لاہور :' ہیلو، رک جاﺅ اور ایک قدم بھی مزید آگے نہ بڑھانا، ورنہ ذمہ دار تم خود ہوں گے'۔ میں نے اچانک یہ چیخ سنی اور الجھن کا شکار ہوگیا کہ مسلح نوجوان مجھ سے بات کررہا ہے یا کسی اور سے؟ میں پیچھے مڑا تو پتا چلا کہ میرے پیچھے کوئی بھی نہیں تھا تو اس کا مطلب تھا کہ وہ نوجوان مجھ سے ہی بات کررہا تھا مگر کیوں؟ کیا میں کوئی دہشت گرد ہوں یا مجرم یا کچھ اور؟

خیالات کا یہ سلسلہ اس وقت ٹوٹ گیا جب میں نے دیکھا کہ ایک درمیانی عمر کی خاتون بھی ایک چھوٹی سی تنگ گلی، جو صرف چار فٹ چوری تھی، میں اپنے بچوں پر چیخ رہی تھی " فوری طور پر گھر کے اندر آجاﺅ، کیا تم چاہتے ہو کہ میں تمہیں ہمیشہ کے لیے کھو دوں، کیا تم میری بات نہیں سن رہے"، اور پھر خاتون نے اپنے تین چھوٹے بچوں میں سے ایک کو تھپڑ لگایا اور زبردستی اس کی مرضی کے بغیر گھر لے گئی، جس پر مار کھانے والا بچہ رونے لگا۔

یہ سب کچھ بہت کم دورانیے میں ہوا اور اسی اثناءمیں، میں نے کچھ ان تنگ گلیوں میں کچھ غیر معمولی سرگرمیوں کا معائنہ کیا۔ اے تمہیں سمجھ نہیں آرہا، وہیں رک جاﺅں، اس وقت مجھے احساس ہوا کہ میں خاتون اور بچوں کے منظر کو دیکھتے ہوئے مزید چند قدم آگے بڑھ گیا۔

میں فوراً وہاں رک گیا اور فوری طور پر میرے حواس بحال ہوگئے اور میں نے پراعتماد انداز سے نوجوان سے پوچھا " ارے بھائی ، آخر مسئلہ کیا ہے جو تم نے اس گن کا رخ میری جانب کیا ہوا ہے" ´ میں ایک صحافی ہوں اور بچوں کے اغوا کے بڑھتے ہوئے کیسز پر کام کررہا ہوں، میں نے سنا ہے کہ بادامی باغ کا علاقہ داتا نگر اس سے سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔

یہ سننے کے بعد، اس نے اپنی گن نیچے کرلی اور میں نے سکون کا سانس لیا، اب اس نے انتہائی شریفانہ انداز سے کہا "معذرت جناب، ہم علاقے میں کسی بھی غیرمعمولی سرگرمی پر خوفزدہ ہوجاتے ہیں، چونکہ آپ ایک اجنبی ہیں اس لیے ہم خوفزدہ ہوگئے تھے اور ایسے رویے کا مظاہرہ کررہے تھے"۔

اس نے مطالبہ کیا " کیا آپ کسی بھی قسم کا شناختی یا آفس کارڈ مجھے دکھا سکتے ہیں"، بغیر کوئی لمحہ ضائع کیے بغیر میں نے اپنا آفس کارڈ پیش کردیا جس نے اسے مزید پرسکون کردیا۔

اب اسی جگہ کے مزید افرد بھی میرے کیمرہ مین کے ساتھ وہاں پہنچ گئے اور جب انہیں احساس ہوا کہ میں یہاں ان کی بات سننے کے لیے آیا ہوں تو وہ پولیس اور مقامی انتظامیہ کے خلاف پھٹ پڑے۔ اس شور و غل نے ان افراد کو اپنی جانب کھینچا جو اپنے گھروں کی کھڑکیوں سے صورتحال کو سمجھنے کی کوشش کررہے تھے اور پھر بڑی تعداد میں مرد، خواتین اور بچے میرے ارگرد آکر کھڑے ہوگئے۔

میں نے لاہور میں بچوں کے بڑے پیمانے پر اغوا کے حوالے ان کے بیانات سننا شروع کردیئے اور وہ مجھے اپنے دکھ اور ڈر کے بارے میں بتانے لگیں۔ مجھے احساس ہوا کہ دہشت نے پورے علاقے کو اپنی گرفت میں لیا ہوا ہے اور خوف کے سائے یہاں سے وہاں تک پھیلے ہوئے ہیں۔

عمر کی پانچویں دہائی سے گزرنے والے ایک سانولے شخص نے خود کو وارث علی کے نام سے متعارف کرایا اور مجھے بتایا کہ وہ گلیوں میں غبارے فروخت کرتا ہے اور ایک سال قبل اسی علاقے سے اس کی نو سالہ بیٹی کو اغوا کرلیا گیا تھا، مقدمہ درج کرانے کے بعد پولیس اسے تلاش کرنے میں ناکام رہی اور اب وہ بے بسی اور بدقسمتی کے احساس تلے یہ ماننے پر مجبور ہوگیا ہے کہ اب وہ کبھی اپنی بیٹی کو تلاش اور دیکھ نہیں سکے گا۔

خوف میں مبتلا بچے

اسی اثناء میں ایک نوجوان اسد آیا اور اس نے مجھے بتایا کہ اس کا سولہ سالہ بھائی محسن چھ سال قبل اسی علاقے سے پراسرار انداز سے اس وقت اغوا ہوگیا جب وہ اپنے گھر کے باہر کھڑا تھا اور اب تک اس کی بازیابی کے لیے کچھ بھی نہیں ہوسکا۔

اس نے الزام عائد کیا کہ اغوا کے یہ کیسز پولیس کے لیے بس کمانے کا موقع ہوتے ہیں اور اگر آپ کے پاس پیسے نہیں یا آپ بااثر نہیں تو اپنے پیاروں کو بھول جائیں۔

اب اس مسلح نوجوان قیصر نے مجھے بتایا کہ علاقے میں اغوا کے بڑھتے ہوئے واقعات کے بعد لوگوں نے اپنے بچوں کو نامعلوم اغوا کاروں سے بچانے کے لیے علاقے کی نگرانی کے پروگرام کا آغاز کیا۔ مجھے علاقے کی کچھ خواتین سے بات کرنے کا موقع بھی ملا اور وہ بھی کسی سے اپنے بچوں کے تحفظ کے بارے میں بات کرنے کا موقع ملنے پر پھٹ پڑیں۔

بیشتر خواتین نے بھاری دل کے ساتھ مجھے بتایا کہ اسکولوں میں گرمیوں کی تعطیلات کے دوران ان کے بچے قریبی ٹیوشن مراکز میں جاتے تھے اور اب انہیں وہاں جانے سے روک دیا گیا ہے۔ ان تین بچوں کو بھی دوبارہ موقع ملا گیا جنھیں زبردستی ماں نے گھر بھیج دیا تھا اور اب وہ ایک بار پھر دیگر بچوں کے ہمراہ گلی میں آگئے اور مجھے احساس ہوا کہ ان کے خاندان بچوں کی سرگرمیوں پر کڑی نگاہ رکھے ہوئے ہیں۔

ایسا محسوس ہوا کہ بہت زیادہ بچے اکھٹے ہوگئے ہیں اور انہوں نے اسی تنگ گلی میں کھیلنا شوع کردیا ہے، میں ان کی جانب بڑھا اور ان پر غیرمعمولی نگرانی اور پابندیوں پر بات شروع کردی۔ بیشتر نے بہت معصومیت سے مجھے بتایا کہ مما نے انہیں کہا ہے کہ اگر وہ باہر کھیلیں گے یا کسی چیز کے لیے باہر جائیں گے یا باہر دکان سے ٹافیاں خریدنے کے لیے جائیں گے تو وہ اغوا ہوجائیں گے اور اغوا کار نہ صرف انہیں پیارے والدین سے دور لے جائیں گے بلکہ تشدد یا قتل بھی کرسکتے ہیں بالکل ویسے ہی جیسے انہوں (اغوا کاروں) نے سات سالہ عمیر کے ساتھ کیا۔

بچے اس صورتحال سے بہت زیادہ دل شکستہ تھے کیونکہ وہ نہ صرف ایک دوسرے کی کمی محسوس کرتے ہیں بلکہ بیشتر اپنی ٹیوشنز سے بھی دور ہیں۔

مقتول عمیر کی والدہ۔

ایک گھنٹہ ان کے ساتھ گزارنے کے بعد میں مرحوم عمیر کے خاندان کی جانب گیا جو اس علاقے سے صرف ایک کلومیٹر دور مقیم تھا۔ دوسری جماعت کے طالبعلم عمیر کو عید کے تیسرے دن اس وقت اغوا کیا گیا جب وہ اپنی عیدی ٹافیوں پر خرچ کرنے کے لیے نکلا اور پھر کبھی واپس نہیں آیا، دو ہفتے بعد پولیس نے اس کی متعفن لاش کو دریافت کیا جس پر تشدد کے کچھ نشانات تھے جبکہ پوسٹ مارٹم سے تصدیق ہوئی کہ اس کی موت گلہ دبانے کی وجہ سے ہوئی۔

عمیر کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹا نہیں سکا کیونکہ وہاں دروازے کی جگہ ایک پھٹا ہو گندہ پردہ لٹکا تھا تو میں نے پکارا " کوئی گھر پر ہے؟" پھر ایک درمیانی عمر کے شخص باہر آئے اور خود کو شفیق کے نام سے متعارف کرایا، جو مرحوم عمیر کے والد تھے۔

وہ مجھے دو مرلے کے پرانے گھر کے اندر لے گئے جس میں صرف دو چھوٹے کمرے تھے، جو ان کی مالیاتی مشکلات کی عکاسی کررہے تھے۔ میں نے عیر کی والدہ کو بھی وہاں دیکھا، جنھوں نے اپنے مرحوم بیٹے کی تصویر گود رکھی ہوئی تھی، جبکہ آنسوﺅں نے نہ صرف ان کی آنکھوں کو بھگو رکھا تھا بلکہ گود پر بھی ٹپک رہے تھے۔

میرے پاس کہنے کے لیے الفاظ نہیں تھے تو میں نے بس یہ کہا کہ اللہ انہیں اس بڑے نقصان پر قابو پانے کا حوصلہ دے۔ شفیق جوتوں کا سیلز مین ہیں اور پھر بھی یہ خاندان مکان کا ساڑھے تین ہزار روپے کرایہ ادا کرنے کے قابل نہیں حالانکہ ان کے دو بڑے بیٹے بھی ضروریات زندگی پوری کرنے کے لیے کام کرتے ہیں۔

عمیر کی والدہ نے بیٹے کی دوسری جماعت کی کتابیں اور کاپیاں بھی دکھائیں جن پر اس نے متعدد مضامین اپنے بہترین دوست علی اور اپنے خوابوں کے بارے میں لکھے ہوئے تھے۔ ماں نے مجھے بتایا کہ عمیر تعلیم مکمل کرنے کے بعد ایک امیر شخص بننا چاہتا تھا اور اپنی ماں سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اپنا گھر بنائے گا، مگر اب وہ اپنے تمام وعدوں کے ساتھ منوں مٹی تلے دفن ہوچکا ہے، اس کے بعد وہ اپنے چھوٹے بیٹے کو یاد کرکے دوبارہ رونے لگیں۔

شفیق نے مجھے بتایا کہ اب وہ اس بات کے منتظر ہیں کہ کب پولیس ان کے بیٹے کو اغوا اور قتل کرنے والوں کو گرفتار کرتی ہے اور وہ اس ملزم یا ملزمان کو پھانسی پر لٹکنا دیکھنا چاہتے ہیں تاکہ آئندہ کوئی بھی ایسے بہیمانہ جرم کرنے کا سوچ بھی نہ سکے۔

کیپیٹل سٹی پولیس آفسر کیپٹن ریٹائرڈ امین۔ فوٹو ڈان نیوز
کیپیٹل سٹی پولیس آفسر کیپٹن ریٹائرڈ امین۔ فوٹو ڈان نیوز

چونکہ بادامی باغ کے رہائشیوں اور متاثرین کی جانب سے پولیس پر کافی الزامات عائد کیے گئے تھے تو میں کیپیٹل سٹی پولیس آفسر کیپٹن ریٹائرڈ امین سے ملاقات کے لیے ان کے دفتر پہنچا، جہاں وہ گمشدہ بچوں کے حوالے سے اپنے اپنے موقف پر قائم رہے۔

انہوں نے مجھے بتایا کہ پنجاب بھر میں بچوں کے اغوا کے 655 مقدمات درج کیے گئے ہیں جبکہ لاہور میں ان کیسز کی تعداد 205 ہے جن میں سے 192 بچے اپنے گھروں میں واپس آگئے یا پولیس نے بازیاب کرالیا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ابتدائی تفتیش کے دوران یہ انکشاف ہوا کہ 10 سے 15 سال کی عمر کے بعد بیشتر بچے مختلف سماجی وجوہات جیسے گھر میں سہولیات کی کمی، والدین کے رویے، خراب مالی حالات، والدین، اساتذہ کے غصے، تعلیم میں دلچسپی نہ ہونا یا کمزور کی وجہ سے گھر چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔

لاہور پولیس کے سربراہ نے بادامی باغ کے رہائشیوں کی جانب سے پولیس پر عائد کیے گئے الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ 'ہم اپنے فرائض تمام دستیاب وسائل کے ساتھ سرانجام دے رہے ہیں، بچوں کے اغوا کے معاملے میں حقائق مختلف ہیں جنھیں میڈیا کے سامنے پیش کیا جائے گا اور ہم یقین دہانی کراتے ہیں کہ ہم بہت عمیر کے اندھے قتل کا سراغ لگالیں گے جبکہ بادامی باغ کی چہل پہل کو بحال اور وہاں کے رہائشیوں اور بچوں کو خوف کی فضاءسے نکال لیں گے'۔

میاں محمود الرشید۔ فوٹو ڈان نیوز
میاں محمود الرشید۔ فوٹو ڈان نیوز

دوسری جانب پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں محمود الرشید نے ڈان سے بات کرتے ہوئے پولیس کی کارکردگی پر ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ پولیس حقائق کو چھپا رہی ہے اور بچوں کے اغوا کے کیسز کو درج نہیں کررہی۔

میاں محمود الرشید نے کہا کہ انہوں نے پنجاب اسمبلی میں ایک تحریک پیش کی ہے تو حکومت کو اراکین کے سامنے جواب دینا ہوگا اور ان کی شکایات کو حل کرنا ہوگا۔

انہوں نے پنجاب چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو کی کارکردگی کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہونے انہیں بچوں کی جانب سے بھیک مانگنے کا ذمہ دار قرار دیا۔

صوبائی اسمبلی میں حکمران جماعت مسلم لیگ نواز کی خاتون رکن صبا صادق چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو کی چیئرپرسن ہیں، انہوں نے اپنے ادارے پر قائد حزب اختلاف کے الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ان میں کوئی سچائی نہیں اور یہ سیاسی بیان کی طرح ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ چائلڈ پروٹیکشن بیورو کی جانب سے داتا دربار، لاری اڈہ، ریلوے اسٹیشن اور پارکوں سمیت لاہور کے مختلف علاقوں میں چھاپے مار کر بچوں کو بازیاب کراکے ان کے خاندانوں کو واپس کیا گیا۔ انہوں نے سی سی پی او امین کے بیان کی تائید کرتے ہوئے کہا "ہاں بچوں کے خود ساختہ اغوا میں کوئی حقیقت نہیں اور اس کے پیچھے بنیادی وجوہات ہیں یعنی بیشتر بچے گھریلو معاملات کے باعث گھر چھوڑ دیتے یا بھاگ جاتے ہیں جبکہ خاندان مقدمات درج کرا دیتے ہیں"۔

حکومتی رکن پنجاب اسمبلی خاتون رکن صبا صادق
حکومتی رکن پنجاب اسمبلی خاتون رکن صبا صادق

انہوں نے یہ اعلان بھی کہا کہ اب سے چائلڈ پروٹیکشن بیورو اور پولیس بچوں کی گمشدگی کے کیسز میں ایک دوسرے سے تعاون کریں گے اور ایک دوسرے سے ڈیٹا بھی شیئر کریں گے۔ انہوں نے میڈیا کے ذریعے یہ درخواست بھی کی کہ چائلڈ پروٹیکشن بیورو کے پاس 147 بچے موجود ہیں اور اگر کوئی ان کے بارے میں جانتا ہے تو آگے آئے اور ان کے خاندانوں کے بارے میں اطلاع دے، تاکہ انہیں وارثوں کے حوالے کیا جاسکے۔

انہوں نے شہریوں سے بھی درخواست کی کہ بچے کی گمشدگی یا بچے پر تشدد یا مزدوری کے بارے میں کوئی معلومات ہو تو ہیلپ لائن 1121 پر اطلاع دیں۔

میں نے کافی تعداد میں ان بچوں سے بھی ملاقاتیں کیں جو پولیس یا چائلڈ پروٹیکشن بیورو کے پاس ہیں، جنھوں نے اعتراف کیا کہ وہ مختلف گھریلو وجوہات کی بناءسے گھر سے بھاگ گئے تھے، جس سے حکومت کے نکتہ نظر کی تصدیق ہوتی ہے۔

تاہم، بادامی باغ کے رہائشی، یعنی وہ علاقہ جہاں سے اب تک اغوا کے 11 مقدمات درج کرائے جاچکے ہیں، اس پر یقین نہیں کرتے اور ان کا کہنا ہے کہ یہ وہ بچے ہوسکتے ہیں جو گھریلو وجوہات کی بناءگھر سے فرار ہوئے اور انہوں نے حکومت سے بچوں کے کھیلنے کے لیے گراﺅنڈ بنانے کا مطالبہ بھی کیا، تاکہ تنگ گلیوں میں اغوا ہونے کی بجائے وہاں محفوظ رہ کر کھیل کود سکیں، اس طرح ایک صحت مند سرگرمی سامنے آئے گی جس سے بچوں کے پراسرار اغوا سے پیدا ہونے والے خوف اور دہشت پر قابو پانے مین مدد مل سکے گی۔

یہ بات بھی کافی دلچسپ ہے کہ اب تک کسی نے بھی کسی اغوا کو اپنی آنکھوں کے سامنے ہوتے نہیں دیکھا اور غیر متعلقہ مثالوں کا حوالہ دیا جاتا ہے جبکہ پولیس نے تصدیق کی ہے کہ کچھ مشتبہ افراد کو حراست میں لیا گیا ہے مگر اب تک کوئی پیشرفت نہیں ہوسکی۔

مجھے توقع ہے کہ گمشدہ بچے جلد از جلد گھروں میں واپس آجائیں گے اور اس علاقے پر چھائے خوف کے بادل چھٹ جائیں گے تاکہ بچے ماضی کی طرح ایک بار پھر اکھٹے کھیل سکیں گے۔

تبصرے (1) بند ہیں

Imran Jul 30, 2016 05:46pm
inn say lahore ka aik mohala nai sambhalta aur poray mulk per hakomat kar rahy hain. kidhar hai so called leader. aania jaania vekhi jao bas.