

خیال رہے کہ امریکا نے ہفتے اور اتوار درمیانی شب بلوچستان میں پہلا ڈرون حملہ کرتے ہوئے افغان طالبان کے امیر ملا اختر منصور کو نشانہ بنایا تھا۔

پاکستان نے 2010 میں ڈرون حملوں کے حوالے سے بلوچستان کو ’ریڈ لائن‘ قرار دیتے ہوئے نو گو ایریا بتایا تھا، لیکن اس کے باوجود امریکا نے بلوچستان میں اپنے ہدف کو نشانہ بنایا۔

وزیر اعظم نواز شریف نے امریکی ڈرون حملے کی مذمت کرتے ہوئے اسے پاکستان کی خود مختاری کے خلاف قرار دیا، جبکہ امریکی سفیر کو دفتر خارجہ طلب کرکے اس پر شدید احتجاج بھی ریکارڈ کرایا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: ملا منصور کی ہلاکت: امریکا-ایران کی خفیہ ڈیل؟

گزشتہ روز وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے بھی پریس کانفرنس کے دوران ڈرون حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکی اقدام، اقوام متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قانون کی مکمل خلاف ورزی ہے جبکہ امریکا کا اس حوالے سے پیش کیا گیا جواز بھی غیر قانونی ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ افغان طالبان کے امیر کو ڈرون حملے میں ہلاک کرنے کے بعد طالبان کو مذاکرات کے لئے کہنا درست اقدام نہیں۔


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

تبصرے (0) بند ہیں