قندیل بلوچ اور ہمارے دوغلے رویے

اپ ڈیٹ 23 جولائ 2016
کوئی اسے گالیاں دیتا، کوئی فاحشہ قرار دیتا، تو کوئی اسے شرم کرنے اور راہِ راست پر آنے کے لمبے لمبے لیکچرز دیتا, لیکن ہر ویڈیو کے دیکھے جانے کی تعداد سینکڑوں ہزاروں میں ہوتی۔
کوئی اسے گالیاں دیتا، کوئی فاحشہ قرار دیتا، تو کوئی اسے شرم کرنے اور راہِ راست پر آنے کے لمبے لمبے لیکچرز دیتا, لیکن ہر ویڈیو کے دیکھے جانے کی تعداد سینکڑوں ہزاروں میں ہوتی۔

افسوس ہوتا ہے اس معاشرے کی پے در پے صورتحال کو دیکھ کر۔

قندیل بلوچ کے قتل پر لوگوں کی باتیں سن کر بڑی حیرانی ہوئی۔ سوشل میڈیا پر مختلف پیجز پر جب قندیل کے حوالے سے موجود خبروں کے نیچے لوگوں کے کمنٹس پڑھے، تو سینکڑوں تبصرے ایسے دکھائی دیے جن میں یا تو بھائی کو 'غیرت کے جوش مارنے' پر مبارکباد دی گئی تھی، یا پھر قندیل کے قتل کو اس کے اعمال کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے قتل کی مذمت کرنے سے اجتناب کیا گیا تھا۔

قندیل اپنی زندگی میں پہلے پہل کافی پراسرار شخصیت رہی، زیادہ تر لوگ نہیں جانتے تھے کہ وہ کون ہے، کیا کرتی ہے، کہاں رہتی ہے، مگر پھر بھی تھوڑے ہی عرصے میں اس نے بے تحاشہ مقبولیت حاصل کی اور فیس بک پر لاکھوں فالوورز اکٹھے کر لیے۔

اس کے پیج پر پوسٹ کی جانے والی تصاویر اور ویڈیوز کے نیچے ہزاروں مردوں کے کمنٹس آتے، جن میں سے کوئی اسے گالیاں دیتا، کوئی فاحشہ قرار دیتا، تو کوئی اسے شرم کرنے اور راہِ راست پر آنے کے لمبے لمبے لیکچرز دیتا, لیکن ہر ویڈیو کے دیکھے جانے کی تعداد سینکڑوں ہزاروں میں ہوتی، جبکہ لائکس اور شیئرز کا کوئی حساب کتاب ہی نہیں تھا۔

فیس بک کی جانب سے اس کی موت کے بعد اس کا پیج ڈیلیٹ کیے جانے تک اس کے پیج پر 8 لاکھ لائکس تھے۔

میری سمجھ سے یہ دوغلا رویہ باہر ہے۔

ایک طرف تو ہم سارا دن قدم بہ قدم طرح طرح کی چیزوں سے لطف اندوز ہوتے رہتے ہیں، لیکن جہاں ایسے حالات و واقعات سے ہمارا سامنا ہو تو ہمارے اندر کا سویا ہوا مسلمان فوراً جاگ جاتا ہے۔

سارا دن بیٹھ کر ہندوستان کو گالیاں دیتے رہتے ہیں، لیکن فلمیں اور گانے اسی انڈیا کے شوق سے دیکھتے اور سنتے ہیں۔ اگر کوئی اس جانب اشارہ کر دے تو فوراً بحث کرنے اور مرنے مارنے پر تل جائیں گے، لیکن کیا اس حقیقت سے انکار ممکن ہے کہ فلمیں اور گانے ہمیں سب سے زیادہ ہندوستان کے ہی پسند ہیں؟ کیا ہم میں سے کوئی ایک بھی ایسا ہے جسے سلمان، شاہ رخ، عامر، امیتابھ، کرینہ اور کترینہ کا کوئی ایک بھی گانا یا ایک بھی فلم نہ پسند ہو؟

ہمارا یہی دوہرا معیار اور ہماری یہی پسماندہ سوچ آنے والی نسلوں کو برباد کر رہی ہے۔ بہت عجیب لگا اچھی خاصی تعداد میں لوگوں کا ردعمل دیکھ کر جو غیرت کے نام پر قندیل بلوچ کے قتل کی تائید کر رہے تھے، یا اگر مذمت کر بھی رہے تھے تو اس کے ساتھ 'لیکن دیکھیں، لیکن یہ، مگر وہ' کے جیسے الفاظ بھی جوڑ رہے تھے تاکہ کسی بھی طرح قصور کو دونوں ہی جانب ڈال کر متوازن کیا جا سکے۔

قندیل کے فیس بک اکاؤنٹ پر شائع ہونے والی متنازع ویڈیوز سب سے زیادہ مرد حضرات ہی شوق سے دیکھتے تھے۔ اور جو لوگ کہتے تھے کہ قندیل کی تصاویر اور ویڈیوز انہیں قابلِ شرم محسوس ہوتی ہیں، تو انہیں چاہیے تھا کہ وہ ان پوسٹس کے نیچے معاشرے کے پارساؤں کے کمنٹس بھی پڑھ لیتے۔

قندیل کے قتل میں صرف اس کا بھائی نہیں بلکہ ہم سب ذمہ دار ہیں۔ ہم نے اور ہمارے میڈیا نے قندیل کی ذاتی زندگی کو بہت زیادہ ایکسپوز کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔

اس معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ کوئی عورت شوق سے غلط کام نہیں کرتی بلکہ یہ معاشرہ اور اس معاشرے میں موجود چند عناصر عورت کو مجبور کرتے ہیں ایسے کام کرنے پر، اس سے لذت اٹھاتے ہیں اور پھر موقع ملتے ہی بے جا تنقید کرتے ہیں، کیونکہ جلتی پر تیل چھڑکنا اور پھر اس پر ہاتھ سینکنا تو ہمارا کام ہے۔

میں ایک مرد ہوں اور میں یہ بات تسلیم کرتا ہوں کہ ہم مردوں نے ہی عورت کے لیے ہر قدم پر مشکلات کھڑی کر رکھی ہیں۔ عورت کسی پروفیشن سے تعلق رکھتی ہو تو وہاں اس کے لیے مشکلات، بازار میں ہو تو بری نظروں سے دیکھ دیکھ کے اس کے لیے مشکلات، کہیں اکیلے نظر آ جائے تو اس سے فائدہ اٹھانے کے لیے اور اس جیسے بہت سے مواقع کی تلاش میں ہم عورت کے لیے مشکلات کا باعث بنتے ہیں۔

اپنی بیٹیوں، بہنوں اور بیویوں کو یہ کہہ کر، کہ "زمانہ بہت خراب ہے"، سختی سے پردہ کروانے والے افراد کیا دوسروں کی بیٹیوں، بہنوں اور بیویوں کو دیکھ کر اپنی نظریں نیچی کرتے ہیں؟

یقیناً تمام افراد ایسے نہیں ہوں گے، لیکن ہمیں یہ بات ماننی پڑے گی کہ ہم میں سے اکثریت "آنکھیں ٹھنڈی کرنے" کے اس مرض میں گرفتار ہے۔ تو کیا پھر مرد ذات مجموعی طور پر خواتین کے لیے مشکلات پیدا کرنے کی ذمہ دار نہیں؟

غلط کام میں زیادہ تر مرد حضرات ہی ملوث ہیں۔ نامناسب محفلوں میں موجود عورتوں کو پیشہ ور، طوائف، جسم فروش، فاحشہ کہنے سب چل پڑتے ہیں، مگر ان عورتوں کا استعمال کیا مرد نہیں کرتے؟

ان محفلوں میں عورتیں مردوں کی وجہ سے ہی ہیں کیونکہ وہاں مرد ہی جاتا ہے اپنی حرام خواہشات کو پورا کرنے، تب کہاں مر جاتی ہے مرد کی غیرت؟

فرق صرف یہ ہے کہ مرد ہزار بے غیرتی کے کام کر کے بھی اس معاشرے میں سینہ چوڑا کر کے گھومتا ہے، لیکن وہی کام اگر عورت کرے تو ہمارے اندر فوراً غیرت اور اخلاقیات جاگ اٹھتی ہے۔

نہ جانے کیوں ہمارا یہ ضمیر اور غیرت اس وقت نہیں جاگتی جب اس معاشرے میں کسی عورت کے ساتھ نا انصافی ہو رہی ہو، اس وقت ہماری غیرت سوئی رہتی ہے جب دن دیہاڑے حوا کی بیٹی کی عزت پامال ہو رہی ہوتی ہے۔

جب تک ہم مرد اپنے رویے خود تبدیل نہیں کریں گے، ہمیں کوئی حق نہیں کہ ہم غیرت کے نام پر کسی کو قتل کریں یا کسی ایسے قتل کی تائید کریں اور اسے درست قرار دیں۔

تبصرے (1) بند ہیں

Inshah Jul 23, 2016 11:10pm
Those who are happy after her death must not forget that it is just the beginning of progression which has already shattered the basis of their honor. رکھا ہے آند ھیوں نے ہی ہم کو کشیدہ سر ھم وہ چراغ ہیں جنہیں نسبت ہوا سے ہے