استنبول: ترک حکام نے دارالحکومت استنبول کے کمال اتاترک انٹرنیشنل ایئر پورٹ پر خود کش حملے میں ملوث افراد کو غیر ملکی ظاہر کیا ہے۔

ترک حکام کا کہنا تھا کہ کمال اتا ترک انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر 3 خودکش حملہ آوروں نے حملہ کیا جن کا تعلق روس، ازبکستان اور قازقستان سے تھا۔

کمال اتا ترک انٹرنیشنل ایئرپورٹ دنیا کے مصروف ترین ہوئی اڈوں میں شمار ہوتا ہے، دو روز قبل 29 جون کو کمال اتاترک انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر 3 حملہ آوروں نے فائرنگ کے بعد خود کو دھماکے سے اڑا لیا تھا، جس کے نتیجے میں 41 افراد ہلاک اور 329 افراد زخمی ہوئے تھے۔

حکام نے خودکش حملہ آوروں کی قومیت کے بارے تصدیق کی ہے تاہم حکام نے خودکش حملہ آوروں کے نام اور مزید تفصیلات دینے سے انکار کیا۔

حکام نے بتایا کہ فرانزک کی کئی ٹیموں نے خودکش حملہ آوروں کی شناخت معلوم کرنے کی کوشش کی جو حملے کے بعد سے جائے وقوع کا جائزہ بھی لے رہی ہیں لیکن حملہ آوروں کے بارے میں تحقیقات مکمل ہونے تک مزید تفصیلات سے آگاہ نہیں کرسکتے۔

یہ بھی پڑھیں: استنبول ایئرپورٹ پر حملہ، 41افراد ہلاک

اس حوالے سے ترکی کے وزیر داخلہ ایفکان اعلیٰ نے پارلیمنٹ کو بتایا کہ حملے کے کچھ شواہد اکھٹے کئے گئے ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ حملے میں داعش ملوث ہے جبکہ ہلاک ہونے والے 19 غیر ملکی ہیں۔

ایفکان اعلیٰ نے کہا کہ 3 حملہ آوروں میں سے ایک کی شناخت اور قومیت کے بارے میں معلومات مل چکی ہیں لیکن انہوں نے اس حوالے سے مزید کچھ کہنے سے اجنتاب کیا۔

حکومت کا حامی اخبار 'ینی شفق' نے رپورٹ کیا کہ روسی حملہ آور کا تعلق داغستان سے ہے، داغستان چیچینا کا سرحدی علاقہ ہے، جہاں پر 1991 میں سویت یونین کے سقوط کے بعد مذہبی عسکری پسندوں کے خلاف روس دو جنگیں لڑچکا ہے۔

ترکی کے ایک اور اخبار روزنامہ حریت نے خود کش حملہ آور کا نام عثمان واڈینوو بتابے ہوئے رپورٹ کیا کہ وہ شام میں داعش کا گڑھ تصور کیے جانے والے علاقے 'رقہ' سے تعلق رکھتا تھا۔

دوسری جانب روسی وزیر داخلہ کا کہنا ہے کہ وہ عثمان واڈینوو کے حوالے سے معلومات حاصل کررہے ہیں۔

قازقستان کی سیکیورٹی سروس کے ترجمان کا کہنا تھا کہ انہوں نے ترک حکام کے اس دعوے کے بعد تحقیقات شروع کردی ہیں، جبکہ ازبک سیکیورٹی سروس نے ابھی تک کوئی بیان جاری نہیں کیا۔

حالیہ برسوں میں ہزاروں غیر ملکی جنگجو عراق اور شام میں شدت پسند گروپ میں شمولیت کے لیے مبینہ طور ہر ترکی کی سرحد پار کر چکے ہیں، ترکی نے شام سے ملحقہ اپنی سرحد پر سیکیورٹی سخت کردی ہے، تاہم اس کے باوجود ان جنگجوؤں کی آمدو رفت روکنے کے لیے غیر ملکی ایجنسیوں سے مزید معلومات حاصل کرنے پر زور دیا جاتا ہے۔

مزید پڑھیں: طیارہ تباہ کرنے کا واقعہ: ترکی کی روس سے معافی

اتا ترک ایئر پورٹ حملے میں ایک خود کش حملہ آورکا تعلق روس سے بتایا جارہا ہے، واضح رہے کہ تین روز قبل ترکی نے طیارہ مار گرانے پر روس سے معافی مانگ لی تھی۔

خیال رہے کہ گزشتہ سال نومبر میں ترکی نے مبینہ طور پر سرحدی حدود کی خلاف ورزی پر شامی سرحد پر روسی طیارہ مار گرایا تھا، جس کے بعد دونوں ملکوں کے تعلقات کشیدہ تھے۔

روسی نیوز ایجنسیز کے مطابق روسی سیکیورٹی کونسل کے سربراہ نکولائی پاٹرشیو نے ایئر پورٹ میں دھماکے کے بعد اپنے ہم منصب کو دہشت گردی کے خلاف جنگ کے خلاف تعاون کے لیے خط ارسال کیا۔

حملے کے بعد پولیس کے چھاپے

ترک پولیس نے حملے کے بعد کئی علاقوں میں چھاپے مار کر 13 افراد کو گرفتار کیا،جن میں 4 غیر ملکی شامل ہیں۔

ترک میڈیا کے مطابق ان افراد کو خودکش بمباروں کی معاونت کرنے کے الزام میں حراست میں لیا گیا۔

رائٹرز نے حکام کو بتایا کہ پولیس کی اسپیشل فورسز کی سربراہی میں انسداد دہشت گردی کی ٹیموں نے بیک وقت شہر کے 16 علاقوں میں چھاپے مارے۔

مصر اور عراق میں جنگ کی وجہ سے ترکی میں خودکش دھماکے کے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے، رواں سال استنبول کے مرکزی علاقے میں غیر ملکیوں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔

داعش نے اس سے قبل گزشتہ سال فرانس اور بیلجیئم میں ہونے والے بم دھماکوں کی بھی ذمہ دار قبول کی تھی۔

ترکی اتحادی افواج نیٹو کا رکن ہے اور داعش کے جنگ میں خلاف امریکا کی معاونت بھی کررہا ہے، داعش کئی بار مصر کے سرحدی علاقے میں سنیوں پر راکٹ حملے کرچکا ہے اور حال ہی میں مصر کے شمالی علاقے کلیس میں بمباری کی تھی۔

ترکی پر بڑھتے ہوئے خدشات کو دیکھتے ہوئے امریکی دفاعی ذرائع کا کہنا ہے کہ واشنگٹن امریکی ملٹری اور سویلین اہلکاروں کو اپنے ہمراہ خاندان کو تعینات ملکوں میں لے جانے پر پابندی عائد کرنے کے بارے میں سوچ رہا ہے۔

امریکی ہوم لینڈ سیکیوٹی سیکریٹری جے جانسن کا کہنا ہے کہ استنبول ائیر پورٹ پر حملہ شدت پسند گروپ کا ’حال مارک‘ یعنی ان کی کارروائیوں کا ثبوت ہے اور اس حملے میں ایک امریکی شہری تھوڑا بہت زخمی ہوا تھا۔

یہ خبر یکم جولائی 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں