برطانوی خاتون کا غیرت کے نام پر 'قتل': والدین پر مقدمہ

اپ ڈیٹ 27 جولائ 2016
28 سالہ بیوٹی تھراپسٹ سامعہ شاہد—۔فوٹو/ بشکریہ دی گارجین
28 سالہ بیوٹی تھراپسٹ سامعہ شاہد—۔فوٹو/ بشکریہ دی گارجین

گجرات: پاکستانی نژاد برطانوی خاتون سامعہ شاہد کو صوبہ پنجاب کے ضلع جہلم کے ایک گاؤں ڈھوک پندوری میں مبینہ طور پر قتل کرنے کے جرم میں ان کے والدین، سابق شوہر اور دیگر 2 افراد کے خلاف مقدمہ درج کرلیا گیا۔

28 سالہ سامعہ شاہد کے شوہر سید مختار کاظم نے الزام عائد کیا تھا کہ ان کی اہلیہ کو ان کے خاندان والوں نے اپنی پسند سے شادی کرنے پر نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کیا۔

مختار کاظم نے رواں ماہ 23 جولائی کو سامعہ کے والد چوہدری شاہد، والدہ امتیاز بی بی، بہن مدیحہ شاہد، کزن مبین اور خاتون کے سابق شوہر چوہدری شکیل کے خلاف پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 302 اور 109 کے تحت ایف آئی آر درج کروائی تھی۔

سامعہ کی موت کی رپورٹ ان کے والد نے 20 جولائی کو منگلہ پولیس کے پاس درج کروائی تھی۔

دوسری جانب مقدمے میں نامزد ملزمان نے سامعہ کے قتل کے الزامات سے انکار کرتے ہوئے ان کی موت کی وجہ دل کا دورہ قرار دیا۔

پولیس نے خاتون کے والد کو کچھ دیر کے لیے حراست میں لیا اور بعدازاں ابتدائی تفتیش کے بعد انھیں چھوڑ دیا گیا۔

منگلہ پولیس کے ایک عہدیدار کے مطابق خاتون کے جسم کے نمونے لاہور کی فرانزک لیبارٹری میں بھیجے جاچکے ہیں اور رپورٹس کا انتظار ہے۔

مزید پڑھیں:برطانوی خاتون کو پاکستان میں 'غیرت' کے نام پر قتل کرنے کا دعوٰی

بریڈ فورڈ سے تعلق رکھنے والی بیوٹی تھراپسٹ سامعہ کی پہلی شادی ان کے کزن شکیل سے ہوئی تھی تاہم دونوں کے درمیان مئی 2014 میں طلاق ہوگئی تھی، بعدازاں خاتون نے ٹیکسلا سے تعلق رکھنے والے سید مختار کاظم سے ستمبر 2014 میں شادی کی اور دونوں نے دبئی میں رپائش اختیار کرلی۔

مختار کاظم نے اپنی ایف آئی آر میں دعویٰ کیا تھا کہ سامعہ کو ان کے رشتے داروں نے قتل کیا، جو ان دونوں کی شادی سے خوش نہیں تھے کیونکہ وہ (مختار کاظم) ان کی برادری سے تعلق نہیں رکھتے۔

کاظم کا کہنا تھا کہ ان کی ساس نے 11 جولائی کو سامعہ کو فون پر کہا کہ وہ پاکستان آجائے کیونکہ اس کے والد بیمار ہیں، جس کے بعد سامعہ 14 جولائی کو اسلام آباد کے لیے روانہ ہوئی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ سامعہ نے فون پر بتایا کہ ان کے والد بالکل ٹھیک ہیں اور اب وہ خود کو غیر محفوظ محسوس کر رہی ہے۔

کاظم کے مطابق 20 جولائی کو سامعہ کا فون سوئچ آف ملا، جس پر انھوں نے ان کے کزن مبین کو فون کیا، جس نے بتایا کہ سامعہ کو دل کا دورہ پڑا ہے۔

جس کے بعد سید مختار کاظم 21 جولائی کو پاکستان پہنچے۔

دوسری جانب دی گارجین کی رپورٹ کے مطابق سامعہ کے والدین نے مختار کاظم کے دعووں کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ کاظم کی جانب سے ان پر 'جھوٹے اور بے بنیاد' الزامات لگائے جارہے ہیں۔

سامعہ کے والد چوہدری شاہد کا کہنا تھا کہ 'اس حوالے سے تحقیقات جاری ہیں اور اگر میں قصوروار پایا گیا تو میں ہر قسم کی سزا کے لیے تیار ہوں'۔

والد کا مزید کہنا تھا کہ 'ان کی بیٹی ایک خوشگوار زنگی بسر کر رہی تھی، جو خود سے پاکستان آئی اور اس پر خاندان کی جانب سے کسی قسم کا دباؤ نہیں تھا'۔

واقعے کے بعد برطانوی رکن پارلیمنٹ ناز شاہ نے پاکستانی حکام سے مطالبہ کیا کہ سامعہ کی قبرکشائی کرکے ان کا غیر جانبدار پوسٹ مارٹم کروایا جائے۔

ناز شاہ نے اس حوالے سے وزیراعظم نواز شریف کو لکھے گئے خط میں کہا کہ وہ اس معاملے میں مداخلت کریں جو کہ 'غیرت' کے نام پر قتل کا ایک کیس ہے اور ہمیں بتایا جائے کہ سامعہ کے ساتھ انصاف ہوا اور اس بات کی بھی یقین دہانی کروائی جائے کہ اس طرح کے واقعات دوبارہ نہ ہوں۔

دوسری جانب اسلام آباد میں واقع برٹش ہائی کمیشن کیس میں ہونے والی پیش رفت کے حوالے سے جہلم کے مقامی حکام کے ساتھ ساتھ خاتون کے اہلخانہ سے بھی رابطے میں ہے۔

یہ خبر 27 جولائی 2016 کے ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں