اسلام آباد: تحریک طالبان افغانستان کے سابق امیر ملا اختر منصور کی ڈی این اے کے ذریعے بھی ہلاکت کی تصدیق ہو گئی۔

ڈان نیوز نے ترجمان وزارت داخلہ کے حوالے سے بتایا کہ نوشکی ڈرون حملے میں مارے جانے والے دوسرے شخص کی حتمی شناخت ہو گئی ہے۔

ڈی این اے ٹیسٹ کے ذریعے تصدیق ہو گئی ہے کہ مارا جانے والا شخص تحریک طالبان افغانستان کا سابق امیر ملا اختر منصور ہی تھا۔

مزید پڑھیں: 'ڈرون حملے سے عسکری قیادت بھی لاعلم تھی'

وزارت داخلہ کے مطابق شناخت ڈی این اے ٹیسٹ کے ذریعے ہوئی، ڈی این اے کا میچ ملا منصور کے قریبی عزیز سے لیا گیا جو میت لینے افغانستان سے آیا تھا۔

ملا اختر منصور کون تھے؟


• ملا اختر منصور کا تعلق افغانستان کے صوبے قندھار سے تھا، اُن کی عمر 50 سال تھی۔

• انہوں نے جولائی 2015 میں ملا عمر کی موت کے بعد افغان طالبان کی کمان سنبھالی۔

• افغان طالبان کے امیر نے خیبر پختونخوا کے شہر نوشہرہ کے جلوزئی مہاجر کیمپ میں دینی مدرسے تعلیم بھی حاصل کی تھی۔

• طالبان دور حکومت کے دوران ملا اختر منصور 2001-1996 تک افغانستان کے سول ایوی ایشن کے وزیر بھی رہے۔

• افغانستان پر اکتوبر 2001 میں امریکی حملے کے دوران دیگر طالبان رہنماؤں کی طرح ملا اختر منصور بھی نامعلوم مقام پر روپوش ہوئے۔

• سابق سویت یونین کے خلاف جنگ میں ملا اختر منصور نے بھی حصہ لیا تھا۔

اس سے قبل گاڑی کے ڈرائیور محمد اعظم کی شناخت بھی ڈی این اے ٹیسٹ کے ذریعے کی گئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: ’افغان طالبان کے امیر ملا اختر منصور ہلاک‘

واضح رہے کہ 21 مئی کو بلوچستان میں پاک افغان سرحد کے قریب 2 افراد کی جلی ہوئی لاشیں برآمد ہوئی تھیں، جن کی فوری طور پر شناخت نہ ہو سکی تھی تاہم ان کی لاشیں کوئٹہ کے سول ہسپتال منتقل کی گئیں۔

ان افراد کی شناخت ولی محمد اور محمد اعظم کے نام سے ہوئی تھی، ٹیکسی ڈرائیور محمد اعظم بلوچستان کے علاقے تفتان کا رہائشی تھا شناخت کے بعد اس کی لاش اہل خانہ کے حوالے کر دی گئی تھی۔

مزید جانیں: ملا منصور رکاوٹ تھے تو مری مذاکرات کیسے ہوتے، نثار

گذشتہ سال جون میں طالبان کے رہنما ملا محمد عمر کی موت کے حوالے سے افواہوں نے گردش کررہی تھی تاہم افغان طالبان ان خبروں کی تصدیق سے گریز کررہے تھے۔

مذکورہ انکشاف کے کچھ روز بعد طالبان نے ایک جاری بیان میں ملا عمر کی ہلاکت کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا تھا کہ وہ دو سال قبل ہلاک ہوئے تھے اور ان کے بعد طالبان شوریٰ نے گروپ کی سربراہی ملا اختر منصور کے حوالے کرنے کا اعلان کیا۔

یہ بھی جانیں: 'ڈرون حملہ پاکستانی خودمختاری کی خلاف ورزی'

اس اعلان کے بعد طالبان کے بیشتر گروپس اور نئی قیادت کے درمیان اختلافات پیدا ہوگئے اور گروپ مختلف دھڑوں میں تقسیم ہوگیا۔

تاہم ملا اختر منصور اور دیگر طالبان رہنماؤں کی کوششوں سے گروپ کے اختلافات اختتام پذیر ہوئے اور اسی دوران افغانستان میں پیدا ہونے والے ایک اور عسکری گروپ داعش کے خلاف طالبان نے اپنی کارروائیوں کا آغاز کردیا۔


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

Israr May 30, 2016 01:37am
ملا منصور کی ہلاکت کے فوراّ بعد متعلقہ فریقین نے ہلاکت مان لی تھی جس میں افعان طالبان افعان حکومت اور امریکہ کجیسے اصل فریق شامل تھے پاکستان نے شرمندگی سے بچنے کیلئے اتنا لمبا چوڑا وقت لیا ملا منصور کی لاش انکے رشتہ داروں نے پہچان کر وصول کی تھی ااور اہنے ساتھ پاکستانی حکام کی اجازت سے لے گئے تھے پاکستانی حکام نے پہلے انکار کیا بعد میں تصدیق کی جو سمجھ سے بالا گے خیر یہ پاکستان میں ایسے لطیفے ھوتے درہتے ھیں