جلال چانڈیو: ایک صدی پر راج کرنے والا فنکار

اپ ڈیٹ 14 جولائ 2016
اندازے کے مطابق ان کے دس ہزار میوزک البم مارکیٹ میں آئے، ایک البم میں اگر چھ گیت بھی ہوں تو ان کی تعداد 60 ہزار بنتی ہے — ای ایم آئی
اندازے کے مطابق ان کے دس ہزار میوزک البم مارکیٹ میں آئے، ایک البم میں اگر چھ گیت بھی ہوں تو ان کی تعداد 60 ہزار بنتی ہے — ای ایم آئی
آج بھی زیادہ تر ٹرکوں کے پیچھے جلال چانڈیو کی تصویر نظر آتی ہے۔ — فوٹو محمد حسن خان۔
آج بھی زیادہ تر ٹرکوں کے پیچھے جلال چانڈیو کی تصویر نظر آتی ہے۔ — فوٹو محمد حسن خان۔

اپنے استاد سے موسیقی سیکھنے کے بعد انہوں نے یکتارہ اور کھرتل (کھڑ تال) لے کر جب میلوں کا رخ کیا تو کئی رکاوٹیں اور چیلنج ان کے سامنے تھے، اور کیوں نہ ہوتے، سندھ میں استاد گھرانوں اور گویوں کا بڑا نام تھا، سندھی راگ کے امام استاد منظور علی خان، استاد مٹھو کچھی، استاد جمن، استاد ابراہیم، پھر ان سب کے شاگرد یا شاگردوں کے شاگرد بھی موسیقی کے میدان میں تھے۔

اسی زمانے میں ڈھول فقیر، فقیر امیر بخش، یار علی فقیر اور فقیر عبدالغفور صوفیانہ رنگ میں رنگے ہوئے تھے اور ان سب کے ہاتھوں میں بھی وہی یکتارے تھے۔ سندھ کے میلے اور محفلیں ان فنکاروں کے سوائے ادھوری تھیں۔

شادیوں میں قصے گو فنکار کارو مگنہار، خان محمد شیخ، قاسم اوٹھو اور کئی محفلوں کے مور چھائے ہوئے تھے۔

ریڈیو، تھیٹر اور کیسٹ کی دنیا میں میڈم نور جہاں، عنایت حسین بھٹی، عالم لوہار اور پھر عطااللہ عیسیٰ خیلوی کی دھوم مچی ہوئی تھی۔ ان تمام بڑے گویوں، فنکاروں اور سریلی آوازوں میں اپنا نام پیدا کرنا آسان تو نہیں تھا۔

مگر انہوں نے کبھی ہمت نہیں ہاری اور پھر تمام رکاوٹوں کو پار کر کے اپنے نام کا ایسا لوہا منوایا کہ آج بھی پورے ملک میں جلال چانڈیو کی اپنی ایک منفرد پہچان ہے، اس فنکار نے عوام میں جتنی پذیرائی حاصل کی، مقبولیت کی اس معراج کو آج تک کوئی فنکار نہیں پہنچ پایا۔

وہ مویشیوں کے درمیان پلے بڑھے تھے، ہوش سنبھلتے ہی والد نے مویشیوں کی نگرانی اور نگہبانی کا کام ان کے سپرد کر دیا اور وہ جانوروں کے گلے میں بندھی گھنٹیاں یا چڑے سنتے ہوئے بڑے ہوئے۔

چڑے کی آواز کو لطیف سرکار نے بھی گایا ہے، وہ سوہنی کے ذریعے کہتے ہیں کہ

’’چڑے کی آواز سن کر مرے تن من میں بے چینی پیدا ہو جاتی ہے‘‘

چڑوں کی فطری موسیقی میں پلے بڑھے بچے کو راگ کا تھوڑا بہت فن کا پتہ تو ہونا ہی تھا لیکن کافی عرصے تک انہیں فنکارانہ حیثیت دینے سے انکار کیا جاتا رہا۔

ان کے کانوں میں دوسری آواز ریڈیو سے نشر ہونے والے سریلے نغموں، گیتوں اور غزلوں کی پڑی۔ ان کے والد نے انہیں درزی بنانا چاہا تھا۔

درزی کی دکان پر اس کی پہلی نظر سلائی مشین، سوئی دھاگے یا قینچی پر تو شاید نہیں پڑی، لیکن سریلی آوازیں پیدا کرتا ریڈیو ان کے من کو بھا گیا اور درزی کا یہ شاگرد ریڈیو کے گیتوں اور نغموں میں ایسا گم ہوا کہ شکایت والد صاحب تک جا پہنچی۔

یہ تو سچ ہے کہ کچھ ناکامیاں بڑی کامیابی اور ناموری کا پیش خیمہ ہوتی ہیں، نوشہرو فیروز کے چھوٹے شھر پُھل کے قریبی گاؤں میں فیض محمد چانڈیو کے گھر جنم لینے والے بچے نے چرواہا یا درزی تو بننا ہی نہیں تھا، اس کے اندر عشق کا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا تھا اور وہ اس کے اظہار کے لیے تب تک بے چین رہا جب تک اس کی ملاقات استاد علی گل مہر سے نہیں ہوئی تھی۔ وہ موسیقی میں ان کا پہلا اور آخری استاد تھا، استاد نے انہیں گانا سکھایا اور پھر ایک ہاتھ میں یکتارا اور دوسرے میں کھرتل تھما دی۔

علی گل مہر نے ایسے شاگرد کو موسیقی کی تربیت دی تھی جس کے گھرانے میں کوئی فنکار نہیں تھا، دادا، والد نہ چچا نہ بھائی۔ بس ایک ماموں بخشن تھا جس کے لیے گاؤں اورآس پاس کے لوگ کہتے تھے کہ اس کی آواز اونچی ہوا کرتی تھی، جلال نے خود بھی وہ ماموں نہیں دیکھا تھا۔

اونچی آواز فن موسیقی میں پہلی سیڑھی کی مانند ہے۔ بڑے استاد تو اونچی آواز والے شاگردوں کو ہاتھوں ہاتھ لے لیتے تھے، اب تو ایکو ساؤنڈ نے فنکاروں کو اونچی آواز، سر، راگ، ریاض اور محنت سے بچا لیا ہے۔

استاد علی گل مہر ماتھیلو والے سے دھاگا بندھوانے کے بعد جلال چانڈیو نے میلوں ٹھیلوں کا رخ کیا، جہاں وہ یکتارا اور کھرتل اٹھائے اپنی باری کا انتظار کرتے رہتے۔ کبھی انہیں باری ملتی تو کبھی کہیں سے ایسے ہی مایوس ہو کر لوٹنا پڑتا۔ لیکن جب کبھی انہیں باری مل جاتی تو ایک کے بعد ایک فرمائشیں آنے لگتیں۔

وہ خود ہی اپنے انٹرویو میں کہتے تھے کہ ’’جہاں دوسرے فنکار ایک ایک کلام گاتے تھے وہاں میں دو تین گاتا تھا۔‘‘

اس دہائی میں ’’زلف دا کنڈل کھلے نا‘‘، ’’چن میرے مکھنا‘‘ اور عالم لوہار کی جگنی سے لے کر میڈیم نور جہاں کے جانجھر دی پاوان جھنکار، تیرے نال ملایاں اکھیاں، وی ایک تیرا پیار میں نو ملیا جیسے پنجابی اور اردو نغمے، گیت، گانوں اور دو گانوں کا رواج تھا۔

جلال نے شروع میں تو صوفیانہ کلام گائے لیکن جیسے جسیے ان کی ڈمانڈ بڑھتی گئی انہوں نے ایک ایک کر لتا منگیشکر، نورجہاں، زبیدہ خانم، محمد رفیع، عنایت بھٹی سمیت اس دور کے تمام مشہور فنکاروں کی دھنوں کو نقل کیا۔

جلال کی آخری نقل شاید لتا کا گایا ہوا گیت دیدی تیرا دیور دیوانہ ہے۔ وہ نقل عقل سے کیا کرتے تھے۔ انہوں نے نقل کی ہوئی کسی دھن کو کبھی اپنے کھاتے میں نہیں ڈالا، وہ ہر گانے کے آخر میں اصلی گانے کا مکھڑا بھی گا کر یہ سمجھا دیتا تھا کہ میں کس گانے کی کٹ گا رہا ہوں۔

عوامی مقبولیت کا اور کیا پیمانہ ہو سکتا ہے کہ کسی فنکار کو ملک کی تمام شاہراہوں پر سنا جائے۔ سپر ہائی وے اور نیشنل ہائی وے سے لے کر جی ٹی روڈ تک ٹرک، ٹرالر، بسوں اور ویگنوں میں ہی نہیں بلکہ شہروں اور شاہراہوں کے بڑے ہوٹلوں اور ریستورانوں سے لے کر دیہاتوں کے چھپرا ہوٹلوں اور پان کے کھوکھوں تک جلال ہی جلال چھایا رہتا تھا۔

لوگ جلال چانڈیو سے تاریخ لے کر شادی کرواتے تھے تاکہ اس محفل کو فنکار خود آکر چار چاند لگائے۔ جلال چانڈیو کی محفلوں میں عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر ہوتا تھا اور لوگوں کو سنبھالنا مشکل بن جاتا تھا۔

جن کو دعوت نہیں ہوتی تھی وہ گھر سے کھانا کھا کر جلال چانڈیو کو سننے جاتے تھے۔ جلال سے لوگوں کی محبتوں کی لازوال کہانیاں ہیں، شادیوں میں دولہے کو تو نئے کرارے نوٹوں کے ہار تو پہنائے ہی جاتے تھے، لیکن شریک محفل دوسرا ہار جلال کے گلے میں ڈالتے تھے۔ کوئی اجرک، کوئی ٹوپی اور کوئی جھپی ڈال کر محبت کا اظہار کرتا تھا۔

ڈیرا غازی خان کے پینٹر اور ٹرک باڈی میکر ظہور احمد شاید پاکستان کے واحد پینٹر تھے جن کے پاس پورے ملک سے ٹرک ڈرائیور آتے تھے۔ اس پینٹر نے ٹرکوں کے پیچھے زیادہ تر یا تو جنرل ایوب خان اور ذوالفقار بھٹو کی تصاویر بنائی تھیں یا پھر جلال چانڈیو کی۔

ٹرک کے پیچھے پینٹ کی ہوئی جلال چانڈیو کی تصویر — فوٹو محمد حسن خان۔
ٹرک کے پیچھے پینٹ کی ہوئی جلال چانڈیو کی تصویر — فوٹو محمد حسن خان۔

جلال صرف فنکار نہیں بلکہ ایک اسٹائل کا نام بن گیا تھا، چوڑی چھاتی، لمبے قد والے جلال نے سندھی ٹوپی پیشانی پر رکھی تو وہ بھی منفرد اسٹائل بن گیا۔ جلال نے راڈو گھڑی کیا پہنی تو وڈیرے، خانزادے اور سردار تو اپنی جگہ، پولیس افسران اور ڈاکو بھی راڈو پہننے لگے۔

اس کے بعد تو ڈاکو مغویوں کی رہائی کے لیے تاوان میں بھی راڈو گھڑیوں کا مطالبہ کرتے تھے۔ گلے میں سونے کی زنجیر، انگلیوں میں دو تین انگھوٹیاں، سندھ میں آج بھی کئی جگہوں پر جلال کا اسٹائل چلتا ہے۔

جلال چانڈیو کی آواز کے زور پر ڈھائی دہائیوں میں کئی نئی رکارڈنگ کمپنیاں اور کیسٹوں کی سینکڑوں دکانیں کھلیں۔ ایسا بھی ہوا کہ کمپنیوں نے کسی شادی یا نجی محفل میں جلال کے گائے ہوئے نغموں کو چوری کر کے نیا البم ترتیب دے کر مارکیٹ میں متعارف کروا دیا۔

جلال چانڈیو سندھی زبان کے وہ واحد فنکار ہیں جنہوں نے سب سے زیادہ گانے گائے، انہوں نے نہ صرف سندھی بلکہ سرائیکی، بلوچی اور اردو میں بھی گایا۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق ان کے دس ہزار میوزک البم مارکیٹ میں آئے، ایک البم میں اگر چھ گیت بھی ہوں تو ان کے گائے گئے گانوں کی تعداد 60 ہزار بنتی ہے۔ کیا کوئی اعتبار کر سکتا ہے کہ جلال چانڈیو نے نہ کسی مکتب کا منہ دیکھا، نہ ایک دن کے لیے بھی کسی اسکول میں گئے؟

پھر بھی انہوں نے سب گیت بر زبان یاد کیے اور پھر گائے، جس میں ان کے سازندوں کا کردار ہوا کرتا تھا۔ لیکن ساٹھ ہزار گانوں کے ساتھ دو ہیڑے، بیت، اور پھر فرمائشی ناموں کو یاد کرنا بھی تو آسان نہیں۔

جلال چانڈیو کو خود بھی معلوم تھا کہ وہ اپنے دور کے سب سے زیادہ متنازع فنکار تھے۔ ان پر سب سے بڑا الزام یہ تھا کہ وہ فحش شاعری گاتے ہیں اور ان کا ہر گانا عشق سے شروع ہو کر عشق پر ختم ہوتا ہے، یا یہ کہ وہ نامناسب انداز سے محبوب کو متعارف کرواتے ہیں۔

وہ محبوب کی تشریح عوامی زبان میں کرتے تھے جس میں کوئی رکھ رکھاؤ نہیں تھا۔ عشق کا دفاع تو انہوں نے عمر بھر کیا اور اکثر اپنی محفلوں میں کہا کرتے تھے کہ ’’کون سا انسان ہے جسے عشق نہیں ہوا، اگر کسی کو عشق نہیں تو وہ انسان بھی نہیں‘‘۔

بلکہ ایک محفل میں انہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ ’’میرے پاس گاؤں میں مالک کا دیا سب کچھ ہے، بس عشق نے بھکاری بنا دیا ہے۔''

جہاں تک شاعری کا تعلق ہے تو انہوں نے صرف عام فہم، سادہ زبان اور جلدی سمجھ میں آنے والی شاعری نہیں گائی بلکہ بڑے شاعروں کو بھی گایا۔

شاھ لطیف، سچل سرمست، مصری شاھ، مہدی سائیں، جانن چن، بڈھل فقیر، منٹھار فقیر، اعجاز سائیں سے لے کر راضی فقیر اور فقیر محمد کھٹیان تک انہوں نے ان تمام صوفیا کرام کی شاعری گائی۔

انہوں نے جھڈو کے غریب شاعر نیاز پتافی، افضل سولنگی، انور قمبرانی، زخمی چانڈیو کو بھی گایا تو استاد بخاری، شیخ ایاز اور راشد مورائی کو بھی گایا۔

جلال سندھ کے وہ فنکار تھے جنہوں نے کئی شاعروں کو پہچان دی اور کئی شاعر منتیں کرتے تھے کہ ان کا کلام ضرور گایا جائے۔ جلال کی عوام میں پذیرائی اور مقبولیت کا رکارڈ کوئی فنکار نہیں توڑ سکتا لیکن انہوں نے کبھی اس پر غرور نہیں کیا تھا۔ انہیں ایک میلے میں سندھ کے مشہور گلوکار استاد منظور علی خان نے منہ پر کہا تھا کہ ’’جلال میں کچھ نہیں بس اس کی قسمت کو سلام ہے۔‘‘

جلال وہ بات اپنے ایک آڈیو انٹرویو میں بڑے فخر سے بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ "استاد منظور علی خان اتنا بڑا فنکار تھا کہ میں اس کے سامنے بات کرنے کے لائق بھی نہیں، مجھے جب اس نے یہ بات کہی تو میں نے کہا کہ استاد میرے لیے دعا کرنا۔''

یہ ان کی مقبولیت تھی کہ فلم ڈائریکٹر اسد شاہ نے جلال چانڈیو کی زندگی میں ہی ان پر فلم بنا ڈالی اور اس میں جلال نے خود اپنا کردار ادا کیا۔ یہ بات الگ ہے اس عاشق دیوانے کے ہاتھ میں بھی ڈائریکٹر نے کلاشنکوف تھما دی تھی، لیکن اس فلم پر بھی کھڑکی توڑ رش رہا اور کافی مقبول فلم ثابت ہوئی۔

جلال چانڈیو پر بننے والی فلم کا پوسٹر — فائل فوٹو
جلال چانڈیو پر بننے والی فلم کا پوسٹر — فائل فوٹو

جلال چانڈیو کا یہ اسٹائل صرف مردوں تک محدود نہیں رہا، روبینہ حیدری اور تاج مستانی نے بھی یکتارے اور کھرتل پر گایا۔

اس کے بعد جس نے بھی یکتارے اور کھرتل پر گایا وہ جلال کا رنگ کہلوایا۔ عرس چانڈیو، گلشیر تیونو اور ارباب سولنگی تو جلال کے شاگرد ہیں لیکن نرم جلال، گرم جلال، صفا جلال، آخری جلال، جلال جوگی اور اس طرح سینکڑوں فنکار ہیں جو جلال کی شاگردی کی آڑ میں گاتے رہے ہیں اور گاتے چلے آ رہے ہیں۔

جلال نے مرتے ہوئے یکتارے ( جسے وہ لطیف کی تار کہتے تھے) میں جان ڈال کر سندھ میں نئے اور مقبول عوامی انداز کی ایسی ابتدا کی جو انداز صدیوں تک تابندہ رہے گا۔

کوئی کچھ بھی کہے لیکن مجھے پہلی جنوری 2000 کی روزنامہ کوشش اخبار کی ہیڈ لائن نہیں بھولتی جس میں لکھا گیا تھا کہ جلال چانڈیو پوری ایک صدی کے مقبول فنکار تھے۔

اس بات میں کوئی شک نہیں۔ ان کی مقبولیت کا سب سے بڑا ثبوت ان کے بعد آنے والوں کی جانب سے ان کا اسٹائل اپنانا ہے، اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔

تبصرے (8) بند ہیں

کلیم راجڑ Jul 14, 2016 02:20pm
،سندھ کے وکھری اسٹائل کے فنکار کو سلام عقیدت پیش کرتے ہیں بلاشبہ جلال چانڈیو نے اپنے منفرد انداز سے سندھ کے طول و عرض میں لوک گائیکی کو عروج تک پنہچایا۔
imran Jul 14, 2016 02:23pm
یہ مولابخش چانڈیو کے نانا ہیں!!!!
Hanif Samoon Jul 14, 2016 02:51pm
Really a wonderful blog on the giant Sindhi singer.
Akhtar Hafeez Jul 14, 2016 03:09pm
بہترین تحریر ہے۔ میرے خیال میں جلال چانڈیو پہ اس سے بہتر تحریر نہیں لکھی گئی۔ لکھاری نے نہ صرف جلال چانڈیو کو خراج تحسین پیش کیا ہے بلکہ انہوں نے سندھ میں موجودہ موسیقی کی تاریخ اور رجحانات کو بھی کھول کہ رکھ دیا ہے۔ زبردست۔۔۔۔
Yousif Jokhio Jul 14, 2016 08:48pm
Mashallah, Wonderful story
علی انور چانڈیو Jul 14, 2016 09:11pm
جلال چانڈیو نے سندھی صحافی منظور سولنگی کو دیے گئے اپنے انٹرویو میں کہا تھا کہ "سندھ کے لوگ صدیوں تک میرے احسانمند رہیں گے کہ میں نے نور جہاں اور عالم لوہار سے ان کی جان چھڑوائی . . ابراہیم کنبھر نے آج تو کمال کردیا . . مضمون بہت پسند آیا . . انور عزیز چانڈیو . .
jamal jalalani Jul 14, 2016 10:06pm
nice ibraim sahib thanks for revised my memories ,,,
ibrahim kumbhar Jul 14, 2016 11:37pm
@علی انور Shukria'