غنویٰ راجپر کا قصور کیا تھا؟

30 جون 2016
یہ درد صرف ایک غنویٰ کا نہیں ہے جو لمحہ بہ لمحہ موت کی وادی میں اترتی رہی بلکہ یہ درد ان تمام عورتوں اور لڑکیوں کا ہے جو کہ اس قسم کے ظلم کا شکار ہوتی رہی ہیں۔ — فائل۔
یہ درد صرف ایک غنویٰ کا نہیں ہے جو لمحہ بہ لمحہ موت کی وادی میں اترتی رہی بلکہ یہ درد ان تمام عورتوں اور لڑکیوں کا ہے جو کہ اس قسم کے ظلم کا شکار ہوتی رہی ہیں۔ — فائل۔

توہمات کی دنیا کا سلسلہ کہاں سے شروع ہوا، اس کی کوئی حقیقی تاریخ تو اب تک معلوم نہیں ہو سکی مگر یہ سلسلہ صدیوں پر محیط ہے اور اب تک چلا آ رہا ہے۔

عورتوں کو چڑیل قرار دے کر انہیں زندہ جلانا یا تشدد کے دیگر طریقے اپنا کر اسے قتل کرنا یورپ کی تاریخ کا ایک ایسا سیاہ باب ہے جسے کبھی بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا، جس کے چند عکس ہمیں ادب کی دنیا میں بھی نمودار ہوتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔

فرینچ زبان کے نامور افسانہ و ناول نگار وکٹر ہیوگو کا ناول “ہنچ بیک آف ناٹرڈیم” بھی ایک ایسی ہی رقاصہ کی کہانی ہے جسے اس زمانے کا چرچ چڑیل قرار دے کر مارنے کی کوشش کرتا ہے اور اس کا کبڑا عاشق ہی چرچ میں پناہ دے کر بچانے کی کوشش کرتا ہے۔

اسی طرح سندھی میں نامور افسانہ نویس و ناول نگار امر جلیل نے کسی زمانے میں اروڑ جو مست (اروڑ کا دیوانہ) کہانی لکھی تھی جو کہ ایک ڈاکو عارب ماچھی کا قصہ ہے جو اروڑ میں پیر بن کر لوگوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹتا ہے۔ جس میں وہ کہتا ہے کہ سندھ میں ڈاکو بنو یا پیر ایک ہی بات ہے۔

پڑھیے: جعلی پیروں کے ہتھکنڈے

چند روز قبل سندھ کے شہر فیض گنج، ضلع خیرپور میں ایک ایسی ہی عورت کو ایک پیر کے حوالے کیا گیا کیونکہ اس کے شوہر اور رشتے داروں کو شبہ تھا کہ اسے کسی جن نے اپنے بس میں کر لیا ہے۔

پیر نے جن نکالنے کے بہانے غنویٰ راجپر کے جسم کو گرم سلاخوں سے داغا، اور پھر برف پر لٹا دیا، جبکہ اسے صرف ملیریا ہوا تھا، جو کہ ڈاکٹر کی ہلکی پھلکی دوا سے بھی اتر جاتا۔

زخموں سے چور غنویٰ اس لیے زندگی کی جنگ ہار گئی کہ اس کے زخم ناسور بن چکے تھے، مگر پھر بھی یہ سمجھا گیا کہ وہ اب تک کسی جن کی قید میں ہے اور جب تک وہ جن اسے قید سے آزاد نہیں کرے گا تب تک وہ صحتیاب نہیں ہو پائے گی۔

سندھ کے حکمرانوں کو سندھ صرف گل و گلزار نظر آتا ہے۔ انہیں سندھ کا ایک یہ چہرا بھی دیکھ لینا چاہیے جوکہ نہ صرف بھیانک ہے، بلکہ کربناک بھی ہے، جس میں عورت کو کسی جانور کی طرح کسی کے بھی حوالے کیا جاسکتا ہے، وہ اسے مار ڈالے یا اس کا جینا اجیرن کر دے مگر اسے اپنے منہ سے آواز نکالنے کے لیے منع کیا جاتا ہے۔

سندھ میں پیر پرستی کی مضبوط روایات کی وجہ سے آج تک کتنی ایسی لڑکیاں اور عورتیں ہیں جو موت کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں اور اس امکان کو بالکل بھی رد نہیں کیا جاسکتا کہ یہ سلسلہ مزید چلتا جائے گا کیونکہ ان پیروں اور حقیقی وڈیروں اور جاگیرداروں کی بقا اسی میں ہی ہے۔

غنویٰ راجپر بھی انہی تمام عورتوں کی طرح ایک ایسی موت کا شکار ہوئی ہے جو کہ جہالت کی وجہ سے ہوئی۔ وہی جہالت جو صدیوں سے انسانی دماغ پہ راج کر رہی ہے۔

مزید پڑھیے: 'جن کو عشق ہو گیا ہے'

آج بھی ہمارے ملک میں جن نکالنے، کسی کے دل میں گھر کرنا اور پسند کی شادی کرنے جیسے اشتہار ہماری دیواروں پر اتنے زیادہ ہیں کہ شاید سیاسی نعرے بھی اتنے نہ ہوں۔ اشتہارات کا دعویٰ ہوتا ہے کہ ان کے جنتر منتر ہر ناممکن کو ممکن بنا سکتے ہیں، اور ایسے لوگوں پر سب سے زیادہ یقین کم تعلیم یافتہ لوگ کرتے ہیں۔

کتنی عورتوں کے نفسیاتی اور جنسی مسائل کو بنا سمجھے ہی یہ تصور کیا جاتا ہے کہ ان پر جنات کا سایہ ہے اس لیے انہیں فوری طور پہ ایسے بھیڑیوں کے حوالے کیا جاتا ہے جو چند روپوں کی خاطر کسی کی جان کی پرواہ تک نہیں کرتے۔

کسی بھی انسان کی نفسیاتی بیماریوں کا حل نہ صرف یہ کہ میڈیکل سائنس میں موجود ہے بلکہ ان کا علاج مشکل نہیں ہے۔ بلکہ ان کا حل ایک بہتر ماحول اور بہتر تربیت سے ممکن ہے۔

مگر یہ سوال بھی اپنی جگہ پر اہمیت کا حامل ہے کہ لوگوں کا اعتبار ڈاکٹروں سے زیادہ کسی پیر پر کیوں ہے؟ جب اس پیر کے آستانے پر ایک عورت دردناک تشدد کو سہہ کر آخر کار مر جاتی ہے، تب بھی انہیں اس بات کی پرواہ کیوں نہیں ہوتی؟

وجہ وہی حکمران اور غلط بجٹ ترجیحات۔ جہاں صحت کی سہولیات نایاب ہوتی جا رہی ہوں اور ہسپتالوں میں لوگوں کو دوا تک میسر نہ ہو ایسی حالت میں انہیں یہی لگتا ہے کہ کوئی پیر ہی ان کے لیے مسیحا ہے، جس کے پاس علاج کے طریقے، جلانا، زنجیروں سے باندھنا، لاٹھی برسانا اور ہر قسم کا تشدد ہوتا ہے۔

ہمارے صحت کے شعبے کی حالت یہ ہے کہ آج بھی لاکھوں لوگوں کو بخار کی دوا تک میسر نہیں ہوتی، کیونکہ انہیں ہسپتال تو نظر آتا ہے مگر ان میں ڈاکٹر کسی جن کے طرح غائب رہتا ہے۔

پھر بات آتی ہے تعلیم کی، جو کہ شاید ہمارے حکمرانوں کی ترجیحات کی فہرست میں ہے ہی نہیں، اوپر نیچے ہونا تو دور کی بات ہے۔ آئندہ برس پاکستان قائم ہوئے 70 سال مکمل ہو جائیں گے، مگر یہ ہماری ریاست کا کمال ہے کہ وہ 70 سالوں میں بھی عوام کو مکمل طور پر بنیادی تعلیم اور صحت کی سہولیات فراہم نہیں کر سکی۔

جانیے: پاکستان میں ذہنی بیماریاں اور ہماری بے حسی

قانون؟ وہ کیا ہوتا ہے؟ جب جنتر منتر والے بابوں کو سزا کا کوئی ڈر نہیں پھر انہیں کیا پڑی ہے کہ وہ اپنا دھندا بند کر دیں اور لوگوں کو اپنے جال میں پھسانے کی بجائے انہیں یہ مشورہ دیں کہ بخار ہو جائے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اسے کسی جن نے اپنے بس میں کر رکھا ہے بلکہ اسے کسی ڈاکٹر کی دوا کی ضرورت ہے۔

کیا یہ سماجی بے حسی نہیں ہے کہ ہم ہمیشہ کسی عورت کے بارے میں ہی سمجھتے ہیں کہ اس پر جنات کا سایہ اور جبکہ مرد حضرات اکثر ڈاکٹر کے پاس ہی جاتے ہیں؟

یہ درد صرف ایک غنویٰ کا نہیں ہے جو لمحہ بہ لمحہ موت کی وادی میں اترتی رہی بلکہ یہ درد ان تمام عورتوں اور لڑکیوں کا ہے جو کہ اس قسم کے ظلم کا شکار ہوتی رہی ہیں۔

مگر ہمیں شاید ایسے سماج میں جینے کی عادت ہو گئی ہے تب ہی اس طرح کی خبریں ہمارے قومی میڈیا پر ہونے والی بحث کا حصہ نہیں بن پاتیں۔

تبصرے (5) بند ہیں

کلیم راجڑ Jun 30, 2016 11:24am
ختر نے ایک مظلوم لڑکی کا اسٹرانگ کیس پیش کیا ہے۔ سندہ میں ہر دن بنت حوا کے ساتھ غیر انسانی سلوک کی نئی داستان رقم ہوتی ہے۔ سفاک لوگوں کو سزا نہیں ملتی اور یوں ایسے واقعات کو روکنا ممکن نہیں رہتا۔ جہالت بھی اس کا ایک بنیادی فیکٹر ہے۔
Muhammad Jun 30, 2016 01:49pm
This is not only in Sind, whole of the country is full of stories like this. My daughter suffered with IEM back in 2013 at the age of 3 years. IEM is a genetic defect and incurable. During this time till her death, highly educated class also advised me to consult these "Babas". Believe me I got these advices from Bankers, Professors and even few CSS officers.
ahmaq Jun 30, 2016 02:15pm
inna lillahi va inna ileyhey rajioon
Ali Jun 30, 2016 02:30pm
سائیں اختر ادا، سندھ کا حال لفظوں میں بیان کرنا بہت مشکل کام ہے، ہمارے MPA < MNA ، کبھی اپنے علاقوں میں اے ہوں تو ان کو پتا چلے عوام کے حال کا، اور یہ پیر فقیر وڈیرہ کے حوالے کیا ہوا ہے سندھ.. نہ کوئی میڈیا کوریج دیتا ہے نہ بھیس اوم خود آواز اٹھاتی ہے،،
غلام شبیر لغاری Jun 30, 2016 09:11pm
غنویٰ راجپر کا قصور کیا تھا؟ بلاگ میں نامور لکھاری اختر حفیظ نے سچی باتیں لکھی ہیں، جعلی پیروں اور بھوپوں نے ملک میں جنات کے اثر اور آسیب کا ساۓ کے نام پر دکانیں کھول رکھیں ہیں، ایک طرف معصوم عورتیں ان کا شکار ہو رہی ہیں تو دوسری طرف تقدیر کو بدل ڈالنے کے نام پر نوجواں نسل کو گمراہ کرکے لوٹا جا رہا ھۓ، پر ان لٹیروں کے خلاف کوئی قانونی کاروائی نھیں ہوتی،