ہندوستان میں آرٹ سینماکوابتدائی دور میں مشکلات کاسامنا کرنا پڑا، لیکن اب وہ ایک ایسے مرحلے تک آپہنچا ہے،جہاں ایسے فلم بینوں کی ایک مناسب تعداد موجود ہے،جنہیں ان فلموں کے موضوعات میں دلچسپی ہے۔ فلم سازوں کوماضی کی طرح تجارتی لحاظ سے زیادہ مالی خسارہ برداشت نہیں کرنا پڑتا۔

حال ہی میں ریلیز ہونے والی فلم”مداری“ایسی ہی ایک فلم ہے،جو آرٹ سینما میں عمدہ اضافہ ہے۔ یہ ترقی پذیر ممالک میں سرکاری وسماجی نظام کی خرابیوں کی عکاسی کرتی ہوئی ایک شاندار فلم ہے، جس میں تنہافرد کی جذباتی ٹوٹ پھوٹ کو موضوع بنایا گیا ہے۔ ذیلی پہلوﺅں میں مالی کرپشن،سیاست کی سیاہ کاریاں، عوام کی بے حسی،میڈیا کی چیخ وپکار بھی شامل ہے۔

ہندوستان ،بنگلہ دیش اورپاکستان جیسے معاشروں کے لیے ”مداری“صرف فلم نہیں ،بلکہ اس خراب نظام کے منہ پر پڑنے والا طمانچہ بھی ہے،جس کے اثرات عوام کوبھگتنے پڑتے ہیں، یہ الگ بات ہے، عوام پھر بھی خواب غفلت کا شکار ہیں، شاید اس طرح کی فلموں سے وہ اس گہری نیند سے بیدارہوسکیں، فلم کے مرکزی خیال میں اس خیال کو بھی موضوع بحث بنایاگیا، جیسا کہ یہ جملہ ”شش۔۔۔۔دیس سورہا ہے‘ ‘ہمارے ہاں بھی اس سے ملتاجلتا جملہ مشہور ہوا تھا کہ ”ہارن مت بجائیے،قوم کسی ضروری کام سے سورہی ہے۔“

یہ فلم ہمیں بتاتی ہے،کس طرح عوام نظام کو خراب سمجھتے ہیں مگر خود کو بے قصور،کس طرح فرد سے قوم کے جذبات مجروح ہوتے ہیں۔ یہ فلم ایسے ہی ان کہے جذبات کا مجموعہ ہے،ان پر شاید پاکستان میں توفلم بنانا ممکن نہ ہو،مگربالی ووڈ کے تمام فلم ساز دولت کے پجاری نہیں،ان میں سے کچھ ایسے بھی ہیں،جن کے ہاں سماج سے مکالمے کاعکس اوراپنی اخلاقی ذمے داری پوری کرنے کاجذبہ موجود ہے۔

اس فلم کو پاکستان کے سماجی نظام کے تناظر میں دیکھیں گے،تو یہ آپ کو اپنے دل کی آواز محسوس ہوگی۔ فلم کے اختتام میں پاکستان کے معروف شاعر فیض احمد فیض کی شاعری کو بھی شامل کیاگیاہے،اس سے اندازہ ہوتاہے، ہندوستانی سماج ہو یا پھر پاکستانی معاشرہ ،دکھ اور ان کی شدت یکساں ہے۔ یہ فلم اسی احساس کی تفسیر ہے۔

اسکرین پلے اورمکالمے:

ایک طویل عرصے کے بعد کسی ہندوستانی فلم کا اتنا اچھا اسکرپٹ دیکھنے کوملا۔ ”رتیش شاہ“نے اسکرپٹ اورمکالمے لکھے اور خوب لکھے۔

ہرچند کہ سماج اورنظام کی خرابیوں کے خلاف فردواحد کی طرف سے آواز بلند کرنے کے تناظر میں یہ کوئی پہلی فلم نہیں،مگر جس مربوط اورجذباتی انداز میں اس کو قلم بند کرکے فلمایا گیا،وہ اپنی مثال آپ ہے۔

کہانی میں کہیں غیر ضروری طوالت ہے،مگر ہدایت کاراس مسئلے سے نمٹ سکتا تھا،مگراس کی گرفت کمزور رہی،اگروہ ان حصوں کوٹھیک سے فلماتے ،کچھ فلم بینوں کی دلچسپی کے پہلوﺅں کو شامل رکھتے توشاید یہ طوالت محسوس نہ ہوتی،اس کہانی میں ”رتیش شاہ“کی واحد فنی خرابی”روہن“نامی بچے کاکردار ہے،جو وزیرداخلہ کا بیٹاہے،آٹھ نو سال کے بچے کی گفتگو ایسی دکھائی ہے،جیسے وہ کوئی بالغ شخص ہو، یہ پہلو ذرا عجیب تھا،مگراس کے باوجود انہوں نے مناظر کے بیانیے اورمکالموں کے ذریعے کہانی کو آخرتک دلچسپ بنائے رکھا۔

ہدایت کاری:

اس فلم کے ہدایت کار”نشی کانت کامت“ہیں،جن کا پس منظر مراٹھی سینما کاہے،اب کچھ عرصے سے وہ ہندی فلمیں بھی بنارہے ہیں۔

فلم پر تکنیکی لحاظ سے وہ قابو نہیں رکھ پائے۔اس کی کئی مثالیں دی جاسکتی ہیں۔مثال کے طورپر ان کی فلم کا آغاز میڈیا کے شوروغل سے ہوتاہے،جس میں دکھایاجاتاہے کہ ایک وزیرکے بیٹے کے اغواہوگیاہے،اس واقعہ کو پیش کرنے کا یہ انداز بہت روایتی تھا۔ ایک طرف فلم میں دکھایاگیاہے ، میڈیا کو اس مسئلے سے دور رکھنے کی سرکاری ہدایات ہیں ،دوسری طرف ایک چینل چیخ چیخ کر اس واقعہ کی روداد بتارہاہے،اس پر سرکار کاکوئی ردعمل نہیں دکھائی دیا۔

اسی طرح عوام کو احتجاج کرتے ہوئے دکھایا گیا، ایسا محسوس ہوتا ہے ،ہدایت کار نے ان مناظر کو عکس بند کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی،کہیںسے پرانی فوٹیج لے کر کام چلا لیاہے، پھر مختلف علاقوں میں اغواکارکا بچے کے ساتھ سفرکرنا، بچوں کا ہاسٹل سے آدھی رات کو کھانے پینے جانا اورکئی پہلوہیں، جن پر ہدایت کار اگر مزید محنت کرتے ،تویہ فلم اوراچھی بن سکتی تھی،اس فلم کے ہدایت کار پر مقامی سینما کے مزاج کی چھاپ ہے،جس سے وہ باہر نہیں نکل پائے۔

موسیقی وتدوین:

فلم کی موسیقی میں دو گیت ہی شامل ہیں،جن کی موسیقی وشال بھردواج اورسنی اندرباورا نے دی،جبکہ پس منظر کی موسیقی ترتیب دینے والے موسیقار سمیر پاتھر پیکر ہیں،جنہوں نے اپنا کام بخوبی نبھایاہے۔ فلم کا گیت”معصوم سا“کوسکھویندرسنگھ نے گایاہے،یہ گیت سامعین کو مسحورکرلے گا ۔

فلم کی ایڈیٹنگ یعنی تدوین بہت اچھی رہی،اس فلم کے ایڈیٹر عارف شیخ نے اپنی مہارت کا بھرپور استعمال کیا۔فلم میں روشنی کااستعمال، مختلف مقامات کے مناظر اورسیٹ ڈیزائننگ کے پہلوﺅں سے بھی فلم ٹھیک ہے۔

اداکاری:

اس فلم کا سب سے مضبوط حصہ اداکاری کاہے،جس میں سرفہرست منجھے ہوئے اداکار عرفان خان ہیں،جنہوں نے اپنے کردار کے ساتھ مکمل انصاف کیا۔وہ اپنے کردار کی گہرائی میں اترگئے، ایک باپ جس کا بیٹا حادثے میں بچھڑجاتاہے، غم میں اس باپ کی حالت کیسی ہوجائے گی،اس کیفیت کو انہوں نے بہترین انداز میں کردکھایا۔

مکالموں کی ادائیگی اتارچڑھاﺅ کے ساتھ ساتھ چہرے کے تاثرات سے بھی وہ بخوبی کام لینا جانتے ہیں اوراس صلاحیت کااستعمال انہوں نے اس فلم میں بھی خوب خوب کیا۔

دیگر اداکاروں میں وشیش بھنسال،جمی شیرگل، تشاردلوی، نتیش پانڈے نے بھی اپنے کرداروں کو خوب نبھایاہے،بالخصوص وزیرداخلہ کے بیٹے کاکردار ادا کرنے والے ”وشیش بھنسال“کی اداکاری قابل تعریف ہے۔

مکالموں اورصداکاری کی گونج:

اس فلم میں کئی مکالمے اورصداکاری کے حروف ایسے ہیں،جن کی گونج آپ کے ذہن اوردل میں طویل عرصے تک گونجتی رہے گی۔جیسا کہ یہ چند ایک یہاں درج ذیل ہیں۔

۔باز چوزے پہ جھپٹا،اٹھالے گیا۔کہانی سچی لگتی ہے،مگراچھی نہیں لگتی،باز پہ پلٹ وار ہوا،کہانی سچی نہیں لگتی،مگر خدا قسم بہت اچھی لگتی ہے۔

۔جوکہوں گا،نہیں سمجھوگے،پانچ دس پندرہ سال بعدشاید کہے کا اثرہوگا۔

۔میرابھی بیٹا کھوگیا ہے،چھوٹاسا بڑامنہ کھول کے کوئی کھا رہاتھا،اس کے اندرکھوگیا ہے،غلطی کس کی تھی،پتہ کرکے بتائے منسٹر مجھ کو۔اصول یہ کہتاہے کہ ایک اوربیٹا کھوجائے گا۔

۔میں ایک آئیڈیل ووٹرتھا،اپنی گھرگرہستی ،آٹے دال میں الجھاہوا،جوسپنادکھایا،دیکھ لیا،جوٹی وی نے بولا،اخبار نے بولا،مان لیا،لیکن تم میری دنیا مجھ سے چھینو گے تومیں تمہاری دنیا میں گھس جاﺅں گا۔

۔نہیں ملوں گا،کیسے ڈھونڈوگے،کپڑالتاشکل صورت سب سواسوکروڑجیسی ہے میری،نہیں ڈھونڈپاﺅگے۔

نتیجہ:

اس فلم کو ایک درمیانے درجے کی فلم کہاجاسکتاہے،مگر اس کاموضوع اورکہانی کی پیشکش اتنی دل کو چھولینے والی ہے کہ آپ اس کو دیکھ کر متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔

ایک مرتبہ یہ فلم دیکھنے کے بعد آپ اپنے بچے کی صورت کو بہت غور سے دیکھناچاہیں گے۔یہی اس فلم کاکمال ہے،سچائی کوفلم میں انڈیلنے کے اس عمل میں عرفان خان نے ایک باپ کے دکھ کو پوری طرح بیان کردیاہے اورمتعارف کروادی ہے،وہ للکار بھی،جس کی عوام کو ضرورت ہے۔

قتل وغارت،دہشت گردی،مہنگائی اورناانصافی کا ایک بازار گرم ہے،مگر سماج کے منظر نامے پر ہیبت ناک خاموشی ہے۔یہ فلم ایسی ہی خاموشی کے تالاب میں پہلے کنکر کاکام کرسکتی ہے،مگرعوام ابھی کسی ضروری کام سے سورہے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں