اسلام آباد: وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ ہندوستان کے موجودہ کشمیر اور پاکستان مخالف رویے کے باعث دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات ممکن نہیں۔

سینیٹ کی کمیٹی برائے دفاع کے ایک اجلاس میں ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر کی موجودہ صورت حال کا حوالہ دیتے ہوئے وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ ایسے حالات میں دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات کا آغاز نہیں ہوسکتا۔

خیال رہے کہ وادئ کشمیر میں 8 جولائی کے روز ہندوستانی فورسز نے فائرنگ کرکے نوجوان کشمیری حریت پسند برہان وانی کو ہلاک کردیا تھا، مذکورہ واقعے کی خبر منظر عام پر آتے ہی وادئ میں کشمیری عوام گھروں سے نکل آئی اور برہان وانی کی ہلاکت پر سراپا احتجاج بن گئی۔

ہندوستانی فورسز نے کشمیریوں کے احتجاج کو طاقت کے ذریعے کچلنے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں 51 کشمیری ہلاک ہوگئے جبکہ سیکڑوں کشمیری زخمی بھی ہوئے اور گذشتہ 16 روز سے وادئ میں کرفیو نافذ ہے۔

اس موقع پر وزیر دفاع نے واضح کیا کہ سرحدی انتظامات کے علاوہ دہشت گردی کا خاتمہ ممکن نہیں جبکہ افغانستان نے بین الاقوامی سرحدی مینجمنٹ کے حوالے پر اعتراضات اٹھائے ہیں۔

'کسی بھی شخص کو بغیر سفری دستاویزات کے پاکستان میں داخل ہونے کی اجازت نہیں اور اس حوالے سے کوئی کوتاہی برداشت نہیں کی جائے گی'۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ قومی سلامتی کے مشیر ریٹائر جنرل ناصر جنجوعہ ان دنوں ایران کے دورے پر ہیں، جہاں وہ ایرانی حکام کے ساتھ دیگر مسائل کے ساتھ ساتھ گرفتار ہندوستانی نیول افسر کلبوشن یادیو کا معاملہ بھی اٹھائیں گے۔

طورخم گیٹ یکم اگست سے کھول دیا جائے گا، حکام

سینیٹ کی کمیٹی برائے دفاع کو بتایا گیا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر طورخم کے مقام پر تعمیر کیا جانے والا گیٹ مکمل ہوچکا ہے اور اسے آمد و رفت کیلئے یکم اگست کو کھول دیا جائے گا۔



حقانی نیٹ ورک کا پاکستان میں وجود نہیں، یہ گروپ افغانستان کے علاقے خوست سے اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔

سیکریٹری دفاع عالم خٹک

ایڈیشنل سیکریٹری دفاع عابد نظیر نے کمیٹی کو بتایا کہ نئے گیٹ کے انتظامات وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے)، کسٹم اور دیگر سیکیورٹی اہلکاروں کے حوالے کیے گئے ہیں اور مکمل سفری دستاویزات کے بغیر دونوں جانب داخلے کی اجازت نہیں ہوگی۔

عابد نظیر کا کہنا تھا کہ 'سی سی ٹی وی کیمروں کی مدد سے 24 گھنٹے گیٹ کی مانیٹرنگ کی جائے گا اور کسی بھی قسم کی غیر قانونی نقل و حرکت کو روکنے کیلئے روڈ کے دونوں جانب خاردار باڑ بھی لگائی گئی ہے۔

اس موقع پر سیکریٹری دفاع ریٹائر جنرل عالم خٹک نے کمیٹی کو ان کے حالیہ برطانوی دورے کے حوالے سے بریف کیا جہاں انھوں نے برطانوی حکام کے ساتھ دفاع اور سیکیورٹی مسائل پر بات چیت کی۔

انھوں نے کمیٹی کو بتایا کہ حقانی نیٹ ورک کا پاکستان میں وجود نہیں اور یہ گروپ افغانستان کے علاقے خوست سے اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔

عالم خٹک نے کمیٹی کو ڈیورنڈ لائن کے حوالے سے بتایا کہ اس وقت حقیقت میں ایسی کوئی لائن موجود نہیں اور اب دونوں ممالک میں باقاعدہ ایک سرحد موجود ہے۔

عالم خٹک کا کہنا تھا کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان 200 کراسنگ پوائنٹس ہیں جبکہ ان میں سے صرف 8 پوائنٹس پر باقاعدہ سرچنگ کا سسٹم موجود ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں