تاریخی شاہ جہاں مسجد توجہ کی طلب گار

ٹھٹھہ: بڑے بزرگ کہتے ہیں کہ پاکستان میں موجود شاہ جہاں مسجد کی جب 1644 میں تعمیر کی ضرورت پیش آئی تو اس وقت مغل گورنر نے اپنے وزیر کوحکم دیا کہ ’ایسے افراد کو تلاش کرو، جو بہت متقی اور پرہیزگار ہوں جبکہ انہوں نے کبھی اپنی زندگی میں کوئی گناہ نہ کیا ہو‘۔

ملک میں ایسے شخص کی تلاش کے لیے منادی کروا دی گئی جس کے بعد مسجد کی تعمیرات میں ہزاروں مزدور نے حصہ لیا۔

فوٹو: اے ایف پی
فوٹو: اے ایف پی

اس زمانے میں صوفی اور عبادت گزار لوگ ہوا کرتے تھے، اس طرح مسجد کی تعمیر شروع ہوئی۔

صوبائی وزیر مراد علی شاہ کا کہنا ہے کہ شاہ جہاں مسجد کو تاریخی حیثیت حاصل ہے۔

فوٹو: اے ایف پی
فوٹو: اے ایف پی

ساتھ ہی مسجد کی زبوں حالی پر انہوں نے کہا کہ محکمہ آثار قدیمہ کی غلفت اور لاپرواہی کی وجہ سے یہ تاریخی ورثہ بدحالی کا شکار ہے۔

فوٹو: اے ایف پی
فوٹو: اے ایف پی

مسجد کی تعمیر کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ پرانے زمانوں میں مغل بادشاہوں کے حکم کے مطابق پرہیز گار اور متقی لوگ ہی اس کی تعیمر میں اہم کردار ادا کیا کرتے تھے ۔

فوٹو: اے ایف پی
فوٹو: اے ایف پی

صوبائی وزیر کا دعویٰ تھا کہ اب تو کوئی بھی ایسا پرہیز گار شخص موجود نہیں جو تاریخی ورثہ کو بچانے کے لیے فعال کردار ادا کرسکے۔

تاریخ دانوں کے مطابق 1647 میں شاہ جہاں مسجد کی تعمیرات کا کام مکمل ہوا جس میں ہزاروں مزدوروں نے حصہ لیا۔

فوٹو: اے ایف پی
فوٹو: اے ایف پی

شاہ جہاں مسجد اور لاہور کی بادشاہی مسجد مغل دور کے فن تعمیرات کی بہترین مظہر ہیں۔

1970 میں ناقص تعمیراتی کام کی وجہ سے ٹھٹھہ کی شاہی مسجد کی عمارت کو ناقابل تلافی نقصان بھی پہنچا تھا۔

فوٹو: اے ایف پی
فوٹو: اے ایف پی

سندھ کے جنوبی علاقے ٹھٹھہ کی شاہ جہاں مسجد 6300 مربع فٹ رقبے پر تعمیر ہے، اذان کی آواز مسجد کے کونے کونے میں لاؤڈ اسپیکر کے بغیر باآسانی سنی جاتی تھی لیکن 18ویں صدی کی مسجد کی مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے متواتر یہ تباہ حالی کی جانب بڑھ رہی ہے۔

ٹھٹھہ کے گورنمنٹ کالج کے پرنسپل محمد علی مانجی بتایا کہ شاہ جہاں مسجد اب اپنی اصلی حالت میں برقرار نہیں ہے۔

فوٹو: اے ایف پی
فوٹو: اے ایف پی

محمد علی مانجی کا کہنا تھا کہ مسجد میں بہت ساری تبدیلیاں کی گئی ہیں، جس کی وجہ سے مسجد کی خوبصورتی اور رعنائی ماند پڑ گئی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ مسجد کا ساؤنڈ سسٹم بھی پہلے کی طرح نہیں رہا، مسجد میں کئی جگہ ٹوٹ پھوٹ ہو چکی ہے۔

فوٹو: اے ایف پی
فوٹو: اے ایف پی

اس حوالے سے سندھ آرکیالوجی ڈپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر قاسم علی قاسم کا کہنا تھا کہ آثار قدیم کے ماہرین کی عدم دلچسپی کی وجہ سے مسجد زبوں حالی کا شکار ہے۔

آرکیالوجی ڈپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر کے مطابق مسجد کا داخلی راستہ تعمیراتی کام کی وجہ سے خراب ہوا، جن پتھروں پر قرآنی آیات لکھی ہوئی تھیں، ان کو نکال کر کراچی میں نیشنل میوزیم میں رکھ دیا گیا۔

فوٹو: اے ایف پی
فوٹو: اے ایف پی

قاسم علی قاسم کا دعویٰ تھا کہ بعد ازاں ان پتھروں کو پھینک دیا گیا۔

انہوں نے بتایا کہ سیوریج کے پانی کی وجہ سے اس کی بنیادیں کمزورہونے کا خدشہ ہے۔

فوٹو: اے ایف پی
فوٹو: اے ایف پی

شاہ جہاں مسجد بدحالی کا شکار ہونے کے باوجود سیر و تفرویح کے شوقین دور دور سے یہاں حاضری دینے ضرور آتے ہیں، مسجد کے باقی ماندہ خوبصورت حصوں میں تصاویر لیتے ہیں جبکہ مسلمانوں کی اس قدیم عبادت گاہ کی رعنائی میں گم ہوجاتے ہیں۔

تاریخی مسجد ہونے کے باوجود اس کی قیمتی ورثہ کو بچانے کے لیے ابھی تک کوئی منصوبہ سامنے نہیں آ سکا ہے۔


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔