واشنگٹن: امریکا میں ری پبلکن پارٹی کی جانب سے جاری کیے گئے منشور کے مطابق صدر منتخب ہونے کی صورت میں ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ پاکستان کو حساس خطے (جنوبی ایشیاء) میں بحیثیت اتحادی اپنے ساتھ ساتھ رکھے گی۔

امریکی ریاست اوہائیو میں ہونے والے پارٹی کنونشن کا اختتام جمعرات 21 جولائی کو ہوا، اس موقع پر منشور جاری کرنے کے ساتھ ساتھ ڈونلڈ ٹرمپ کو رواں برس ہونے والے صدارتی انتخابات کے لیے باقاعدہ امیدوار نامزد کیا گیا۔

منشور میں کہا گیا کہ پاکستان کے ساتھ بہتر تعلقات امریکا کے لیے ضروری ہیں، کیونکہ وہ جنوبی ایشیاء میں امریکی منصوبہ بندی کے حوالے سے ایک اہم پوزیشن رکھتا ہے۔

58 صفحات پر مشتمل پارٹی منشور، جسے 'پارٹی پلیٹ فارم' کہا جاتا ہے، میں غیر متوقع طور پر پاکستان کے حوالے سے دوستانہ خیالات کا اظہار کیا گیا اور امریکا کے ساتھ اس کے تاریخی تعلقات کو تسلیم کیا گیا۔

مزید پڑھیں:ڈونلڈ ٹرمپ باضابطہ طور پر صدارتی امیدوار نامزد

منشور میں پاکستان کے ساتھ تعلقات برقرار رکھنے پر بھی زور دیا گیا۔

دستاویز میں پاکستان کے ساتھ قریبی تعلقات رکھنے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا گیا، 'خطے کو طالبان سے نجات دلانے اور ہاکستان کے جوہری ہتھیاروں کو محفوط بنانے کے حوالے سے پاکستان، افغانستان اور امریکا کے مفادات مشترکہ ہیں'۔

منشور میں پاکستان کے جوہری پیغام کے ذکر کو میڈیا رپورٹس میں امریکا کی جانب سے ان ہتھیاروں کی نگرانی کے حوالے سے ری پبلکن کی خواہش کے اشارے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

بعض رپورٹس میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا کہ ری پبلکنز پاکستان کے جوہری ہتھیاروں تک براہ راست امریکی رسائی چاہتے ہیں اور اگر اسلام آباد نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا، تو اس پر اُسی طرح کی پابندیاں عائد کردی جائیں گی، جیسی کہ فی الوقت ایران پر عائد ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:ڈونلڈ ٹرمپ کی فتح بڑا عالمی خطرہ: رپورٹ

تاہم جب ڈان نے ری پبلکنز کے صدارتی امیدوار کے ترجمان سے رابطہ کیا تو انھوں نے ان تمام قیاس آرائیوں کو غلط قرار دیا۔

ترجمان جے ڈی گورڈون کا کہنا تھا، 'پارٹی پلیٹ فام (منشور) میں استعمال کی گئی زبان کا مقصد پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کو محفوظ بنانا ہے'۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ 'اس کے علاوہ مزید باتیں بے بنیاد ہیں اور پاکستانی اور ہندوستانی میڈیا میں پارٹی پلیٹ فارم کے حوالے سے غلط رپورٹنگ کی جارہی ہے'۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ منشور کا مقصد مشترکہ مفاد جیسا کہ دہشت گردی اور انسداد منشیات کے لیے باہمی اعتماد اور تعاون کے ساتھ کام کرنا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:'ڈونلڈ ٹرمپ کی مہم سے امریکا کی ساکھ کو نقصان'

ری پبلکنز کے پارٹی پلیٹ فارم میں یہ بھی کہا گیا کہ مشرق وسطیٰ میں جاری تنازعات نے پاکستانیوں کے لیے سیکیورٹی چیلنجز پیدا کردیئے ہیں۔

منشور میں افغانستان کی سیکیورٹی صورتحال پر پاکستان کو مورد الزام ٹھہرانے سے بھی گریز کیا گیا اور اس کے بجائے کمانڈرز کے مشوروں پر عمل نہ کرنے کے حوالے سے امریکی انتظامیہ کی جانب اشارہ کیا گیا۔

اس میں پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کی سیکیورٹی کا تذکرہ جنوبی ایشیاء کی علاقائی سیکیورٹی کے حوالے سے کیا گیا۔

مزید پڑھیں:'امریکہ شکیل آفریدی کو بھول جائے'

منشور کے دوسرے حصے میں ڈاکٹر شکیل آفریدی کا بھی تذکرہ کیا گیا، جو القاعدہ سربراہ اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد سے پاکستان کی ایک جیل میں قید ہیں۔

منشور کے مطابق، ' پاکستان کے ساتھ تعلقات بڑھانے کا عمل اس وقت تک آگے نہیں بڑھ سکتا جب تک کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مدد کرنے والے کسی پاکستانی شہری کو سزا دی جائے'۔

ری پبلکنز چاہتے ہیں کہ پاکستان ڈاکٹر شکیل آفریدی کو رہا کردے اور اس حوالے سے امریکی کانگریس میں کئی قراردادیں بھی پیش کی جاچکی ہیں۔

منشور میں اوباما انتظامیہ کو پاکستان اور افغانستان سے دہشت گردی کے خاتمے میں ناکامی پر بھی مورد الزام ٹھہرایا گیا۔

یہ خبر 23 جولائی 2016 کے ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں