اسلام آباد: وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر عملدر آمد کے لیے ٹاسک فورس محض ایک انتظامی ادارہ ہے، جس میں وزارت داخلہ اور قومی انسداد دہشت گردی اتھارٹی (این اے سی ٹی اے) دونوں مل کر نیشنل ایکشن پلان کے نفاذ کے لیے کردار ادا کریں گے۔

خیال رہے کہ سانحہ کوئٹہ کے بعد 2 روز قبل 15 اگست کو وزیراعظم نواز شریف کی صدارت میں سیاسی اور عسکری قیادت کا اجلاس ہوا، جس میں نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کی نگرانی کے لیے قومی سلامتی کے مشیر لیفٹیننٹ جنرل (ر) ناصر جنجوعہ کی سربراہی میں ٹاسک فورس تشکیل دینے کا باضابطہ اعلان کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: نیشنل ایکشن پلان پرعملدرآمد کیلئے ٹاسک فورس ارکان کا تعین

قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ وزیراعظم نواز شریف نے نیشنل ایکشن پلان پر عملدر آمد کے لیے 13 رکنی اراکین پر متشمل کمیٹی تشکیل دی ہے۔

تاہم وزیر داخلہ میں کمیٹی میں اراکان کی تخفیف کے بارے تبصرہ نہیں کیا، خیال رہے کہ پہلے ٹاسک فورس کی تشکیل کے لیے 15 رکنی کمیٹی کا اعلان کیا گیا تھا۔

واضح رہے کہ 24 دسمبر 2014 کو حکومت نے انسداد دہشت گردی ایکشن پلان کمیٹی تشکیل دی تھی، جس میں وزراء، سینیئر حکومتی، فوجی کے اعلیٰ افسران، ملٹری آپریشنز اور انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی ) کے ڈائریکٹرز جنرل بھی شامل ہوں گے تاہم اس کمیٹی کو اقلیتوں پر ظلم وستم، مدارس کی رجسٹریشن، فرقہ واریت اور میڈیا پر پابندی جیسے معاملات کو کنٹرول کرنے کا ٹاسک دیا گیا۔

وزیراعظم نے کمیٹی کی سفارشات پر عملدرآمد کرنے کے لیے بھی ایک خصوصی کمیٹی تشکیل دی، جس میں وفاقی وزرات داخلہ، اطلاعات ونشریات، ترقی و منصوبہ بندی، دفاع، وزیراعظم کے مشیر برائے قومی سلامتی وخارجہ امور کے وزراء اور خیبر پختونخوا کے گورنر شامل تھے۔

مزید پڑھییں: قومی ایکشن پلان پر عملدرآمد کیلئے کمیٹی تشکیل

پاکستان تحریک انصاف کے رہنما ڈاکٹر عارف علوی اور ڈاکٹر شیری مزاری کے سوالوں کے جواب میں چوہدری نثار نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان پر عملدر آمد کو ذمہ دارانہ طریقے سے سب کو شامل کیا گیا ہے اور ہم سب ایک ساتھ بیٹھ کر ہی کسی ایک فیصلے تک پہنچ سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اگر تمام وزراء ایک مہینے میں ہائی الرٹ سیکیورٹی میٹنگ میں شرکت کریں تو نیشنل ایکشن پلان کی شفافیت اور مناسب پیش رفت ممکن ہے، کمیٹی میں شامل تمام وزراء کو چاہیے کہ وہ ایک ساتھ بیٹھ کر متنازع معاملات پر متفقہ رائے سے فیصلے کریں اور نیشنل ایکشن پلان پر عملدر آمد کے لیے ایک ماہ تک مل کر کام کریں۔

وزیر داخلہ نے صوبوں کے ساتھ تعاون کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان کے 20 نکات میں سے 9 صوبوں اور 8 وفاقی وزارتوں سے متعلقہ ہیں، جس میں مذہبی امور، وزارت خزانہ، تعلیم، اطلاعات و نشریات شامل ہیں، دو نکات خاص طور پر وزارت داخلہ اور سندھ حکومت سے متعلقہ ہیں جس میں کراچی آپریشن اور پاکستان ٹیلی کمیونیکشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کے ساتھ موبائل سم کی تصدیق شامل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان پر عملدار آمد کو یقینی بنانے کے لیے اعلیٰ سطح پر فیصلے کیے جائیں گے اور ایک ماہ تک اس کی نگرانی کی جائے گی جبکہآئندہ اجلاس میں یہ جائزہ لیا جائے گا کہ کس نے اپنے فرائض انجام دیئے اور کس نے نہیں‘۔

پی ٹی آئی کے رہنما ڈاکٹر عارف علوی کے سوال ’نیشنل ایکشن پلان پر عملدر آمد کے لیے نئی ٹاسک فورس میں پارلیمنٹ کی نمائندگی کیوں نہیں ہے؟‘ تو اس بارے میں چوہدری نثار علی خان کا کہنا تھا کہ ’کمیٹی کا پارلیمنٹ سے کوئی تعلق نہیں، جب بھی ضرورت ہوگی میں پارلمینٹ کو بریف کرنے کے لیے موجود ہوں‘۔

سانحہ کوئٹہ

وزیر داخلہ نے کوئٹہ میں سول ہسپتال میں خودکش دھماکے کی تحقیقات میں خفیہ اداروں کے کردار کی بھی تعریف کی اور کہا کہ ’کوئٹہ خودکش حملے میں جو بھی شواہد ملے ہیں اس میں انٹیلی جنس ایجنسیز کا بہت اہم کردار ہے، ان کی شواہد کی بنیاد پر ہم نے کچھ افراد کو گرفتار بھی کیا ہے لیکن اس وقت اس بارے میں کچھ کہنا قبل وقت ہوگا’۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان حکومت نے ہمیں دو شواہد (تصویر اور فنگر پرنٹس) فراہم کیے ہیں۔

وزیر داخلہ کا مزید کہنا تھا کہ ہمیں جائے وقوع سی کئی افراد کے سر ملے ہیں تاہم ابھی تک یہ تصدیق نہیں ہوسکی کہ آیا وہ سر خودکش بمبار یا کسی اور کے ہیں، ان سروں کی حالت بہت خراب ہے جس کہ وجہ سے کسی کی بھی شناخت کرنا مشکل ہے‘۔

بلیک لسٹ امریکی شہری

قومی اسمبلی میں پاکستان تحریک انصاف کی شیری مزاری نے کہا کہ بلیک لسٹ امریکی شہری میتھیو کریگ بیرٹ نے پابندی کے باوجود پاکستان میں کیسے داخل ہوا اور اس کو 48 گھنٹے کے اندر پاکستان کا ویزا کیسے جاری کردیا؟‘

شیری مزاری کے سوالوں پر وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ ’امریکی شہری کو 48 گھنٹے میں نہیں بلکہ 24 گھنٹے کے اندر پاکستانی ویزے کا اجرا ہوا اور یہ ایک بہت بڑا جرم ہے‘۔

یہاں پڑھیں: بلیک لسٹ امریکی شہری اسلام آباد سے گرفتار

انہوں نے مزید کہا کہ ویزے کے لیے کئی افراد کو کئی عرصے تک انتظار کرنا پڑتا ہے اور امریکی شہری کو کیسے اتنی جلدی ویزا مل گیا، امریکی شہری نے ویزا فارم میں ماضی میں ملک بدری کے خانے کو پر نہیں کیا تھا، مجھے اس کیس کی انکوائری پورٹ مل گئی ہے جس کے مطابق اس بات کے اشارے ملے ہیں کہ ویزا عہدے دار کی غلطی کی وجہ سے یہ واقعہ رونما ہوا‘۔

تاہم وزیر داخلہ نے امریکی شہری کے جاسوس ہونے کے تاثر کو رد کرتے ہوئے کہا کہ امریکی شہری کو 2011 میں فتح جنگ میں حساس تنصیبات کی تصاویر لیتے ہوئے گرفتار کیا گیا تھا لیکن ہم نے 2011 سے اس کے کیس کا ریکارڈ کا جائزہ لیا ہے، جس میں امریکی شہری کے قبضے سے حساس مقامات کے نقشے برآمد ہونے کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے اور سیکیورٹی ایجنسیز نے اس کے خلاف کوئی جاسوسی کا مقدمہ کیا۔

انہوں نے ارکان اسمبلی کو بتایا کہ امریکی شہری کے سسر وکیل ہیں، انہوں نے عدالت عظمیٰ میں اس کی رہائی کے لیے درخواست جمع کروائی تھی اور جس کے بعد عدالتی فیصلے پر اس کو ملک بدر کیا گیا تھا۔

خیال رہے کہ وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) نے بلیک لسٹ میں موجود ایک امریکی شہری کو ہفتہ 6 اگست کو دوبارہ پاکستان میں داخل ہونے پر اسلام آباد سے گرفتار کیا تھا جس کے بعد ان کے خلاف پاکستان کسٹم ایکٹ اور فارن ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں