احساسِ محرومی میں فیس بک کا کردار

اپ ڈیٹ 24 جولائ 2016
ایسا کیوں ہے کہ اگر ہمیں کسی پوسٹ پر اتنی تعداد میں لائکس موصول نہیں ہوں جس کی توقع ہوتی ہے، تو دل ٹوٹ جاتا ہے۔ — خاکہ بشکریہ سیدہ دانیہ
ایسا کیوں ہے کہ اگر ہمیں کسی پوسٹ پر اتنی تعداد میں لائکس موصول نہیں ہوں جس کی توقع ہوتی ہے، تو دل ٹوٹ جاتا ہے۔ — خاکہ بشکریہ سیدہ دانیہ

مجھے یاد ہے کہ جن لوگوں کے لیے میرا چہرہ حقیقی دنیا میں سانولا اور کم پرکشش تھا، انہوں نے جب سوشل میڈیا پر میری چھے فلٹرز کی مدد سے خوبصورت بنا کر پوسٹ کی گئی تصویر دیکھی تو اس پر تعریفوں کے پل باندھ دیے تھے۔

بلاشبہ تب میرے لیے چار سو 'فرینڈز' کی پذیرائی کسی بڑی کامیابی سے کم نہیں تھی مگر اب یہ سب کچھ بہت مصنوعی محسوس ہوتا ہے۔

کچھ ماہ قبل آن لائن میڈیا پر نوجوانوں اور ٹین ایجرز کو فیس بک سے ہونے والی پریشانی کی ڈھیر ساری رپورٹس گردش کر رہی تھیں۔

امریکن اکیڈمی آف پیڈیاٹرکس (اے اے پی) نے اپنی ایک رپورٹ میں اس بات کا تجزیہ کیا ہے کہ شدید نفسیاتی مسائل کا تعلق سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹس سے ہے اور اس میں یہ بھی کہا گیا کہ سوشل میڈیا کا کسی بھی شخص پر نفسیاتی و سماجی اثر پڑتا ہے کیونکہ ان سے ہمیں اپنی محرومیوں اور کمزوریوں کا احساس پیدا ہوتا ہے۔

مثلاً ایک شرمیلے قسم کا شخص سوشل میڈیا پر موجود کچھ ایسی تصاویر دیکھتا ہے جس میں کچھ دوستوں کا ایک گروپ سمندر کنارے یا کسی ریسٹورینٹ پر ساتھ بیٹھ کر وقت گزار رہا ہے، تو اسے یہ تصاویر دیکھ کر تکلیف ہو سکتی ہے۔ یا پھر ازدواجی طور پر مشکل حالات سے گزر رہا کوئی شخص خوش و خرم جوڑوں کی تصاویر دیکھے تو غمگین ہو سکتا ہے۔

برطانیہ سے تعلق رکھنے والی ماہرِ نفسیات بینش نفیس کے مطابق جو لوگ اپنا زیادہ تر وقت سوشل ویب سائیٹس پر گزارتے ہیں، ان میں اکیلے پن کے احساس کا شکار ہونے کا خطرہ زیادہ بڑھ جاتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ چونکہ فی الوقت 'سوشل میڈیا ڈپریشن' کی کوئی واضح یا باقاعدہ تعریف دستیاب نہیں ہے لیکن پھر بھی سوشل میڈیا پر اپنی شخصیت کا دوسروں سے موازنہ کرنے یا پھر سوشل میڈیا پر حاصل ہونے والے لائکس یا کمنٹس، جو کہ سوشل میڈیا پر موجودگی کے وقت ناگزیر ہیں، لوگوں میں اینگزائٹی اور احساس کمتری پیدا کرنے میں بہت بڑا کردار ادا کرتے ہیں۔

سوشل میڈیا پر لوگ تصاویر اور مختلف ذرائع سے ''دکھاوا'' کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو دوسرے کے لیے حسد اور احساسِ کمتری و محرومی کا باعث بنتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر موجود لوگ ایسی تصاویر دیکھ کر ایسا بھی محسوس کر سکتے ہیں کہ شاید ان کے علاوہ باقی تمام لوگ اپنی اپنی زندگیوں میں خوش اور مطمئن ہیں، جبکہ اکثر حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا۔

مزید دلچسپ مضامین


- دو بچوں کی 'خود کشی' کا ذمہ دار کون؟

- فیس بک بن سکتی ہے ڈپریشن کا باعث؟

- ڈپریشن اور 'ناشکرے پن' میں فرق

اس کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر ہمارے پوسٹ کردہ تصویر یا کسی بھی مواد پر ہمارے دوستوں کا جو ردِ عمل ملے، ہم خود کو ویسا ہی سمجھنے لگتے ہیں۔ مثلاً اگر ہمیں اپنی کسی پوسٹ پر اتنی تعداد میں لائکس موصول نہیں ہوئے ہوتے جس کی توقع ہوتی ہے، تو دل ٹوٹ جاتا ہے؛ اگر کسی کی ایک تصویر پر مناسب لائکس نہیں ملتے تو اس شخص کی خود اعتمادی کو ٹھیس پہنچ سکتی ہے۔

گو کہ اس بارے میں مزید تحقیق ہونی باقی ہے مگر یہ بحث ضرور چھڑی ہوئی ہے کہ آیا سوشل میڈیا ڈپریشن کا باعث بنتا ہے یا ڈپریشن کے احساسات رکھنے والے لوگ ہی خود سوشل میڈیا کی جانب راٖغب ہو جاتے ہیں۔

بہرحال اس بات کا آخری فیصلہ کب آئے، لیکن تب تک یہ بات ضروری ہے کہ ہم سوشل میڈیا پر ذمہ داری کا مظاہرہ کریں خاص طور پر بچوں کے معاملے میں جو آزادی سے آن لائن بیٹھے ہوتے ہیں۔

والدین کو لازماً اپنے بچوں سے مسلسل رابطے میں رہنا چاہیے، بچوں کی آن لائن عادات سے واقف رہیں، سوشل میڈیا کے استعمال کے اصول ترتیب دیں، اور سب سے ضروری ان کے سامنے بہتر سے بہتر مثال دے کر سمجھائیں۔ مثلاً انہیں ایسے سمجھائیں کہ: اگر کوئی شخص کسی بھی جگہ جاتا ہے اور مسلسل 'چیک ان' پوسٹ کرتا ہے یا پھر کھانے سے پہلے کھانوں کی تصاویر کھینچ انہیں سوشل میڈیا پر پوسٹ کرتا ہے تو اس طرح وہ دکھاوا کرنے کے چکر میں اس جگہ اور اس لمحے سے لطف انداز ہونے کا موقع کھو بیٹھتا ہے۔

آپ کے اور میری طرح کے بالغ لوگوں کے لیے سوشل میڈیا کی وجہ سے ہونے والی غمگینی اور اس کے نقصانات سے بچنے کے حوالے سے دو آسان اصول مدد گار ثابت ہوسکتے ہیں۔

1: خود کو سکون پہنچانے کے لیے آن لائن دنیا سے وقفہ لینے کی کوشش کریں: اگر پر مسلسل اپنے فون، ٹیبلٹ، لیپ ٹاپ کا استعمال کر رہے ہیں تو اب یہ وقت ہے کہ آپ ان سب ڈیواسز کو ایک جگہ رکھ کر ایک وقفہ لیں اور کوئی دوسری سرگرمی کریں جیسے کوئی کتاب پڑھنا یا اخبار پڑھنا۔

کسی جسمانی سرگرمی میں خود کو مصروف کردیں جیسے ٹیبل ٹینس جس کے لیے آپ کو بڑی جگہ کی ضرورت نہیں پڑے گی اور نہ ہی زیادہ ساز و سامان درکار ہوں گے۔ اور اگر اب واقعی سماجی رابطے رکھنا چاہتے ہیں تو لوگوں سے حقیقی دنیا میں حقیقی طور پر باتیں کریں۔

2: لوگ جو بھی باتیں کہتے ہیں، انہیں خود پر مسلط کرنے کی کوشش نہ کریں: آپ کی سیلفی پر ایک 'لائک' سے آپ ان لوگوں کے لیے زیادہ پیارے نہیں ہو جائیں گے جو حقیقی طور پر آپ کا خیال رکھتے ہیں۔ اسی طرح اگر کوئی کمنٹ آپ کی ٹوئٹ سے اتفاق نہیں کرتا تو ضروری نہیں کہ وہ ذاتی حملہ ہو۔

سوشل میڈیا پر گزارا وقت ہمیشہ ایک مثبت تجربہ ہونا چاہیے۔ اگر آپ منفی چیزوں کو ذہن پر بے حد سوار کر رہے ہیں، مسلسل خود کا اپنے دوستوں سے موازنہ کر رہے ہیں یا آپ کو کسی شخص کا آپ سے عدم اتفاق ڈنک کی طرح محسوس ہو رہا ہے تو جناب وقت آ گیا ہے کہ ہے کہ آپ کچھ وقت کے لیے آن لائن دنیا سے منقطع ہو جائیں۔

تبصرے (0) بند ہیں