Dawnnews Television Logo

کیا دورہ انگلینڈ پھر متنازع ہو گا؟

پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان اب تک ہونے والی سیریز میں متعدد تنازعات پیش آ چکے ہیں جن میں سے چند قابل ذکر ہیں۔
اپ ڈیٹ 28 جون 2016 03:27pm

2006 اور 2010 کے دورہ انگلینڈ میں پیش آنے والے افسوس ناک واقعات کے بعد اس بار پاکستانی کرکٹ شائقین آئندہ ماہ سے ایلسٹر کک کی زیر قیادت انگلینڈ کے خلاف شروع ہونے والے چار ٹیسٹ میچوں کی سیریز کے تنازعات سے پاک رہنے کے لیے دعاگو ہیں۔

14 جولائی سے سیریز کے آغاز کے ساتھ ہی لارڈز ایک مرتبہ پھر سب کی توجہ کا مرکز ہو گا کیونکہ یہ وہی مقدس مقام ہے جب 29 اگست 2010 کو بدنام زمانہ اسپاٹ فکسنگ کے واقعے نے دنیائے کرکٹ کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ راتوں رات سب کی توجہ اسٹورٹ براڈ اور جوناتھن ٹراٹ کے عالمی ریکارڈ سے منتقل ہو گئی جنہوں نے 102 رنز پر سات وکٹیں گنوانے والی انگلش ٹیم کی میچ میں واپسی یقینی بنائی اور 332 رنز کی شراکت قائم کر کے عالمی ریکارڈ بنایا۔

یکدم ہی اتوار کی دوپہر اس وقت بھونچال آ گیا جب ٹیبلائیڈ اخبار نیوز آف دی ورلڈ نے اسپاٹ فکسنگ کی داستاں بیان کی تھی جس میں اس وقت کے پاکستان کے کپتان سلمان بٹ، محمد آصف اور کم سن محمد عامر ملوث تھے جنہوں نے برطانیہ میں مقیم پاکستانی ایجنٹ مظہر مجید سے بھاری رقم لے کر جان بوجھ کر نوبال کی تھیں۔

اس تنازع پر حیران اور پریشان پاکستانی ٹیم کو انگلینڈ کے خلاف ایک اننگز اور 225 رنز سے شکست کا سامنا کرنا پڑا لیکن میزبان ٹیم اس پر کھل کر خوش بھی نہ ہو سکی کیونکہ اب تمام تر لوگوں کی توجہ اس اسکینڈل کی جانب مبذول ہو چکی تھی جس نے جنٹل مین گیم کے تشخص کو بری طرح نقصان پہنچایا تھا۔ نیوز آف دی ورلڈ کے انڈر کور رپورٹرز نے خفیہ طور پر مظہر مجید کی ویڈیو ریکارڈ کر لی جنہوں نے پیسے لے کر صحافیوں کو بتایا کہ آصف اور عامر ایک اوور کے مخصوص مواقعوں پر جان بوجھ کر نوبال کریں گے۔

مظہر مجید اور ان کے بھائی متعدد پاکستانی کھلاڑیوں کے لیے جانی مانی شخصیت تھے جنہوں نے ان کی کلب اور کٹس وغیرہ سمیت دیگر معاہدوں میں مدد کی تھی۔

جس شام یہ خبر منظر عام پر آئی، اسی وقت اسکاٹ لینڈ یارڈ نے سلمان، آصف اور عامر کو رشوت دینے کے الزام میں مظہر مجید کو گرفتار کر لیا تھا اور یہ وہی ہیں جنہیں 2010 کے سڈنی ٹیسٹ کے آغاز میں بھی دیکھا گیا تھا۔ اس میچ میں پاکستان کو آسٹریلیا کے ہاتھوں اس وقت انتہائی شرمناک شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا جب وکٹ کیپر کامران اکمل نے مائیکل ہسی کو آؤٹ کرنے کے کم از کم چار مواقع ضائع کیے تھے اور اس میچ نے آؤٹ آف فارم مائیکل ہسی کے کیریئر کو ایک نئی زندگی فراہم کردی تھی۔اسٹنگ آپریشن میں بتایا گیا کہ مظہر نے پیش گوئی کردی تھی کہ عامر چوتھے ٹیسٹ میچ میں تیسرا اوور کریں گے اور اوور کی پہلی گیند نوبال ہو گی۔ عامر نے تیسرا اوور کرایا اور اوور کی پہلی گیند نوبال کرائی۔ یہ کوئی ایسی ویسی نوبال نہیں تھی بلکہ ان کا پیر لائن سے کم و بیش آدھے میٹر آگے تھا۔ مظہر نے یہ پیش گوئی بھی کی تھی کہ دسویں اوور کی چھٹی گیند بھی نوبال ہو گی اور آصف کی جانب سے کرائی گئی یہ گیند بھی بہت بڑی نوبال تھی۔

اس دورے پر موجود پاکستانی ٹیم کے منیجر یاور سعید کی جانب سے دورے کے آغاز میں سلمان بٹ، محمد آصف اور دیگر کھلاڑیوں کو خبردار کیے جانے کے باوجود انہوں نے اس بات کو سنجیدگی سے نہ لیا اور اس تنازع کے بعد مظہر مجید اور تینوں کھلاڑیوں کے خلاف سخت ایکشن لیا گیا۔

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جب کبھی بھی پاکستانی ٹیم انگلینڈ کا دورہ کرتی ہے تو تنازعات اس کا پیچھا کرتے ہیں۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ برطانوی میڈیا نے اس بات کو اپنی عادت بنا لیا ہے تاکہ وہ دورے پر آنے والی ٹیموں خصوصاً پاکستان، ہندوستان، سری لنکا اور ویسٹ انڈیز کی توجہ تقسیم کر سکیں۔

1992 اور 1996 کی سیریز میں وسیم اکرم اور وقار یونس انگلینڈ کیلئے ڈراؤنا خواب بنے رہے.
1992 اور 1996 کی سیریز میں وسیم اکرم اور وقار یونس انگلینڈ کیلئے ڈراؤنا خواب بنے رہے.

تاہم عجب اتفاق یہ کہ پاکستانی ٹیم کسی نہ کسی طرح خود کو غیرضروری طور پر مشکلات کا حصہ بنانے میں کامیاب رہتی ہے لیکن کبھی کبھار اس کے پیچھے معقول وجہ بھی ہوتی ہے۔ 1987 کی ٹیسٹ سیریز میں قومی ٹیم کی جانب سے متنازع امپائر ڈیوڈ کانسٹنٹ کی تقرری پر اعتراض کو انگلش حکام نے مسترد کردیا تھا۔ ٹیم کے منیجر حسیب عالم کو خصوصی طور پر مقامی میڈیا کو سبق سکھانے کا کام سونپا گیا۔ حتیٰ کہ کپتان عمران خان بھی اس تمام معاملے کو احسن طریقے سے سنبھالنے پر حسیب کی صلاحیتوں کے معترف ہو گئے اور ان سے بہت متاثر ہوئے اور ان کی مزید عزت کرنے لگے۔

اس کے ساتھ ہی حسیب کو انگلش ٹیم اور میڈیا سے پرانے حساب چکانے کا بھی موقع ملا جب 1962 کے دورہ انگلینڈ کے موقع پر آف اسپنر پر 'چکر' کا الزام لگا کر ان کے کیریئر کو تباہ کردیا گیا تھا۔

بال ٹیمپرنگ کے الزامات کچھ نئے نہیں۔ 1992 اور 1996 میں دورہ انگلینڈ وسیم اکرم اور وقار یونس جیسے عظیم کھلاڑیوں نے ریورس سوئنگ کی شاندار صلاحیتوں کی بدولت انگلش صفوں کو درہم برہم کردیا تھا۔ اس جوڑی نے 1992 کی سیریز میں 43وکٹیں اپنے نام کی تھیں جہاں سابق انگلش کھلاڑیوں نے الزامات عائد کیے کہ ان دونوں نے پانچ میچوں کی سیریز میں میزبان ٹیم کو زیر کرنے کے لیے غیرقانونی ہتھکنڈے استعمال کیے۔

خصوصاً اگر پاکستان کے امپائرز کا تقرر کیا جائے تو دورے پر آنے والی ٹیموں خاص کر انگلینڈ کی جانب سے انہیں دھوکے باز یا چیٹر کا لقب فراہم کر دیا جاتا ہے۔

امپائر شکور رانا اور مائیک گیٹنگ کے درمیان تنازع کا ایک منظر۔
امپائر شکور رانا اور مائیک گیٹنگ کے درمیان تنازع کا ایک منظر۔

لیکن پاکستان میں 88-1987 میں ہونے والی سیریز میں جو کچھ ہوا اس نے چند ماہ قبل رونما ہونے والے واقعات کی یاد تازہ کردی۔

ہم میں سے بہت سے لوگوں کو یہ بات نہیں بھول سکتی کہ کس طرح انگلینڈ نے سیریز برابر کرنے کا موقع گنوایا تھا جب فیصل آباد میں ہونے والے دوسرے ٹیسٹ میچ کے دوران انگلش کپتان مائیک گیٹنگ اور پاکستانی امپائر شکور رانا کے درمیان بدترین تصادم ہوا اور دونوں ایک دوسرے کو انگلیاں دکھانے کے ساتھ ساتھ مغلظات بھی بکیں۔

شکور رانا نے مائیک گیٹنگ پر چیٹنگ کا الزام عائد کیا جنہوں نے ایڈی ہیمنگ کے گیند کرنے سے چند لمحے قبل نان اسٹرائیکنگ اینڈ پر کھڑے سلیم ملک کو بتا کر فیلڈ سیٹ کی۔ جیسے ہی ہیمنگ نے بھاگنا شروع کیا، گیٹنگ اپنی جگہ سے ہل کر ڈیوڈ کیپل کی جانب چلے گئے۔ تکنیکی اعتبار سے یہ ایک قانونی اقدام تھا کیونکہ گیٹنگ نے بلے باز کو بتا دیا تھا، وہ کسی کھلاڑی کو اس کی جگہ سے نہیں ہلا رہے تھے اور وہ اسٹرائیکر کی نظر سے بھی دور تھا لہٰذا اس سے بلے باز کی توجہ ہٹنے کا خدشہ بھی نہیں تھا۔

تاہم اسکوائر لیگ پر کھڑے شکور کو یہ اقدام نہ بھایا اور وہ ناخوش نظر آئے لہٰذا جیسے ہی ہیمنگ نے گیند کرائی، انہوں نے وہیں سے آواز لگائی: 'رکو، رکو'۔ ان کے ساتھی نے موقع کی مناسبت کو دیکھتے ہوئے فوراً ہی گیند کو ڈیڈ بال قرار دیا۔ اس صورتحال پر حیران پریشان گیٹنگ نے پوچھا کہ کیا ہوا تو شکور نے بتایا کہ انہوں نے ہاتھ ہلا کر چیٹنگ کی۔

اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ بالکل ناگزیر تھا کیونکہ انگلش کپتان اور پاکستانی امپائر کے درمیان شروع ہونے والی ٹسل کے نتیجے میں تیسرے دن کا پورا کھیل ضائع ہو گیا۔ چوتھے دن کی صبح گیٹنگ کی جانب سے تحریری معافی مانگنے کے بعد دونوں فریقین کے درمیان معاملات طے ہو گئے۔

انگلینڈ پہلے سے ہی لاہور میں ہونے والے پہلے ٹیسٹ میچ میں پاکستانی آفیشل شکیل خان کی غیر معیاری امپائرنگ کی وجہ سے خاصا پریشان تھا پاکستان کے کپتان میانداد کی ہدایات کی پیروی کی اور نتیجتاً انہیں پہلے ٹیسٹ میچ میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ 1-0 سے سیریز ڈرا ہونے کے باوجود انگلش کرکٹ بورڈ نے پاکستان آنے والی ٹیم کے ہر رکن کو دورے میں پیش آنے والی مشکلات کا سامنا کرنے پر ایک ہزار پاؤنڈ بطور انعام دیے۔

جب پاکستان 2006 میں انگلینڈ گیا، تو ہر ٹیسٹ میچ میں نیوٹرل امپائر لازمی تعینات کیے جانے لگے تھے لہٰذا اب مقامی امپائر کو جانبداری برتنے کے الزامات بھی پرانے ہو چکے تھے۔

لہٰذا جب اوول میں ہونے والے سیریز کے آخری ٹیسٹ میچ میں انضمام الحق کی زیر قیادت پاکستانی ٹیم کو اس وقت شدید دھچکا لگا جب متنازع آسٹریلین امپائر ڈیرل ہیئر نے پاکستانی ٹیم پر بال ٹیمپرنگ کا الزام عائد کر کے انگلینڈ کو پانچ رنز بطور ایوارڈ کر دیے، اس میچ میں ان کے ساتھ امپائرنگ کے فرائض بلی ڈواکٹروو انجام دے رہے تھے۔

اتفاقاً یہی وہی اتوار تھا جب پاکستان نے چوتھے دن کی دوپہر چائے کے وقفے کے بعد فیلڈ کے لیے آنے سے انکار کرتے ہوئے میچ فورفیٹ کرنے کا فیصلہ کر کے فتح حاصل کر کے وقار کی بحالی کا نادر موقع گنوا دیا۔ میچ میں بڑے خسارے سے دوچار انگلینڈ فتح سے خاصا دور تھا لیکن اس کے باوجود میچ میں انگلینڈ کو فاتح قرار دے کر آئی سی سی نے کھیل کی ساکھ خراب کرنے پر انضمام الحق پر پابندی عائد کردی۔

اب 14 جولائی سے شروع ہونے والے اس سیریز میں پاکستان 20 سالہ جمود توڑتے ہوئے انگلینڈ کے خلاف 1996 کے بعد پہلی مرتبہ سیریز جیتنے کیلئے پرعزم ہے جہاں کپتان مصباح الحق نے کھلاڑیوں کو دورہ پر توجہ مرکوز رکھتے ہوئے ماضی کو بھول کر مثبت سوچ کے ساتھ کھیلنے کا مشورہ دیا ہے۔

مصباح نے انگلینڈ روانگی سے قبل کہا تھا کہ یہ یقیناً ایک مشکل سیریز ہو گی لیکن اس دورے کے ساتھ آسان طریقے سے نمٹنے کا واحد حل یہ ہے کہ اپنے کھیل پر توجہ مرکوز رکھی جائے۔ ہمیں اِدھر اُدھر دیکھنے اور ماضی کو دہرانے کی ضرورت نہیں ورنہ ہم کبھی آگے نہیں بڑھ سکیں گے۔ تنازعات سے دور رہنے کا یہ واحد طریقہ ہے۔


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔