اسلام آباد: پولیس نے مری میں شادی سے انکار پر مبینہ طور پر زندہ جلائی جانے والی 19 سالہ اسکول ٹیچر کی ہلاکت کے واقعے کو خود سوزی قرار دے دیا۔

فرانسیسی خبر رساں ایجنسی ’اے ایف پی‘ کے مطابق چند ماہ قبل اسکول ٹیچر ماریہ صداقت کو شادی سے انکار پر تشدد کا نشانہ بنانے اور پھر زندہ جلانے کی خبر قومی کے ساتھ بین الاقوامی میڈیا میں بھی شہ سرخیوں کا حصہ بنی تھی۔

ماریہ صداقت کو مئی کے آخر میں چند افراد نے مبینہ طور پر حملہ کرکے جلایا تھا، جس کے چند روز بعد وہ دوران علاج ہسپتال میں دم تور گئی تھیں۔

یہ بھی پڑھیں: مری میں اسکول ٹیچر کو آگ لگا دی گئی

اس وقت پولیس کا کہنا تھا ماریہ نے دم توڑنے سے قبل بیان میں، مبینہ حملہ آوروں میں اس سے شادی کے خواہش مند شخص کے علاوہ اپنے والد کا بھی نام لیا تھا۔

لیکن جمعہ (آج) کو پولیس نے دعویٰ کیا کہ ماریہ صداقت اور اس شخص کے درمیان سالوں سے تعلق تھا اور دونوں میں ہزاروں میسیجز کا تبادلہ ہوا، جن میں ماریہ نے اس شخص سے شادی کی التجا کی تھی۔

حکام نے کہا ان پیغامات میں ماریہ نے یہ بھی دھمکی دی تھی اگر اس شخص نے اس سے شادہ نہ کی تو اس کی خودکشی کا ذمہ دار وہی ہوگا۔

پولیس کے مطابق ماریہ کو جلانے کے لیے پیٹرول کا استعمال کیا گیا، جو اس کے والد کی ورکشاپ سے ہی لیا گیا تھا اور ایسا کوئی فرانزک ثبوت نہیں ملا جس سے اس دعوے کی تصدیق ہوتی ہو کہ ماریہ پر حملہ کیا گیا۔

مزید پڑھیں: مری میں زندہ جلائی گئی اسکول ٹیچر دم توڑ گئیں

کیس کی تفتیش کے سربراہ ابوبکر خدا بخش نے پولیس رپورٹ کی تصدیق کی۔

لیکن دوسری جانب ماریہ کے والد نے پولیس پر تفتیشی رپورٹ میں تبدیلی کا الزام لگایا ہے۔

صداقت حسین نے ’اے ایف پی‘ کو بتایا کہ یہ انتہائی پریشان کن اور افسوسناک بات ہے کہ پولیس حقائق تبدیل کرکے تفتیش ملزمان کے حق میں کر رہی ہے، ہم غریب ہیں اس لیے ہم کچھ کر بھی نہیں سکتے۔

معروف سماجی کارکن اور وکیل عاصمہ جہانگیر نے بھی، جنہوں نے واقعے کی تفتیش کے لیے کمیٹی تشکیل دی تھی، پولیس کی رپورٹ کو مسترد کردیا۔

یہ بھی پڑھیں: جرگے کا فیصلہ:16سالہ لڑکی قتل کے بعد جلادی گئی

ان کا کہنا تھا کہ کی کیس بظاہر خودکشی کا نہیں لگتا، کیونکہ لڑکی کے ہاتھ جلے ہوئے نہیں تھے۔

انہوں نے کہا کہ اگر لڑکی کو خودکشی ہی کرنی ہوتی تو وہ زہر کھا کر یا خود کو گولی مار کر بھی خودکشی کرسکتی تھی، اسے خودسوزی کرکے اپنے آپ کو اتنی تکلیف میں ڈالنے کی کیا ضرورت تھی، جبکہ لڑکی کا موت سے قبل کا بیان بھی موجود ہے۔

انہوں نے حکومت سے واقعے کی دوبارہ تفتیش کا مطالبہ کیا۔


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

تبصرے (0) بند ہیں