'فتح اللہ گولن امریکا سے فرار ہوسکتے ہیں'

اپ ڈیٹ 28 جولائ 2016
امریکا میں خود ساختہ جلاوطنی کاٹنے والے ترک مبلغ فتح اللہ گولن—۔فائل فوٹو/ اے پی
امریکا میں خود ساختہ جلاوطنی کاٹنے والے ترک مبلغ فتح اللہ گولن—۔فائل فوٹو/ اے پی

استبول: ترکی نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ امریکا میں خود ساختہ جلاوطنی کاٹنے والے ترک مبلغ فتح اللہ گولن وہاں سے فرار ہوجائیں گے۔

واضح رہے کہ ترک حکام نے حال ہی میں ہونے والی فوجی بغاوت کی ناکام کوشش کے پیچھے فتح اللہ گولن کا ہاتھ قرار دیا ہے۔

خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق ترکی کے وزیر انصاف باقر بوزداغ نے ہیبرترک ٹی وی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انھیں انٹیلی جنس رپورٹس ملی ہیں کہ فتح اللہ گولن امریکا سے فرار ہوکر آسٹریلیا، میکسیکو، کینیڈا، جنوبی افریقہ یا مصر جاسکتے ہیں۔

تاہم فتح اللہ گولن نے ترک وزیر انصاف کے اس بیان کو مسترد کردیا ہے۔

مزید پڑھیں:ترکی میں فوجی بغاوت ناکام

یاد رہے کہ رواں ماہ 15 اور 16 جولائی کی درمیانی شب ترکی میں فوج کے باغی گروپ کی جانب سے حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش اُس وقت ناکام بنادی گئی، جب صدر رجب طیب اردگان کی کال پر عوام سڑکوں پر نکل آئے۔

طیب اردگان کا کہنا تھا کہ بغاوت کی کوشش محمد فتح اللہ گولن نامی دینی مبلغ کے پیروکاروں کا کام ہے۔

تاہم فتح اللہ گولن نے اردگان کے الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں اور کسی بھی قسم کی فوجی مداخلت کے خلاف ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:ترکی میں فوجی بغاوت کے خلاف ہوں، فتح اللہ گولن

واضح رہے کہ گولن امریکی ریاست پنسلوانیا کے ایک چھوٹے سے قصبے میں رہائش پذیر ہیں، جو کبھی اردگان کے اتحادی تھے، مگر اب امریکا میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔

گولن اپنے آبائی ملک میں خاصے مقبول ہیں اور انھیں پولیس اور عدلیہ کی بھی حمایت حاصل ہے۔

75 سالہ گولن کسی زمانے میں طیب اردگان کے قریبی اتحادی تھے، تاہم حالیہ چند برسوں میں اردگان ترک معاشرے، میڈیا، پولیس اور عدلیہ میں خودساختہ گولن تحریک کی طاقتور موجودگی کے حوالے سے شکوک و شبہات کا شکار ہیں۔

فتح اللہ گولن پر ترکی میں غداری کا الزام لگایا گیا، جس کے بعد وہ 1999 میں امریکا منتقل ہوگئے تھے۔

اُس وقت کے بعد سے وہ ریاست پنسلوانیہ میں گوشہ نشینی کی زندگی گزار رہے ہیں اور انٹرویو دینے یا عوام کے سامنے آنے سے گریز کرتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:فوجی بغاوت: امریکا اور ترکی کے تعلقات کشیدہ ہونے کا خدشہ؟

اردگان اور گولن کے درمیان اقتدار کی کشمکش 2013 کے آخر میں اُس وقت شدت اختیار کرگئی تھی جب گولن سے قریب محکمہ استغاثہ کے بعض افسران نے اردگان کے بیٹے بلال سمیت ان کے قریبی ساتھیوں پر بدعنوانی کے الزامات لگائے۔

جس کے بعد طیب اردگان نے سرکاری ملازمتوں اور اہم عہدوں پر فائز گولن تحریک کے ہزاروں مبینہ حامیوں کو برطرف کردیا، ان کے اسکول بند کردیئے گئے اور سیکڑوں کو گرفتار کرکے ان کے خلاف مقدمات چلائے گئے۔

جبکہ اُن اخبارات کے ایڈیٹرز کو بھی برطرف کردیا گیا، جو حکومت کے مطابق گولن کے حامی تھے۔

واضح رہے کہ فتح اللہ گولن کی تحریک 'حزمت' کہلاتی ہے، جو صوفی ازم کی طرز پر مختلف مذاہب کے درمیان ہم آہنگی کی تعلیم دیتی ہے، اس تحریک کے تحت امریکا، یورپ، ایشیا اور افریقہ میں سیکڑوں تعلیمی اور سماجی خدمات کے ادارے کام سرانجام دے رہے ہیں۔

ترک حکومت کی جانب سے گولن پر الزام عائد کیا جاتا ہے کہ انھوں نے 'ریاست کے اندر ریاست' قائم کر رکھی ہے اور ان کے حامیوں نے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت صحافت، عدلیہ، فوج، پولیس اور بیوروکریسی میں اپنا حلقۂ اثر قائم کر رکھا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:پاکستان فتح اللہ گولن کے تمام ادارے بند کرے، ترکی

بغاوت کی ناکام کوشش کے بعد ترکی نے توقع ظاہر کی تھی کہ پاکستان سمیت تمام دوست ممالک فتح اللہ گولن کے تحت چلائے جانے والے تمام اداروں کو بند کردیں گے۔

واضح رہے کہ پاکستان میں گولن کے زیر انتظام 21 اسکولز،ایک رومی فورم اور ایک انٹیلیکچوئل اینڈ انٹر کلچرل ڈائیلاگ پلیٹ فارم چلایا جارہا ہے جبکہ وہ کئی کاروبار میں بھی شراکت دار ہیں۔

فتح اللہ گولن کی تنظیمیں اور کاروبار پاکستان میں کئی دہائیوں سے سرگرم ہیں۔

ترک سفیر نے کہا تھا کہ گولن کے تحت چلائے جانے والے اداروں کی پاکستان میں موجودگی کے حوالے سے ترک حکومت پاکستانی حکام کے ساتھ رابطے میں ہے اور پاکستان کے ساتھ ہر شعبے میں ہمارے اچھے تعلقات ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں