اسلام آباد: پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے اسی) نے کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) سے، کُڑی گاؤں میں بحریہ انکلیو کی جانب سے قبضہ کی گئی 2 ارب 30 کروڑ روپے مالیت کی زمین کی تخصیص اور اس کا قبضہ دوبارہ حاصل کرنے کی ہدایت کردی۔

سی ڈی اے کے حوالے سے سال 14-2013 کی آڈٹ رپورٹ میں اس بات کی نشاندہی کی گئی تھی کہ بحریہ انکلیو نے ایک ہزار 542 کنال سرکاری اراضی پر قبضہ کیا۔

آڈیٹرز کے مطابق شہری ادارے نے 7 نومبر 2012 کو بحریہ انکلیو کو آخری نوٹس جاری کیا تھا جس میں کہا گیا کہ یا تو وہ زمین خالی کر دے یا پھر نتائج بھگتنے کے لیے تیار ہوجائے، تاہم بعد ازاں سرکاری اراضی پر اس قبضے سے آنکھیں پھیر لی گئیں۔

ڈائریکٹر جنرل آڈٹ مقبول گوندل نے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس کو بتایا کہ سی ڈی اے آرڈیننس 1960 کے سیکشن 49 سی (1 اور 2) کے تحت، سی ڈی اے کے ڈپٹی کمشنر قبضہ کی گئی اراضی پر قائم کی گئی املاک کے خلاف آپریشن کرکے، زمین دوبارہ حاصل کرسکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سی ڈی اے کے تحصیل دار نے نومبر 2012 میں بحریہ ٹاؤن کو آخری نوٹس جاری کرتے ہوئے 7 روز میں اراضی خالی کرنے کا کہا تھا، لیکن اتھارٹی ساڑھے 3 سال گزر جانے کے باوجود یہ اراضی دوبارہ حاصل نہیں کرسکی۔

آڈٹ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ بحریہ انکلیو نے قبضہ کی گئی اراضی پر سڑک بھی تعمیر کی۔

کمیٹی نے سی ڈی اے کو زمین کی تخصیص اور نجی ہاؤسنگ اسکیم سے زمین واگزار کرا کر رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی۔

آئی پی ایس کو پلاٹ کی الاٹمنٹ

سی ڈی اے حکام کی جانب سے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو بتایا گیا کہ زیر قبضہ زمین، 1981 میں جماعت اسلامی کے سابق رہنما پروفیسر خورشید احمد کے انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (آئی پی ایس) کو الاٹ کی گئی تھی۔

تاہم انسٹیٹیوٹ نے یہ زمین اگست 2012 میں بلا اجازت ایک نجی کمپنی کو منتقل کردی، جس سے قومی خزانے کو 46 کروڑ روپے سے زائد کا نقصان پہنچا، جبکہ نجی تعمیراتی کمپنی نے اس زمین پر 122 فلیٹس تعمیر کیے۔

پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین سید خورشید احمد شاہ نے تمام معاملے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انسٹیٹیوٹ کی تعمیر کے لیے دی جانے والی زمین، فلیٹس کی تعمیر کے لیے کسی کنسٹرکشن کمپنی کو کیسے فروخت کی جاسکتی ہے۔

انہوں نے سی ڈی اے حکام کو 15 روز میں معاملے کی رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی۔

یہ خبر 27 مئی 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

تبصرے (1) بند ہیں

Riffat Mehmood May 27, 2016 04:44pm
If you see the Pakistani society and specially the elite class, there loans and write off stories, they are all living very luxurious life stile and very poor to repay the loans, In that situation the people like Malik Riaz appear in the society, they also says "I know how the files are move in Government, I also fix wheels for the fast movement of the files". He don't bother the Laws, he can get all the things what he wanted to, but after a long period of four year the order did not fulfill. I am surprise why these reports are being high lighted, get then under the carpet. In this country no accountability had ever been came into account, due to compromises. If any case is registered in Nab there is also an option of pulley bargain, so you can't make any person accountable.