Dawnnews Television Logo

مشکلیں ان پر پڑیں اتنی کہ آسان ہو گئیں

نفیس بدنظمیوں، بے انتہا خوشیوں کا نام پاکستانی کرکٹ ٹیم ہے جو کہ دنیا کی اول نمبر ٹیم ہے۔
اپ ڈیٹ 25 اگست 2016 11:54am

4 مارچ 2009 کی صبح اننگز کا آغاز یونس خان کی ایک اننگ کے ساتھ ہونا تھا۔ ایک ہفتہ قبل ہی انہوں نے ٹرپل سنچری داغ کر پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے اپنی کارکردگی کا بہترین مظاہرہ کیا تھا۔

مگر یونس خان تو کریز پر ہی نہ آئے۔ ایسا نہیں ہونا تھا۔

حالانکہ اُس موقع پر سری لنکن ٹیم اور آئی سی سی آفیشلز حملے کا شکار ہوئے تھے لیکن پاکستان ٹیم اس کے بعد سے مسلسل شکار ہو رہی ہے۔

کرکٹ کی دیوانی عظیم اور بافخر قوم دنیائے کرکٹ میں اپنے ملک میں کرکٹ کھیلنے سے محروم رہنے والی پہلی ٹیم بن گئی۔

انگلینڈ میں ان کے پہلے نیوٹرل ٹیسٹ کے دوران کپتان نے لارڈز کے میدان میں جاری میچ دوران ہی ٹیم کی قیادت چھوڑ دی۔ اسی دورے پر کپتان کی جگہ آنے والا اپنے ساتھ دنیائے کرکٹ کے دو بہترین باؤلرز کے ساتھ ایک گھناؤنے جرم کا ارتکاب کرتا ہے۔

غدار اور دہشت گرد دونوں ہی انہیں شکست دینے کی کوششوں میں مصروف تھے۔

کرکٹ بورڈ میں آفریدی کی اننگز سے بھی زیادہ تیز رفتاری سے تبدیلیاں ہو رہی تھیں۔ ان کے سینیٹرز اٹھ کھڑے ہوئے اور انہیں دھوکے باز پکارنے لگے۔ کھلاڑیوں پر پابندی عائد کر کے واپس اٹھا بھی لی گئی اور اس کی وجوہات کے بارے میں زیادہ بہتر وہی احمق جانتے ہیں جنہوں نے انہیں سینیٹر منتخب کیا تھا۔

ان کے پاس کوئی پروفیشنل ڈھانچہ نہیں تھا۔

ٹیم کی خراب کارکردگی یا خراب کارکردگی سمجھنے جانے کے سبب کوچز کے آنے اور جانے کا سلسلہ جاری رہا مگر اس کی اصل وجہ یہ تھی کہ کرکٹ ڈھانچے کو دوبارہ کھڑا کرنے سے آسان کام کوچ کو برطرف کرنا ہوتا ہے۔

غداروں نے انہیں اندر اور دہشتگردوں نے باہر سے ختم کرنے کی کوشش۔ انہیں اپنے بورڈ کی جانب سے باقاعدگی سے سرپرستی حاصل نہ تھی اور ایک ایسا دور جب ہوم ٹیمیں اپنا لوہا منوا رہی تھیں تب ان کے پاس ہوم ہی نہیں تھا۔

ایسی صورتحال میں تو انہیں ختم ہوجانا چاہیے تھا۔

ایک ایسا آدمی جو کبھی نظر انداز کردیا گیا تھا، اس نے ایسا نہیں ہونے دیا۔ یہ پاکستان جیسے ملک کے بارے میں بہت کچھ بیان کر دیتی ہے۔ اس تمام صورتحال کے باوجود بھی پاکستان جیسا ملک مصباح جیسا کھلاڑی پیدا کر پایا مگر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انہوں نے مصباح کو نظر انداز بھی کیے رکھا۔ وہ کوئی ڈکٹیٹر یا آمر تو نہیں تھے، وہ دکھاوا بھی نہیں کرتا تھے، وہ کوئی اگلا نوجوان کھلاڑی بھی نہیں تھے۔ جب وہ ٹوٹی بکھری ٹیم کو دوبارہ ترتیب کرنے میں لگے تھے تب پاکستان کے کرکٹ شائقین ان کا موازنہ ’’ٹک ٹک’’ سے کر رہے تھے۔

وہ رنز بناتے ہوئے دو تین سال گزارنے کے بعد کمنٹری بوتھ کا رخ کر سکتے تھے جہاں وہ ان کھلاڑیوں پر سوال کھڑے کرتے رہتے جن کی کبھی وہ رہنمائی کر رہے تھے۔

اس سب کے بجائے انہوں نے اپنی بیٹنگ جاری رکھی۔ مصباح اپنی عمر کی چالیسویں دہائی میں ہیں۔ لیکن ہمیں ابھی تک یہ معلوم نہیں کہ وہ کتنا اور عرصہ اسی طرح کھیلتے رہیں گے۔ اگر وہ اس ٹیم میں اپنے لائق جانشین کے منتظر ہیں تو پھر شاید انہیں اپنی عمر کی پچاسویں دہائی تک بھی کھیلنا پڑ سکتا ہے۔ جس کی وجہ مصباح پر ٹیم کا اعتماد ہے۔

ہاں ایسا جسمانی یا مادی طور پر تو ممکن نہیں ہو سکے گا مگر جو کچھ انہوں نے اپنے ملک کے لیے کیا وہ بھی تو ممکن نہیں تھا۔

مصباح الحق — رائٹرز
مصباح الحق — رائٹرز

پاکستان کرکٹ کی میری کہانی میلبرن کے مضافاتی علاقوں سے شروع ہوتی ہے۔

میری پسندیدہ ٹیم صرف ایک ہی تھی۔ مگر 89/90 میں میلبرن کرکٹ گراؤنڈ میں پاکستان کا میچ دیکھنے گیا۔ وہ میری زندگی کا پہلا ٹیسٹ دیکھنے کا تجربہ تھا۔ ہم ایک طرف بیٹھے تھے، وسیم اکرم نے اس طرح گیند کو پھینکیا کہ مجھے گیند ہی نظر نہ آئی۔ مجھے نہیں معلوم کہ کوئی کسی کو دیکھتے ہی اس کی محبت میں فوراً کیسے گرفتار ہو سکتا ہے مگر میں ضرور ہو گیا تھا۔

اگلے ہفتے پاکستان سڈنی میں میچ کھیل رہا تھا اور میں نے انہیں ٹی وی پر دیکھا۔

محمد عامر — رائٹرز
محمد عامر — رائٹرز

ٹی وی پر دیکھتا ہوں تو ایک آدمی کھڑا ہے جو کسی بونے پکسی کارٹون کی مانند وکٹ کے بیچ و بیچ باؤنس کر رہے تھے۔ ان کے بازو یوں تیزی سے گھومتے کہ بال دونوں جانب نکل جاتی تھی۔ میں نے اس وقت حال ہی میں لیگ اسپن کھیلنا شروع کیا تھا اس لیے میں تھوڑا بہت جانتا تھا کہ وہ کس انداز کی بالنگ ہے مگر مجھے کوئی اندازہ نہیں تھا کہ مشتاق احمد وہاں کیا کر رہے تھے۔ وہ محض لیگ اسپن تو نہیں تھا، وہ کچھ جادوئی یا غیر قانونی سا تھا اور میں بھی ایسا کرنا چاہتا تھا۔

بس اس دن سے میں نے مُشی جیسی باؤلنگ کرنے کی بھرپور کوشش کی۔

برسوں بعد میں اپنے مضافاتی علاقے کے لوگوں کی منعقدہ تقریب میں گیا اور تب میرے والد نے کسی بندے کو بتایا کہ میں کرکٹ کھیلتا ہوں، اس شخص نے مجھ سے پوچھا کہ میں ’’کس انداز میں باؤلنگ کرتا ہوں؟’’ تو میں نے کہا کہ لیگ اسپن۔ تو وہ بندہ آگے سے کہتا کہ ’’وارنی(شین وارن) کی طرح ناں؟’’۔ میں نے جواب دیا نہیں، مشتاق احمد کی طرح۔ تو اس نے میری طرف تعجب سے دیکھنا شرو ع کردیا۔

میں اس قدر کم عمر تھا کہ مشتاق سے میری پسندیدگی کو بھی سمجھانے سے قاصر تھا۔

مجھے آسٹریلین کرکٹ سے بھی پسند تھی؛ اور میں نے دوسروں کی طرح ہی وہاں سے تربیت حاصل کی تھی۔

مگر مجھے پاکستان کرکٹ پسند تھی۔ میں بین الاقوامی کرکٹ کو بھی ان کی ہی وجہ سے دیکھتا یا فالو کرتا تھا۔ جب کبھی بھی میں لیگ اسپن باؤلنگ کرتا تو مُشی کی طرح کرنے کی کوشش کرتا اور اگر تیز باؤلنگ کرنی ہوتی تو وسیم اکرم کے انداز کی نقل کرتا۔

میں کسی پاکستانی بچے کو نہیں جانتا تھا، میں نے اپنے شہر میں اقوام متحدہ کی کرکٹ ٹیم کے ساتھ بھی میچ کھیلا تاہم پھر بھی ہماری کسی پاکستانی سے ملاقات نہیں ہوئی تھی۔

مگر اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ میرے پاس عمران میرے ہیرو، انضی میرے لیجنڈ، وسیم سوئنگ کے سلطان اور میرے مشی تھے۔ وہ تھا میرا پاکستان۔

میں نے جب یہ مضمون لکھنا شروع کیا تو میں نے اپنی سائٹ پر چار تصاویر لگا دیں۔

ان میں نیل ہاروے کے پاؤں، کیتھ ملر کا بیٹنگ شاٹ، ویس ہال کی چھلانگ اور اب تک کی سب سے بہترین شرٹ پہنے ہوئے، اپنے ہاتھوں کو سر سے بلند کیے ہوئے عمران خان کی تصاویر شامل ہیں۔ یہ تمام میرے لیے کرکٹ تھے۔

ان کے اول آنے پر میری خوشی کی وجہ یہ نہیں کہ 9 برس کی عمر سے انہیں پسند کر رہا ہوں، بلکہ اس کی ایک تاریخ ہے۔

ہمارے کھیل نے خود کو محدود یا توسیع نہ کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔ اور اگر اس میں اضافہ بھی ہوا ہے تو بھی یہ کھیل انگلینڈ اور آسٹریلیا کے ہاتھوں میں ہی رہا۔ ویسٹ انڈیز، جو کہ ایک بہترین ٹیم رہنے کے باوجود بھی انتظامی معاملات کے اندر اختیارا کے حصول میں ناکام رہا۔ البتہ ہندوستان وہ ملک ہے جس نے اربوں ڈالرز کے اثر رسوخ سے یہ مقام حاصل کیا۔

جبکہ پاکستان اپنے قیام سے ہی اس سلسلے میں جدوجہد کر رہا ہے۔

حالانکہ پاکستان کے پاس پہلے ہی کافی سارے ٹیسٹ کرکٹرز موجود تھے مگر انہیں بین الاقوامی ٹیسٹ کھیلنے کی اجازت لینے کیلئے برسوں انتظارکرنا پڑا۔ جبکہ پاکستان کو ٹیسٹ کرکٹ میں اول بننے میں نسلیں لگ گئیں۔ پاکستان کے پاس کرکٹ کا ایک عظیم دور اور لمحہ تھا اور بدانتظامی سے بھری ورلڈ کپ کی فتح بھی اپنے نام رکھے ہوئے تھا جو انہوں نے صرف بارش کی وجہ سے حاصل کی تھی۔

مگر اس کے ساتھ ساتھ ان پر ریورس سوئنگ کرنے پر فراڈ اور دھوکا دہی کے الزامات بھی لگائے گئے۔

پھر جب وہ ٹیم اول نمبر آ گئی تھی، وہ مقام انہوں نے جدوجہد کر کے حاصل کیا تھا، جس کے لیے وہ چالیس برس لڑتے رہے مگر تب اس ٹیم کے کھلاڑی ہی تھے جن کی وجہ سے وہ اول مقام ہاتھ سے نکل گیا۔ ان کے اپنے جج نے غصے کا اظہار کیا کہ یہ کرکٹ ٹیم کیا سے کیا بن گئی ہے۔

ٹیسٹ کرکٹ کی تمام تاریخ میں حقیقی طور پر صرف پانچ ٹیمیں ہی اول پوزیشن پر رہ چکی ہیں۔ اسے غیر آفیشل کہیں گے یا نہیں لیکن لوگ کہیں گے کہ پاکستان 80 کی دہائی میں ایک یا دو ماہ کے لیے پہلی پوزیشن پر تھا۔

مگر بے ضابطہ یا باضابطہ طور پر ہی سہی، کوئی اس بات پر یقین نہیں کرتا کہ اس عرصے میں یہ ٹیم ویسٹ انڈیز سے ایک نمبر آگے تھی۔

یونس خان شاٹ کھیل رہے ہیں — اے ایف پی
یونس خان شاٹ کھیل رہے ہیں — اے ایف پی

بہرحال اب تعداد پانچ سے چھے ٹیموں میں بدل گئی ہے۔ یہ حقیقت ہے۔ جی ہاں ٹرینیڈاڈ کی بارش اور یونس خان کی اوول میں ڈبل سینچری جیسی ہی ایک حقیقت۔

لاہور کے حملے کو 2 ہزار 728 دن گزر چکے ہیں۔ اس پورے عرصے کے دوران وہ ایک ہزار برسوں کی کرکٹ کھیل چکے ہیں۔ پاکستان کرکٹ کی دھڑکن لاکھوں بار بند ہونے کو آئی۔ لاکھوں بار پاکستانی مداحوں نے غم و غصے کا مظاہرہ کیا۔ اس ملک، ان کے رہنماؤں نے انہیں چھوڑ دیا۔ مگر اب بھی وہ پہلے کی نسبت کہیں زیادہ بہتر پوزیشن میں ہیں۔

وہ دنیا کی بہترین ٹیم ہیں۔

دنیا کی اکثر بہترین ٹیمیں زیادہ تر اپنے ملک اور باہر بہترین دونوں میں بہترین کھیل کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ لیکن صرف ملک سے باہر کرکٹ کھیل رہا ہے۔

پاکستان کے سوا دنیا کی کسی دوسری ٹیم نے اول آنے کے لیے اتنی مشکلاتوں کا سامنا نہیں کیا۔

ویسٹ انڈیز کا اپنا ملک تو قلعے کی مانند تھا۔ آسٹریلیا اور انگلینڈ اپنے دور کے سب سے زیادہ پروفیشنل تھے۔ ہندوستان تو خیر اربوں ڈالر کی ٹیم ہے۔ اور جنوبی افریقہ کے مسائل بھی پاکستان کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں۔ وہ اول نمبر پر آنے کے قابل بہترین ٹیم بھی نہیں ہے؛ البتہ وہ کافی حیران کن ضرور ہیں۔

کرکٹ کی تاریخ، ان کا بورڈ، ان کی ملک اور ایسا بھی وقت آیا جب ان کی اپنی ٹیم نے اس غرض سے کہ کچھ ایسا واقع نہ ہو، انہوں نے اپنے اندر موجود پوری قوت لگادی اور پھر بھی ایسا واقع ہو گیا اور ٹیم اول نمبر پر آ گئی۔ یہ ایسی زبردست بات ہے جیسی اعجاز احمد کی گرپ۔ جیسے پاکستان کی فاسٹ باؤلنگ کے بال، جیسے مصباح کی داڑھی۔ جیسے فضل محمود کی پرکشش شخصیت۔ جیسے حنیف محمد کی توجہ مرکوز کرنے کی صلاحیت۔ جیسے عمران خان۔

پاکستان، جس میں انوکھے ترین، غیر موافق، ناقابل اعتماد کھلاڑیوں نے کرکٹ کھیلی اور جن بدترین حالات میں ٹیم ان کے حوالے کی گئی تھی انہوں نے نہ صرف ان حالات کو شکست دی بلکہ کرکٹ میں اول پوزیشن بھی حاصل کی۔

انہیں بین الاقوامی ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے کی اجازت لینے میں منت سماجت کرنا پڑی۔ انہیں یہ بھی ثابت کرنا پڑا کہ انہوں نے کوئی چیٹنگ یا دھوکا نہیں کیا۔ انہیں ہیروز کی ایک نسل نے مایوس کیا۔ انہیں اپنے ملک کرکٹ نہ کھیلنے جیسی صورتحال پر بھی غالب آنا پڑا۔ انہیں اپنے دو بہترین باؤلرز کے خلا کو بھی پر کرنا پڑا تھا۔

انہیں محض کسی ایک کرشماتی یا جادوئی ٹورنامنٹ کیلئے یکجا ہونے کے بجائے اپنے ملک سے دور رہ برسوں محنت کرنی تھی، مشکوک ایکشن پر باؤلرز سے محروم ہونا تھا، حتیٰ کہ ساٹ فٹ طویل القامت باؤلر بھی ہمت ہار گیا اور ساتھ ساتھ دنیا انہیں مجرمانہ نظروں سے دیکھتے ہوئے نظرانداز کر رہی تھی۔

بہرحال ان تمام باتوں کے بعد وہ کرکٹ کے سب سے مشکل صحرا کو فتح کرنے میں بالآخر کامیاب رہے۔

پاکستانی ٹیم اپنی فتح کا جشن منا رہی ہے — رائٹرز
پاکستانی ٹیم اپنی فتح کا جشن منا رہی ہے — رائٹرز

ایسا تو نہیں ہونا تھا۔

یونس کو ابھی تک کھیلنا نہیں تھا۔

مصباح کو کبھی بھی کپتان نہیں بننا تھا۔

محمد عامر کو دوبارہ واپس نہیں آنا تھا۔

انہیں انگلینڈ میں سیریز ڈرا تو نہیں کرنی تھا۔

اس ٹیم کو اول نمبر پر تو نہیں آنا تھا۔

پاکستان کرکٹ کے ساتھ جو چیزیں ہوئیں انہیں نہیں ہونا تھا۔ کبھی کبھار تو یہ ٹیم مایوس کن کارکردگی پیش کرتی ہے تو کبھی کبھار شاندار۔

ان کا آج بہت شاندار ہے۔ یہ ٹیم بھی کسی شاندار عجوبے سے کم نہیں۔

نفیس بدنظمیوں، بے انتہا خوشیوں کا نام پاکستانی کرکٹ ٹیم ہے جو کہ دنیا کی نمبر ایک ٹیم ہے۔


جیرڈ کِمبر آسٹریلیا سے تعلق رکھتے ہیں اور کرکٹ تجزیہ نگار ہیں۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔