جب مسجد کی چھت گری...

اپ ڈیٹ 11 جون 2016
مسجد کی چھت گرنے کے نتیجے میں زخمی ہونے والا ایک شخص ہسپتال میں زیر علاج ہے—۔فوٹو: فہیم صدیقی/وائٹ اسٹار
مسجد کی چھت گرنے کے نتیجے میں زخمی ہونے والا ایک شخص ہسپتال میں زیر علاج ہے—۔فوٹو: فہیم صدیقی/وائٹ اسٹار

کراچی: شہر قائد کے علاقے نارتھ ناظم آباد میں گذشتہ روز نماز جمعہ کے دوران جامعہ مسجد عثمان کی چھت گرنے کے نتیجے میں 6 نمازی جان سے گئے جبکہ 8 زخمی ہوئے۔

عباسی شہید ہسپتال کے ایمرجنسی وارڈ میں زیر علاج واقعے کے ایک زخمی سید وقارعلی نے اس حوالے سے بتاتے ہوئے کہا، 'میں سائیڈ پر کھڑا ہوا تھا، واقعہ اُس وقت پیش آیا جب سنتوں کی ادائیگی کے دوران نمازی رکوع میں تھے۔'

ہسپتال میں دوستوں کے درمیان گھرے سید وقار کے مطابق، 'واقعے میں میری پسلیوں اور پاؤں میں چوٹ لگی، میرے گھر والوں کو معلوم ہے کہ میں اس مسجد نماز پڑھتا ہوں کیونکہ میں قریب ہی واقع ایک فیکٹری میں ملازمت کرتا ہوں۔'

انھوں نے مزید بتایا، 'جب میرے گھر والوں نے ٹی وی پر مسجد کی چھت گرنے کی خبر دیکھی تو انھوں نے مجھے فون کیا، میں نے انھیں بتایا کہ میں ہسپتال میں ہوں لیکن خدا کی مہربانی سے بچ گیا ہوں۔'

وقار نے مزید کہا، 'بدقسمتی سے واقعے میں کچھ ہلاکتیں بھی ہوئیں، مجھے معلوم ہوا ہے کہ ایک صاحب اپنے بیٹے سمیت واقعے میں شہید ہوئے، لیکن میں خوش قسمت ہوں۔'

ایک اور عینی شاہد محمد دلاور نے بتایا، 'جب فرض کی ادائیگی کے بعد جماعت ختم ہوئی تو میرا 5 سالہ بیٹا عبدالرحمٰن کہیں غائب ہوگیا اور میں اسے تلاش کرنے کے لیے اٹھ کر گیا، جیسے ہی میں نے مسجد کے گیٹ سے باہر قدم رکھا، ٹین کا وہ شیڈ جس کے نیچے ہم نے نماز پڑھی تھی، زوردار آواز کے ساتھ میرے پیچھے گرا۔'

دلاور نے مزید بتایا کہ 'اپنے بیٹے کو باہر کھڑا دیکھ کر میں نے فوراً اسے پکڑا اور سڑک کی دوسری جانب موجود فٹ پاتھ پر بٹھا دیا اورسختی سے تاکید کی وہ وہیں بیٹھے جبکہ میں مسجد کی طرف بھاگا تاکہ ملبے تلے دبے نمازیوں کو نکالنے میں مدد کرسکوں۔'

انھوں نے مزید بتایا، 'اس سے قبل مجھے اپنے بیٹے پر بہت غصہ تھا جو نماز کے دوران باہر چلا گیا، اس حرکت پر میں اسے ایک زورار تھپڑ رسید کرنا چاہتا تھا، لیکن اب میں سوچتا ہوں کہ مجھے اپنی جان بچانے پر اپنے بیٹے کا شکریہ اداکرنا چاہیے کیونکہ اسی کو تلاش کرنے کے لیے میں باہر آیا تھا۔'

مزید پڑھیں:کراچی: مسجد کی چھت گرنے سے6 نمازی شہید

ایک اور عینی شاہد نجیب خان نے بتایا کہ وہ مسجد کے باہر ایک ٹھیلے والے سے پھل خرید رہے تھے کہ جب یہ واقعہ پیش آیا، انھوں نے بتایا، 'میں فوراً اندر گیا اور لوگوں کو باہر نکالنے میں مدد دی، وہ لوگ جو چھت کے پنکھوں کے نیچے آگئے تھے، یا تو شہید ہوچکے تھے یا پھر بے ہوش تھے جبکہ کچھ کے سروں سے خون بہہ رہا تھا'۔

انھوں نے مزید بتایا کہ 'حتی کہ آدھے گھنٹے بعد تک بھی کوئی نہیں پہنچا، مسجد میں نماز ادا کرنے والے زیادہ تر رکشہ اور ٹیکسی ڈرائیور تھے جنھوں نے ہلاک اور زخمی ہونے والوں کو ہسپتال منتقل کرنے میں ہماری مدد کی۔'

واقعے کے متاثرین کو عباسی شہید ہسپتال منتقل کرنے والے عابد علی نے بتایا کہ جامعہ مسجد عثمان ایک پرانی مسجد ہے، ان کا کہنا تھا، 'یہ 30 سے 35 سال قدیم ہے لیکن نمازیوں کے لیے لگائے گئے شیڈز نئے تھے۔ ٹین کے شیڈز کو سہارا دینے کے لیے اُس پر اینٹیں رکھی گئی تھیں، لیکن تیز ہوا کی وجہ سے وہ شیڈ نیچے گرگیا اور اسٹیل کے فریم، پنکھے اور اینٹیں نمازیوں کے اوپر آن گرے'۔

جب اُن سے اس حوالے سے سوال کیا گیا کہ کیا وہ اس مسجد میں دوبارہ نماز ادا کرنے جائیں گے، عابد علی نے کہا کہ وہ ابھی اُسی مسجد میں نماز عصر ادا کرنے کے لیے جارہے ہیں، ان کا کہنا تھا، 'میں نارتھ ناظم آباد کے بلاک ایچ میں رہائش پذیر ہوں، یہ اس علاقے کی سب سے بہترین اور بڑی مسجد ہے، انشاء اللہ میں یہاں عصراور دیگر نمازیں بھی ادا کروں گا۔'

ان کا مزید کہنا تھا، 'اس حوالے سے کوئی بھی کچھ نہیں کہہ سکتا، کیوں کہ جو کچھ ہوا، وہ اللہ کی مرضی تھی، اس میں واقعی کسی کی کوئی غلطی نہیں، کیونکہ شیڈ لگاتے ہوئے مسجد انتظامیہ کے ذہن میں صرف نمازیوں اور ان کے آرام کا ہی خیال تھا۔'

یہ خبر 11 جون 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

babar Jun 11, 2016 11:47am
ان کا مزید کہنا تھا،"'اس حوالے سے کوئی بھی کچھ نہیں کہہ سکتا، کیوں کہ جو کچھ ہوا، وہ اللہ کی مرضی تھی، اس میں واقعی کسی کی کوئی غلطی نہیں، کیونکہ شیڈ لگاتے ہوئے مسجد انتظامیہ کے ذہن میں صرف نمازیوں اور ان کے آرام کا ہی خیال تھا۔" Nice Line i proud to be