شنداند: افغان طالبان کے ایک دھڑے نے افغان حکومت سے امن مذاکرات کے لیے آمادگی ظاہر کردی، تاہم ساتھ ہی انہوں نے افغانستان سے غیر ملکی فوجیوں کو نکالنے اور ملک میں شریعت کے نفاذ کا بھی مطالبہ کردیا۔

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق ملا محمد رسول کی سربراہی میں کام کرنے والے طالبان دھڑے کے ایک سینئر لیڈر ملا عبدالمنان نیازی نے کہا کہ ہمیں افغان حکومت کی باتوں پر اعتبار نہیں لیکن ہم پھر بھی پیشگی شرائط کے بغیر ان سے امن مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔

واضح رہے کہ ملاعبدالمنان نیازی، ملا محمد رسول کے نائب ہیں۔ گزشتہ برس ملا اختر منصور کے طالبان امیر بننے کے بعد ملا محمد رسول کو طالبان نے نکال دیا گیا تھا، جس کے بعد انھوں نے اپنا علیحدہ دھڑا بنالیا۔

یہ بھی پڑھیں: ’افغان طالبان کے امیر ملا اختر منصور ہلاک‘

یاد رہے کہ ملا اختر منصور جو افغان صدر اشرف غنی کی جانب سے مذاکرات کی پیشکش ٹھکرا چکے تھے، گذشتہ ہفتے پاک افغان کے سرحدی علاقوں میں امریکی ڈرون حملے کے نتیجے میں ہلاک ہوچکے ہیں۔

ملا اختر منصور کی ہلاکت کے بعد مولوی ہیبت اللہ اخونزادہ کو افغان طالبان کا نیا امیر مقرر کیا گیا۔

دوسری جانب افغان طالبان کے مرکزی گروپ کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ملا محمد رسول پر الزام لگایا کہ ان کے گروپ کو امریکا اور افغان حکومت کی سرپرستی حاصل ہے، ان کا کہنا تھا، 'ہمارے لیے یہ لوگ ایک مقامی پولیس اورافغان انٹیلی جنس کی کٹھ پتلی کے علاوہ کچھ نہیں۔ اگر افغان حکومت ہمارے مطالبات ماننے کے لیے تیار ہے تو ہم مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔'

مزید پڑھیں: ہیبت اللہ اخونزادہ افغان طالبان کے نئے امیر مقرر

خیال رہے کہ افغان طالبان کے دونوں دھڑوں کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ ملک میں شریعت نافذ کرکے غیر ملکیوں کو افغانستان سے باہر کیا جائے۔

دسمبر 2014 میں امریکی اور نیٹو افواج سرکاری طور پر جنگ بندی ختم کرکے افغانستان سے جاچکے ہیں لیکن اب بھی غیر ملکی افواج کی بڑی تعداد ملک میں موجود ہیں۔

دوسری جانب طالبان کی افغان حکومت اور سیکیورٹی فورسز کے خلاف کارروائیاں بھی جاری ہیں، صوبائی گورنر عمر زواق کے مطابق طالبان نے ہفتے کو صوبہ ہلمند میں واقع ایک چیک پوسٹ میں حملہ کیا تھا جس کے نیتجے میں 4 پولیس اہلکار ہلاک ہوگئے تھے۔

یہ خبر 30 مئی 2016 کے ڈان اخبار میں شائع ہوئی


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

تبصرے (0) بند ہیں