20 طرح کا آڑو پیدا کرتی خوبصورت وادیء سوات

وادیء سوات اگر ایک طرف اپنے تاریخی حوالوں کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہے تو دوسری طرف یہ اپنے میٹھے اور رس بھرے پھلوں کے باغات میں بھی اپنا ثانی نہیں رکھتی۔ سوات میں ہر قسم کے پھل بکثرت پیدا ہوتے ہیں۔

جہاں یہ وادی اٹھارہ بیس قسم کے سیب پیدا کرتی ہے، تو وہاں بیس پچیس اقسام کے شفتالو (آڑو) بھی اسی وادی کے باغات میں پیدا ہوتے ہیں۔ یہاں کے آڑو کو نہ صرف اندرون ملک مقبولیت حاصل ہے بلکہ بیرونِ ملک بھی اس کی بڑی مانگ ہے۔

آڑو کی بڑی تعداد پیدا کرنے والے گاؤں خریڑئی کے ماہر احسان اللہ کے مطابق سوات کے علاقوں میں پچیس مئی تک آڑو کی سب سے پہلی قسم کی پیداوار شروع ہوجاتی ہے جسے یہاں مقامی طور پر ’’جیٹھے شفتالو‘‘ کہتے ہیں۔ یہ لفظ دراصل جیٹھ کا مقامی ورژن ہے۔

آڑو کی تمام اقسام کی پیداوار میں دس سے لے کر پندرہ دن کا وقفہ ہوتا ہے۔ مذکورہ وقفے میں تیار شدہ پیداوار کو درختوں سے اتارا جاتا ہے اس کے بعد پیکنگ اور آخر میں منڈی بھیج کر اسے فروخت کیا جاتا ہے۔

جیٹھے شفتالو کے بعد جون کے پہلے ہفتے میں 'علی گرین' (یہ لفظ شاید انگریزی کے آل گرین کی بگڑی ہوئی شکل ہے) کی باری آتی ہے۔ یہ قسم نسبتاً ذائقہ دار ہوتی ہے اور اس کی عمر بھی زیادہ ہوتی ہے۔

گاؤں خریڑئی میں شفتالو کے ایک باغ کا منظر — تصویر امجد علی سحاب
گاؤں خریڑئی میں شفتالو کے ایک باغ کا منظر — تصویر امجد علی سحاب

— تصویر امجد علی سحاب
— تصویر امجد علی سحاب

تیسری قسم کو یہاں مقامی زبان میں 'دوئم ہڑے' کہا جاتا ہے۔ اس کی پیداوار جون کے پہلے ہفتے کے اختتام پر حاصل کی جاتی ہے۔ اسی حساب سے 'سوئم نمبر شفتالو' کی باری آتی ہے۔ اس طرح یہاں آڑو کا سیزن شروع ہوتے ہی زمینداروں، مزدوروں اور منڈی والوں کی مصروفیات میں دو گنا اضافہ ہو جاتا ہے۔

جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے کہ ہر نئی قسم پیدا ہونے میں آٹھ روز سے لے کر پندرہ روز تک کا وقفہ ہوتا ہے، جس میں آڑو کی پوری کی پوری پیداوار منڈی تک بمشکل ہی پہنچ پاتی ہے اور مناسب بندوبست نہ ہونے کی وجہ سے یہ پھل بڑی تعداد میں ضایع ہو جاتا ہے۔

سوئم نمبر شفتالو کے منڈی تک پہنچنے کے بعد 'چہارم نمبر' کی پیداوار حاصل کرنے کی باری آتی ہے۔ اس کے فوراً بعد 'ساڑھے چار نمبر' کی پیداوار تیار ہو چکی ہوتی ہے۔ واضح رہے کہ چہارم اور ساڑھے چار نمبر شفتالو کے اندر دیگر چار مختلف اقسام پائی جاتی ہیں جن میں کچھ کی شکل لمبوتری ہے تو کچھ کی گول مٹول۔

پنجم نمبر شفتالو کے اندر کئی ورائٹیز پائی جاتی ہیں جن میں سے کچھ کو ’سادہ پنجم‘ اور کچھ کو ’چائنہ پنجم‘ کہا جاتا ہے۔ ان تمام اقسام کو دس بارہ دن کے اندر اندر مارکیٹ تک پہنچانا ہوتا ہے۔

ابھی پنجم نمبر کی پیداوار پوری حاصل بھی نہیں کی گئی ہوتی کہ ایک اور قسم (جس کا یہاں مقامی طور پر نمبر کے حوالہ سے کوئی نام نہیں ہے) تیار کھڑی ہوتی ہے۔ یہ 'گولڈن' کے نام سے مشہور ہے جس کا سائز قدرے بڑا اور رنگ اور ذائقہ بہترین ہوتا ہے۔ زمینداروں کے بقول 'گولڈن' کی ایک اچھی پیداوار پورے باغ کا خرچہ نکال دیتی ہے۔ مارکیٹ میں اس کی قیمت دو گنی ہوتی ہے۔

شفتالو کی پیداوار حاصل کرنے کے لیے تیار ہے — تصویر امجد علی سحاب
شفتالو کی پیداوار حاصل کرنے کے لیے تیار ہے — تصویر امجد علی سحاب

خریدار پھل کو جانچ رہا ہے — تصویر امجد علی سحاب
خریدار پھل کو جانچ رہا ہے — تصویر امجد علی سحاب

ششم نمبر میں تین اقسام زیادہ مشہور ہیں۔ پہلی قسم کو یہاں مقامی طور پر 'آمے شفتالو' کہتے ہیں۔ اس کی شکل آم کی سی ہوتی ہے۔ دوسری قسم کی شکل لمبوتری سی ہوتی ہے اور تیسری قسم کو 'سہانی' کہتے ہیں جو مقامی طور پر سب سے میٹھا اور پسند کیا جانے والا شفتالو ہے۔ اس کا رنگ بھی بڑا ہی دلکش ہوتا ہے۔

ششم نمبر کی تمام اقسام شاخوں سے اترنے کے بعد 'ہفتم نمبر' کی باری آتی ہے۔ اس کا رنگ گلابی ہوتا ہے اور اسے مقامی طور پر 'سپین پخے' بھی کہتے ہیں۔ مٹھاس کی وجہ سے اسے بھی بے حد پسند کیا جاتا ہے۔ مقامی زمیندار سہانی اور سپین پخے دونوں کی پیداوار کو باقی تمام نمبروں کے مقابلے میں میٹھی اور پسندیدہ گردانتے ہیں۔

ہفتم نمبر یا سپین پخے کی دل لبھانے والی بات یہ ہوتی ہے کہ اس کے ایک دانے کے دو مختلف رنگ ہوتے ہیں۔ پھل کا ایک رخ گہرا گلابی رنگ لیے ہوئے ہوتا ہے جبکہ دوسرا ہلکا زرد۔ دونوں رخوں کا حسین امتزاج من کو بہت بھاتا ہے۔

سب سے آخری نمبر 'ہشتم' کہلاتا ہے، جس کی پیداوار اگست کے آخر تک حاصل کی جاسکتی ہے۔ یوں سوات کے معتدل موسم میں مئی سے لے کر اگست کے آخر تک شفتالو کی پیداوار ہر دس بارہ دن کے وقفے کے ساتھ حاصل کی جاتی ہے۔

اس کے علاوہ سوات کے دور افتادہ درے جو نسبتاً زیادہ سرد علاقے تصور کیے جاتے ہیں وہاں ستمبر کے آخر تک شفتالو کے باغات سے پیداوار حاصل کی جاسکتی ہے، مگر سردی زیادہ ہونے کی وجہ سے مذکورہ شفتالو کا مزہ کچھ خاص نہیں ہوتا اور شاید اس لیے وہاں آڑو کی پیداوار کو ناکام بھی تصور کیا جاتا ہے۔

مئی تا اگست چار مہینوں میں سوات میں آڑو کے باغات سے وابستہ کاروبار عروج پر پہنچ جاتا ہے۔ زمین دار اور منڈی والوں کے علاوہ عام مزدور بھی کافی مصروف رہتے ہیں۔ ان میں سے درخت سے پھل اتارنے والا مزدور یومیہ پانچ سو روپے کے عوض کام کرتا ہے جسے یہاں عام طور پر 'شوک مار' کہتے ہیں۔

شوک مار درخت سے پھل اتارنے میں مصروف ہے — تصویر امجد علی سحاب
شوک مار درخت سے پھل اتارنے میں مصروف ہے — تصویر امجد علی سحاب

کریٹ ساز اپنے کام میں مصروف ہے — تصویر امجد علی سحاب
کریٹ ساز اپنے کام میں مصروف ہے — تصویر امجد علی سحاب

شوک مار ایک بڑا تھیلا کاندھے سے لٹکا کر درخت پر چڑھ کر تیار شدہ پھل اتارتا ہے۔ اگر درخت کی شاخیں مضبوط ہوں تو ہی شوک مار ان پر چڑھنے کی کوشش کرتا ہے۔ کمزور شاخوں پر یہاں مقامی طور پر بانسوں سے تیار کردہ سیڑھی کی مدد سے چڑھا جاتا ہے۔

اس کے بعد کریٹ ساز کی باری آتی ہے۔ کریٹ ساز کا کام اتارے گئے پھلوں کو گتے کے کارٹن یا کریٹ میں سجانا ہوتا ہے۔ ہر کوئی کریٹ ساز نہیں بن سکتا۔ اس کے لیے تجربے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک ماہر کریٹ ساز کمزور سے کمزور پھل کو بھی بہترین طریقے سے سجا کر منڈی میں اچھے داموں فروخت کرسکتا ہے۔

وہ عموماً کمزور پھل نیچے اور اچھا پھل اوپر کی قطار میں بڑی مہارت کے ساتھ سجاتا ہے۔ کریٹ ساز سات سو روپیہ یومیہ کے عوض کام کرتا ہے، یعنی درخت سے پھل اتارنے والے سے بھی زیادہ۔ بڑے زمین دار اپنے لیے ماہر کریٹ سازوں کو تنخواہ کے عوض بھی ساتھ رکھتے ہیں۔ یہ تنخواہ پندرہ تا بیس ہزار روپیہ ماہانہ ہوتی ہے۔

تنخواہ میں فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اس میں کریٹ ساز ماہانہ چار چھٹیاں بھی کرسکتے ہیں۔ جبکہ سات سو روپیہ یومیہ کے عوض کام کرنے والوں کو چھٹی کے روز پیسے نہیں ملتے۔ ماہر کریٹ ساز کو بسا اوقات سال کے اول میں پوری تنخواہ یکمشت ادا کی جاتی ہے، تاکہ کوئی اور اس کی خدمات حاصل نہ کرسکے۔

کریٹ ساز عموماً اچھے دانے اوپر سجاتا ہے — تصویر امجد علی سحاب
کریٹ ساز عموماً اچھے دانے اوپر سجاتا ہے — تصویر امجد علی سحاب

کریٹ پر لکھا جارہا ہے کہ شفتالو کون سے نمبر کا ہے — تصویر امجد علی سحاب
کریٹ پر لکھا جارہا ہے کہ شفتالو کون سے نمبر کا ہے — تصویر امجد علی سحاب

عموماً درخت سے پھل اتارنے اور کریٹوں کو بھرنے کا عمل پو پھٹتے ہی شروع ہوجاتا ہے، کیونکہ شفتالو کی عمر بہت کم ہوتی ہے۔ کریٹ کے اندر پڑے پڑے اگر اسے دو روز بھی گزر گئے تو پھل سے پانی رسنا شروع ہوجاتا ہے اور یوں پھل خراب ہوجاتا ہے جس کی پھر منڈی میں کوئی قدر نہیں رہتی۔

بہترین شفتالو سوات کے علاقوں شکردرہ اور شیر پلم میں پیدا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ پارڑئی، ڈڈھرہ، خریڑئی، بیدرہ، شانگواٹئی، بیاکن، نیلا گرام، رونیال اورٹیکدارئی بھی شفتالو کی بہترین پیداوار کے لیے مشہور علاقے ہیں۔ شفتالو کی اچھی پیداوار کا دارومدار پودوں کی دیکھ بھال پر بھی منحصر ہے۔ جو زمیندار اپنے باغ کا زیادہ خیال رکھتا ہے، اسے اچھا پھل ملتا ہے۔

سوات میں شفتالو کا سب سے بڑا باغ موضع شانگواٹئی میں جنگلی باغ کے نام سے مشہور ہے۔ روڈ کے دونوں جانب یہ باغ آٹھ سو کینال پر مشتمل ہے۔ شفتالو کے علاوہ اس میں بڑے پیمانے پر سیب، خوبانی، آلوچہ اور جاپانی پھل وغیرہ کے درخت بھی پائے جاتے ہیں۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق مالکان کو اس باغ سے سالانہ سوا کروڑ روپے تک کی آمدن ہوتی ہے جبکہ باغبان آگے جا کر اس کا پھل مختلف منڈیوں تک پہنچانے کے بعد آٹھ سے لے کر دس کروڑ روپیہ باآسانی کما لیتا ہے۔

تیاری کے بعد چھوٹی چھوٹی رنگ برنگی جھنڈیوں سے کریٹ کو سجایا جاتا ہے— تصویر امجد علی سحاب
تیاری کے بعد چھوٹی چھوٹی رنگ برنگی جھنڈیوں سے کریٹ کو سجایا جاتا ہے— تصویر امجد علی سحاب

کریٹ تیار ہے— تصویر امجد علی سحاب
کریٹ تیار ہے— تصویر امجد علی سحاب

سوات کا شفتالو ملک کے تقریباً سبھی منڈیوں تک پہنچتا ہے۔ شفتالو کے مختلف نمبروں کی مختلف عمریں ہیں۔ ششم نمبر کی عمر سب سے کم یعنی چوبیس تا تیس گھنٹے ہے۔ یہ بمشکل لوکل منڈیوں تک پہنچتا ہے۔ دوم اور ہشتم نمبر شفتالو کی عمر سب سے زیادہ یعنی پانچ تا چھ روز ہے۔ مذکورہ دونوں نمبروں کو کراچی کی آخری منڈی تک باآسانی پہنچایا جاسکتا ہے، یہاں تک کہ اسے بیرونی ممالک بھی برآمد کیا جاسکتا ہے۔ چہارم اور ساڑھے چار نمبر شفتالو کی عمر بھی زیادہ ہے۔ اسے کراچی کے علاوہ بطور خاص لاہور، سیالکوٹ اور گجرانوالا کی منڈیوں تک پہنچایا جاتا ہے۔

یورپ اور خاص طور پر خلیجی ممالک میں سوات کے شفتالو کی بڑی مانگ ہے۔ برآمد کرتے وقت لوکل پیکنگ ضایع کرکے شفتالو کی خاص پیکنگ کی جاتی ہے۔

زمیندار شوک مار اور کریٹ ساز سے لے کر ڈرائیور تک سب کو بہترین خدمات انجام دینے پر انعامات سے بھی نوازتے ہیں۔ یہ انعامات کبھی نقد، تو کبھی پھلوں کے کریٹ یا کارٹن کی شکل میں ہوتے ہیں۔ وہ ڈرائیور جو اپنی گاڑی کو سوات سے پندرہ گھنٹوں میں لاہور پہنچا دیتا ہے،اسے پانچ سو روپیہ بطور انعام دیا جاتا ہے۔


امجد علی سحاب فری لانس صحافی ہیں اور تاریخ و تاریخی مقامات میں دلچسپی رکھتے ہیں۔