واشنگٹن: امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کا کہنا ہے کہ افغان طالبان کے نئے سربراہ مولوی ہیبت اللہ اخوانزادہ کا نام عالمی دہشت گردوں کی فہرست میں شامل نہیں ہے، ساتھ ہی امریکا نے ان پر جنگ کے بجائے امن کا راستہ اپنانے پر بھی زور دیا ہے۔

واشنگٹن میں میڈیا بریفنگ کے دوران اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ڈپٹی ترجمان مارک ٹونر نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ 'ان کا نام عالمی دہشت گردوں کی فہرست میں شامل نہیں ہے'۔

یاد رہے کہ 21 مئی کو بلوچستان کے ایک دوردراز علاقے میں امریکی ڈرون حملے کے نتیجے میں طالبان سربراہ ملا اختر منصور ہلاک ہوگئے تھے، جس کے بعد طالبان نے مولوی ہیبت اللہ کو اپنا نیا امیر منتخب کیا۔

جب ایک صحافی نے مارک ٹونر سے سوال کیا کہ گذشتہ طالبان سربراہوں کی طرح مولوی ہیبت اللہ نے بھی امن عمل سے انکار کردیا ہے تو ان کا کہنا تھا، 'ہمیں امید ہے کہ وہ اس موقع سے فائدہ اٹھائیں گے، ان کے پاس اس حوالے سے موقع موجود ہے کہ وہ امن کا انتخاب کریں اور مذاکرات کے ذریعے مسئلے کے حل کی طرف جائیں، ہمیں امید ہے کہ وہ اس بات کا انتخاب کریں گے'۔

مزید پڑھیں: ’افغان طالبان کے امیر ملا اختر منصور ہلاک‘

جب ترجمان سے اس حوالے سے سوال کیا گیا کہ اگر نئے طالبان امیر بھی امن مذاکرات سے انکار کریں گے تو کیا وہ بھی امریکی ڈرون کا نشانہ بنائے جائیں گے تو ان کا کہنا تھا، 'میں اس حوالے سے پیش گوئی نہیں کرسکتا کہ ہم امریکا کی قومی سلامتی مفاد کو نقصان پہنچانے والے کن لوگوں کو ہدف بنائیں گے'۔

یاد رہے کہ پیر 23 مئی کو صدر براک اوباما نے اپنے پیغام میں کہا تھا کہ 'ہم نے ایک ایسی تنظیم کے سربراہ کو ہلاک کردیا ہے، جس نے امریکا اور اتحادی فورسز پر حملوں کا منصوبہ بنایا، افغان عوام سے جنگ کی اور القاعدہ جیسی شدت پسند تنظیموں سے الحاق کیا۔'

براک اوباما کا کہنا تھا، 'ملا اختر منصور نے سنجیدہ مذاکرات کی کوششوں اور افغان مردوں، عورتوں اور بچوں کی ہلاکتوں کو روکنے کے لیے تشدد کے خاتمے کو مسترد کیا۔'

یہ بھی پڑھیں:براک اوبامانے ملامنصورکی ہلاکت کی تصدیق کردی

انھوں نے اس امید کا بھی اظہار کیا تھا کہ اب طالبان قیادت امن مذاکرات کا راستہ اپنائے گی، جو اس تنازع کے خاتمے کا 'واحد راستہ' ہے۔

اس سے قبل امریکی محکمہ دفاع سے جاری ہونے والے ایک بیان میں بھی کہا گیا تھا کہ ملا منصور نہ صرف افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مصالحت کی راہ میں رکاوٹ تھے بلکہ وہ دیگر طالبان رہنماؤں کو بھی امن مذاکرات میں شرکت سے روکتے تھے۔

مذکورہ بالا دونوں بیانات سے اس بات کا اظہار ہوتا ہے کہ امریکا امن عمل کو آگے بڑھانا چاہتا ہے، چاہے اس کے لیے مخالفت کرنے والے عناصر کو ختم ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔

یہ بھی پڑھیں: ہیبت اللہ اخونزادہ افغان طالبان کے نئے امیر مقرر

مولوی ہیبت اللہ کا نام عالمی دہشت گردوں کی فہرست میں شامل نہ ہونے کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ایک سفارتی تجزیہ نگار نے مولوی ہیبت اللہ کے حوالے سے کہا تھا کہ 'ان کے ساتھ ہم ڈیل کرسکتے ہیں'۔

واضح رہے کہ مولوی ہیبت اللہ سے متعلق خبروں کی رپورٹنگ کے دوران امریکی میڈیا نے ان نکات کو اجاگر کیا کہ وہ ایک جنگی رہنما سے زیادہ مذہبی اسکالر ہیں اور طالبان کے دور حکومت میں افغانستان کے چیف جسٹس بھی رہ چکے ہیں۔

یہ خبر 27 مئی 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں