بلاول بھٹو اور عمران خان دونوں نے عید کے بعد حکومت مخالف مہم شروع کرنے کا اعلان کیا ہے تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ کیا دونوں جماعتیں مہم کو مشترکہ طورپر شروع کریں گی یا علیحدہ مہم چلائیں گی۔

اس سوال پر کہ کیا بلاول بھٹو زرداری اور عمران خان کنٹینر پر ایک ساتھ نظر آئیں گے؟ پر سینیٹر اعتزاز کا نقطہ نظر ہے کہ دونوں جماعتوں کو ایک ساتھ کھڑے ہونے کے لیے پاناما پیپر لیکس نے اچھا موقع دیا ہے۔

بعض اوقات ایسا نظر تو آتا ہے کہ یہ دونوں جماعتیں ایک ساتھ آگے بڑھیں گی، ابھی گزشتہ ہفتے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی) دونوں نے وزیراعظم نواز شریف اور ان کے خاندان کے خلاف الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) میں ریفرنس دائر کیا ہے۔

مزید پڑھیں: پاناما انکشافات: 'وزیراعظم صادق اور امین نہیں رہے'

پاناما لیکس پر متحد اپوزیشن کی 9جماعتوں میں اکثریت رکھنے والی ان دونوں جماعتیں نے ای سی پی میں جمع کردہ کاغذات میں خاندان کے اپارٹمنٹ کو ظاہر نہ کرنے پر وزیر اعظم کی نااہلی کے لیے ریفرنس دائر کیا ہے۔

دونوں جماعتوں کا نقطہ نظر ہے کہ پانامالیکس کی مجوزہ تحقیقات کے لیے پارلمیانی کمیٹی کی ٹرمزآف ریفرنسز(ٹی اوآر) ناکامی کے بعد ان کے پاس حاکم وقت نواز شریف کے خلاف قانونی چارہ جوئی کے سوا کوئی راستہ نہیں بچا ہے۔

حکومت کی جانب سے پاناما لیکس کی شفاف اور غیر جانبدار تحقیات میں تاخیری حربے جاری رکھنے کی صورت میں دونوں جماعتیں سڑکوں پر آسکتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم کے داماد کی نااہلی کیلئے پٹیشن دائر

ایک ہی کنٹینر پر دونوں جماعتوں کے مشترکہ احتجاج کے سوال پر پی پی پی اور پی ٹی آئی کی کے سینئر رہنماؤں نے مختلف جوابات دیے ہیں، ان کا محور یہی ہے کہ پاناما پیپر پر حکومت کو زیادہ سے زیادہ سیاسی نقصان پہنچایا جائے۔

پی پی پی پارلیمان کے دونوں ایوانوں میں عددی اعتبار سے مضبوط ہوسکتی ہے لیکن تاحال 'فرینڈلی اپوزیشن" نظر آتی ہے۔

یہ 2014 میں پاکستان مسلم لیگ (پی ایم ایل-ن) کے خلاف پاکستان عوامی تحریک (پی اے ٹی) اور پی ٹی آئی کے دھرنے کے خلاف کھڑی ہوئی تھی جبکہ عمران خان اور طاہرالقادری کے حکومت کو ناکام بنانے کی کوششوں کو کامیاب ہونے نہیں دیا تھا۔

پی پی پی کو گزشتہ چند ماہ کے دوران پاناما لیکس کے باعث اپنی ساکھ کو بچانے کا موقع مل گیا ہے یہاں تک کہ شریف برادران کے خلاف احتجاج کی سربراہی پی ٹی آئی نہیں بلکہ پی پی پی کرتی نظر آرہی ہے۔ پارلیمنٹ کے اندر اور باہر دونوں جگہ پی پی پی کے رہنماؤں کو حکومت کے خلاف منی لانڈرنگ اور آف شور کمپنیوں کے حوالے سے سخت زبان استعمال کرتے دیکھا اور سنا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پیپلز پارٹی کا ٹی او آر کمیٹی سے الگ ہونے کا اصولی فیصلہ

پی پی پی کے ایک سینیئر رکن اسمبلی کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے ساتھ ملنے کے لیے پارٹی تقسیم تھی 'پنجاب سے تعلق رکھنے والے اکثر ارکان پی ایم ایل این کے خلاف دباؤ بڑھانے کے لیے پی ٹی آئی سے اشتراک پر پرجوش تھے لیکن سندھ سے سینیئر رہنما شریف برادران کے خلاف قانونی جنگ کو بڑھانے کے حق میں تھے'۔

مزید پڑھیں : پاناما لیکس میں مزید بڑے ناموں کا انکشاف

پی پی پی کے ایک ایم این اے کا کہنا تھا کہ 'اس سے پی پی پی کو اگلے الیکشن میں مدد ملے گی'، انھوں نے وضاحت کی کہ پارٹی قبل از انتخابات کے لیے تیار نہیں تھی اسی لیے وزیراعظم نواز شریف کے استعفیٰ پر زور نہیں دیا گیا۔

خیبر پختونخوا سے پی پی پی کے سینیٹر کے مطابق خان صاحب کے 'طالبان کے حامی نقطہ نظر کی وجہ سے' پارٹی قیادت کو ان کے ساتھ کھڑا ہونا آسان نہیں۔ اپنے نقطہ نظر کی وضاحت کرتے ہوئے انھوں نے خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی کی جانب سے حال ہی میں پاس کئے جانے والے بجٹ کی طرف توجہ دلا دی جس میں مولانا سمیع الحق کے مدرسے کے لیے 30 کروڑ روپے مختص کیےگئے ہیں۔

دوسری جانب پی ٹی آئی بھی اپنے احتجاج کے منصوبے پر غیر مطمئن ہے۔

پارٹی کی قیادت مختلف پہلوؤں پر غور کررہی ہے کہ تنہا مہم شروع کی جائے یا دوسری جماعتوں کو ساتھ ملانے تک انتظار کیا جائے۔

پی ٹی آئی کے ایک سینیٹر کے مطابق '2014 کے ہمارے دھرنے کے بعد (جب پارلیمنٹ میں موجود اکثر جماعتوں نے ان کی حمایت نہیں کی تھی)ہم اپوزیشن کے 9 پارٹی بلاک کو برقرار رکھنے کی بہترین کوشش کریں گے'۔

مزید پڑھیں: عوامی تحریک کی وزیراعظم کی نااہلی کیلئے پٹیشن

پی ٹی آئی کے رہنما نے واضح کیا 'عمران خان حکومت کو ٹکر دینے کے لیے پرعزم ہیں'، ان کا کہنا تھا کہ عمران کئی سالوں سے شریف برادران کی ملک لوٹنے اور پیسہ باہر بھیجنے کو نمایاں کر رہے ہیں اور اب اس کے ثبوت عوام تک پہنچ گئے ہیں اسی لیے پی ٹی آئی کے سربراہ مسئلہ کو دبنے نہیں دے سکتے۔

پی ٹی آئی رہنما نے اس سوال کی تفصیلات نہیں دیں کہ پارٹی سخت موقف کیسے اپنائے گی اور اپوزیشن جماعتوں کو حکومت کے خلاف مشترکہ جدوجہد کے لیے متحد ہونے کے لیے کیسے آمادہ کریں گے۔

تاہم پی ٹی آئی کے لیے عین وقت پر سب کو اپنے ساتھ ملانا آسان نہیں ہوگا۔ غیر جانبدار مبصرین سمجھتے ہیں کہ پی پی پی پاناماگیٹ پرفائدہ اٹھانے کی خواہاں ہے اور وہ پی ٹی آئی سے فاصلے پر ہی رہے گی۔

یہ خبر یکم جولائی کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

تبصرے (0) بند ہیں